کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع جولائی 12, 2017 | 09:08 صبح

 

کئی سال قبل ایک برطانوی پبلشر نے دعویٰ کیا تھا کہ برطانیہ کی ملکہ الزبتھ اور انکے خاندان کا تعلق ہاشمی خاندان سے ہے، اسکی تائید قطر سے شائع ہونیوالے ایک عربی جریدے ”الامتہ“ (شمارہ اپریل 1986ء) نے بھی کی جس کے ایک مضمون نگار کا کہنا تھا کہ برطانیہ کے ایک بادشاہ کا نام اوفا تھا جو عربی نام ہے اور یہ بادشاہ مسلمان تھا۔ اس بادشاہ نے انگلستان پر757ءسے 794ءتک حکومت کی اور اسی کے دور حکومت میں انگلستان کا تمام علاقہ اس قلمرو میں شامل ہوا ،اس بادشاہ کا جاری کیا ہوا ایک سکہ

جو 1941میں دریافت ہوا، اس پر عربی زبان میں کلمہ طیبہ کے علاوہ ”ھو الذی ارسل رسولہ بالھدیٰ و دین الحق والی آیت اور بادشاہ کے عربی نام”اوفا“ کے علاوہ بسم اللہ بھی لکھا ہوا ہے، یہ سکہ 157ہجری میں ڈھالا گیا، یہ تاریخ بھی سکے پر درج ہے اور بادشاہ کے دستخط بھی۔ (157ءبمطابق 774عیسوی)۔
جنوری 1936ءمیں ایڈورڈ ہشتم کو بادشاہت کا تاج پہنا کر تخت نشیں کیا گیا تھا۔وہ ایک امریکی خاتون سمپسن کی محبت میں مبتلا ہوگئے جو دو جگہ سے طلاق حاصل کرچکی تھی۔ ایڈورڈ نے اس سے شادی کرنا چاہی مگر پارلیمنٹ نے بہت سی آئینی رکاوٹیں کھڑی کردیں۔مگر شہنشاہِ برطانیہ اپنی محبت سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں تھا۔انہوں نے تخت تاج سے دستبردار ہوکرسمپسن سے شادی کی اور ملک بھی چھوڑدیا۔انکی بادشاہت کا عرصہ ایک سال سے بھی کم تھا۔ایڈورڈ کی جگہ شہزادہ البرٹ تخت نشیں ہوئے جو موجودہ ملکہ کے والد تھے۔
ایڈورڈ ہشتم کو بھی ہر برطانوی ملکہ اور بادشاہ کی طرح زندگی کی آخری سانس تک تخت داری کا مینڈیٹ ملا تھا مگر شاہی خاندان کی ایک روایت سے اغماض پر ان کا مینڈیٹ ختم ہوگیا۔واٹر گیٹ سکینڈل میں امریکی صدر نکسن کو جھوٹ بولنے کی پاداش میں اپنا مینڈیٹ ادھورا چھوڑ کر استعفیٰ دینا پڑا تھا۔ کبھی تو قدرت بھی عوام، آئین اور قانون کے دئیے ہوئے مینڈیٹ کی تکمیل میں حدِ فاصل قائم کردیتی ہے۔مدت اقتدار کی تکمیل سے قبل فرشتہ اَجل اذن کی تعمیل کیلئے آجاتا ہے۔ عوامی مینڈیٹ جتنی مدت کیلئے دیا اور جس کو دیا جاتا ہے، دینے والے اسکے ضامن نہیں ہوسکتے۔ جب آپ مینڈیٹ دینے والوں کے اعتماد پر پورا نہیں اترتے تو مینڈیٹ اسی وقت ختم ہوجاتا ہے مگر پاکستان میں چونکہ عوام کے پاس مینڈیٹ واپس لینے کا کوئی طریقہ نہیں اس لئے مینڈیٹ کی جو بھی دُرگت بنائی جائے اسکی تکمیل پر ڈٹ جانے اڑجانے کی روایت پائی جاتی ہے۔ آصف علی زرداری کی قیادت میں ملکی وسائل کے ساتھ پانچ سال جس طرح کھلواڑ کیا گیا، عوام کے پاس مینڈیٹ واپس لینے کا کوئی طریقہ ہوتا تو کرپشن کہانیوں کا آغاز انجام تک نہ پہنچ پاتا۔
پانچ سال عوامی خدمت اور ملکی ترقی کیلئے دئیے جاتے ہیں،اجاڑ اور بگاڑ کیلئے نہیں۔ حکمران اشرافیہ جب مافیا بن جائیں اور ثبوتوں کے ڈھیر لگے ہوں تو بھی مینڈیٹ کی تکمیل کا عزم بالجزم پاکستان ہی میں دیکھا جاسکتا ہے۔ حکمران پارٹی کا وزیراعظم کو انکی آئینی مدت پوری کرانے پر زور ہے کیونکہ عوام نے پانچ سال کا مینڈیٹ دیا ہے۔ میاں نوازشریف اور بینظیر بھٹو کی 90 ءکی ایک دہائی میں دو دو بار حکومتیں توڑی گئیں، اس وقت مینڈیٹ کی تکمیل کہاں گئی تھی؟ ان میں سے تین بار حکومتوں کے خاتمے میں فوج کا تعلق نہیں تھا۔ چوتھی بار مشرف نے شب خون مارا جس کو ہماری پارلیمان نے جائز قرار دیا جس میں وہ لوگ بھی موجود تھے جو آج کی پارلیمان کا حصہ ہیں اور کچھ ن لیگ کیساتھ ہیں۔
خدا کی بے آواز لاٹھی جس پر پڑتی ہے اس کی بلبلاہٹ میں کوئی کسر نہیں رہ جاتی۔ آج حکمران پارٹی اسی مرحلے اور کیفیت سے گزر رہی ہے۔ پانامہ کیس فیصلے میں میاں نوازشریف کی صرف وزارت عظمیٰ بچی تھی، اب رہی سہی کسر اُس جے آئی ٹی نے نکال دی ہے جس کی تشکیل پر مسلم لیگ ن کے لیڈر ایک دوسرے کو مبارکباد دے رہے تھے اور مٹھائی کی دکانیں خالی ہوگئی تھیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کیخلاف جب پی این اے کی تحریک چلی تو انہوں نے کرسی کے بازوپر ہاتھ مارتے ہوئے کہا تھا ”میں نہیں میری کرسی مضبوط ہے“ کرسی اُسی کی مضبوط ہے جس کے ساتھ کرسی دینے والا کھڑاہو۔ تکبر شان اور صفاتِ کبریائی ہے۔ انسان تکبر کرے تو پھر وہی ہوتا ہے جو جنرل ضیاءالحق کے ساتھ ہوا،بھٹو کے ساتھ ہوا۔کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے۔ جنرل ضیاءالحق نے ایک مرتبہ ڈاکٹر اسرار احمد کے کسی بیان پر کہا تھا اتھارٹی ڈاکٹر اسرار نہیں، اتھارٹی میں ہوں۔ اب محترمہ مریم نواز شریف نے کہا ہے فیصلہ عرش والے کا چلے گا۔ نوازشریف چوتھی پانچویں بار وزیراعظم بنیں گے کوئی روک سکتا ہے تو روک لے۔ حضرت فاطمہؓ اور حضرت بی بی زینبؓ جیسی اعلیٰ اور پاکیزہ ہستیوں کے نام سیاسی مقاصد کےلئے استعمال کئے۔ تکبر! نتیجہ ہمیشہ اب جیسا، بھٹو بہت بڑی مثال
کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے
بھٹو کے اعمال میں اور بھی بہت کچھ تھا۔ پاکستان دو لخت کرنے میں کردار، جس کے باعث تاریخِ اسلام کی سب سے بڑی ہزیمت: 93 ہزارپاکستانی بدترین دشمن کی قید میں گئے۔ ہزاروں افراد خاک اور خون میں نہا گئے۔ کیان لیگ کا نامہ¿ اعمال قرطاسِ ابیض ہے؟ میٹرو، اورنج ٹرین، شاہراہوں میں توسیع عوامی فلاحی منصوبے ہیں مگر سینکڑوں لوگوں کے سر سے چھت چھنی، ہزاروں کا کاروبار اور روزگار گیا۔ سستا اور آرام دہ سفر کرنے والے ہاتھ اٹھا کر دعا کرتے ہیں۔ چند ایک کی جھولی اٹھا کر آہ بھی نکلتی ہے۔ ان میں سے کسی ایک ہی کی لگ گئی ہوگی۔
صدرِ عالی وقار، حضرت ممنون حسین درویش صدر ہیں۔ حکومت اور حکمرانوں کے گن گانا انکی مجبوری اور احسان کشوری کا تقاضا ہے، تاہم وہ کبھی چاہتے اور کبھی نہ چاہتے ہوئے بھی سچی بات کر جاتے ہیں یا دل کی آواز لب پر آجاتی ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ پانامہ کیس خدا کی طرف سے قوم کیلئے ایک نعمت ہے۔ یقینا نعمت ہے۔ وزیراعظم اور ان کا خاندان قانون کی پکڑ میں آتا دکھائی دیتا ہے۔ ہم دعا گو ہیں کہ خدا کی پکڑ میں نہ آئے ورنہ۔کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے۔انکے اثاثے پاکستان آگئے تو کسی کے بھی بچ نہیں سکیں گے۔ ہمارے ہاں ادارے یرغمال بنائے جاتے ہیں۔ اداروں کے کچھ لوگ خود فروش ہیں، کچھ دباﺅ میں آجاتے ہیں۔ سپریم کورٹ کی طرف سے ظفر حجازی پر مقدمہ درج کرنے کے حکم سے اس قبیل کے لوگوں کو کان ہوگئے ہونگے۔ احمد نورانی نے ایک جھوٹی رپورٹ شائع کردی ، سپریم کورٹ نے توہین عدالت کا نوٹس لیا تو یہ نوجوان رپورٹر معافی کا طلبگار ہے۔”سات جولائی کے بعد دیکھنا تمہارا کیا حشر کرتے ہیں۔تم پر اور تمہارے بچوں پر زمین تنگ کردینگے۔“ ایسے دھمکیاں دینے والے نہال ہاشمی پر فردِ جرم لگ گئی ہے،باقیوں سے بازپرس ہونے والی ہے۔
جے آئی ٹی کی رپورٹ کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہے۔ فیصلہ سپریم کورٹ نے کرنا ہے وہ کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ دو ججوں کے فیصلے کی ایک بھی جج نے توثیق کردی تو میاں صاحب گئے۔ گھر جاسکتے ہیں جیل جاسکتے ہیں۔ بادی النظر میں میاں نوازشریف اپنی مرضی اور فرمانبردار وزیراعظم لانے کے قابل نہیں رہیں گے۔ اسفند یار ولی جو کہتے تھے نوازشریف سے کسی کا باپ بھی استعفیٰ نہیں لے سکتا ہے۔ اب سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار کرنے کو کہہ رہے ہیں۔وزیراعظم کے ساتھ آج صرف مولانا فضل الرحمن کھڑے ہیں جوہر وزیراعظم کے ساتھ ہوتے ہیں۔کل جو ہوگا اسکے ساتھ ہونگے۔
تہہ دل سے دعا ہے کہ وزیراعظم نوازشریف اور ان کی اولاد نے اگر کوئی غیر قانونی کام نہیں کیا تو ان کا بال بھی بیکا نہ ہو، ان کیخلاف سازش کی جارہی ہے تو سازشیوں کا منہ کالا ہو اور یہ سرخرو ہوں۔ اگر کچھ کیا ہے تو اِس دنیا میں بھی حساب دے کے جائیں۔ مگر انکی جان سلامت رہے۔ کوئے یار سے نکلیں تو جاتی اُمرا چلے جائیں۔