انصاف و قانون کے ستون .... الف‘ الف‘ نون

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع نومبر 06, 2017 | 06:50 صبح

سٹیل مل بیچی گئی تو ملازمین نے سیاپا کرنا ہی تھا۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے سوموٹو کے تحت سٹیل مل واگزار کرنے کا فیصلہ دیدیا۔ اس کیس میں حکومت کو افتخار چودھری کی سربراہی میں عدلیہ مخالف سی لگی۔ حکومت کےخلاف کیس بیرسٹر ظفر اللہ نے لڑا اور جیتا تھا۔ ان دنوں یہ باتیں بھی ہوئیں کہ کیس کسی اشارے پر کھڑا کیا گیا ہے۔ عدلیہ سے مشرف جیسے ڈکٹیٹر کے سامنے ڈٹ جانے کی امید نہیں کی جا سکتی تھی مگر ایک روز مشرف کے ایک ایکشن سے شکوک و شبہات کے بادل چھٹ گئے۔ جسٹس افتخار کو صدر مشرف نے سیک کر دیا، ان کا

کیس زیرگردش ”ایک لیٹر“ پر سپریم جوڈیشل کونسل بھجوا دیا گیا جہاں جسٹس خلیل رمدے کی سربراہی میں جسٹس افتخار چودھری پر الزامات کا جائزہ لے کر فیصلہ کرنا تھا۔ مشرف کے اس اقدام کو آمرانہ اور جارحانہ قرار دیا گیا۔ ملک میں مشرف کے اس اقدام پر ہیجانی کیفیت تھی۔ مشرف کےخلاف اور افتخار چودھری کی حمایت میں ملک بھر میں ایک فضا بن گئی۔ چیف جسٹس ان دنوں مقبولیت کی بلندیوں پر نظر آئے۔ ان کو خلیل رمدے کی سربراہی میں سپریم جوڈیشل کونسل نے بے قصور قرار دیدیا۔ وہ پھر سے چیف جسٹس کی کرسی پر بیٹھ گئے مگر حکومت اور عدلیہ کے مابین جو مطلوبہ ورکنگ ریلیشن شپ ہونی چاہئے تھی وہ مفقود ہو گئی۔ آخر یہ سلسلہ کب تک چلتا۔ حکومت چودھری کو برداشت اور وہ حکومت سے رعایت کرنے پر تیار نہیں تھے جس کی پاداش میں 3 نومبر 2007ءکی ایمرجنسی کا نفاذ ہوا جس کے تحت ججوں کو نظر بند کر دیا گیا اور حمید ڈوگر کی سربراہی میں نئی سپریم کورٹ وجود میں لائی گئی۔ مگر مشرف کے اس اقدام کی باز گشت پر افتخار چودھری نے رات کے پہلے یا دوسرے پہر ایسے کسی اقدام کے خلاف حکم جاری کر دیا۔ کاغذ پر تحریر حکم فوری طور پر ٹینک توپ اور بندوق کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا۔ مگر بعد میں اس حکم پر عملدرآمد ہو گیا۔ ججوں کی نظر بندی کے خلاف ملک میں وکلا نے تحریک شروع کی جس میں کچھ سیاسی جماعتیں سوائے حکومتی اور اس کی اتحادی پارٹیوں کے حکومت کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئیں۔ مسلم لیگ ن اور اس دور کی پی ٹی آئی جو ان دنوں آج کی شیخ رشید کی پارٹی کی طرح تانگہ پارٹی تھی ججوں کی بحالی میں آگے آگے تھی مگر شیخ رشید ان دنوں مسلم لیگ ق کے کوٹے پر وزیر تھے۔ حکومت پورے وسائل وکلا تحریک کیخلاف بروئے کار لا رہی تھی۔ ان دنوں وزیر اطلاعات محمد علی درانی تھے۔ وہ حکومت کیلئے وہی کچھ کرتے تھے جو ایک وزیر کو صدر وزیراعظم سے وفاداری کےلئے کرنا ہوتا ہے۔ درانی کو ان دنوں اعتزاز احسن نے غلط بیانی کا نام دیا تھا۔ وکلا تحریک میں اعتزاز احسن ڈرائیونگ سیٹ پر رہے۔ دونوں صورتوں میں‘ افتخار چودھری لانگ مارچ کرتے، لاہور آئے تو اعتزاز احسن ان کی گاڑی چلا رہے تھے سپریم جوڈیشل کونسل میں ان کا کیس بھی اعتزاز احسن کی سربراہی میں وکلا نے لڑا اور جیتا۔ اعتزاز احسن نے اس کیس میں سرخرو ہو کر کہا تھا کہ جب تک افتخار چودھری چیف جسٹس ہیں وہ ان کے سامنے کسی کیس میں پیش نہیں ہونگے مگر اپنے کہے پر قائم نہ رہ سکے۔ کئی کیسوں میں پیش ہوئے ۔

جسٹس افتخار چودھری کی بحالی کے لئے میاں نواز لاہور سے لانگ مارچ کےلئے نکلے۔ عمران خان بھی اس قافلہ عدل میں شامل تھے تاہم گوجرانوالہ پہنچنے سے قبل ہی آرمی چیف جنرل کیانی کا فون آ گیا کہ افتخار چودھری بحال ہو جائیں گے اور ایسا ہی ہوا یہ زرداری دور تھا۔ مشرف نے ججوں کو نظر بند کیا زرداری نے رہا کر دیا مگر وہ کہتے تھے کہ افتخار چودھری سیاستدان ہے، بحال نہیں کرنا چاہتا مگر ایک خاص حد تک ہی وہ دباﺅ برداشت کر سکے اور بحال کرتے ہی بنی۔بحالی پر پورے ملک میں ایک جشن کی کیفیت تھی لوگوں کو اپنی تقدیر بدلتی نظر آ ر ہی تھی بہت سے جرا¿تمندانہ فیصلے ہوئے۔ پھر ایک کیس انکے صاحبزادے ارسلان کا انکے سامنے آیا تو کچھ قانون دانوں کی نظر میں وہ ایک جج سے زیادہ ارسلان کے ابو ثابت ہوئے۔ لوگوں کی انصاف کی آس یاس میں بدل گئی۔ اعتزاز بھی ان سے شکوہ کناں نظر آئے۔

اعتزاز احسن اور انکے ساتھی وکلا نے سپریم جوڈیشل کونسل میں دلائل تو سماں باندھ دیتے ہم لوگ ان کو ٹی وی ٹاک شوز میں دیکھتے تو ان کے دلائل پر عش عش کر اٹھتے۔ ان کے دلائل کو ہم پھر اپنے تجزیوں، تقریروں اور تھڑا بحث میں استعمال کرتے۔ یہ ہمارے لئے کسی ہیرو سے کم نہ تھے۔ یہ جسٹس افتخار محمد چودھری کے قریبی ساتھی ہونے کے باعث عوام کی آنکھوں کا تارا تھے مگر پھر یہی لوگ جسٹس سے مایوس نظر آئے۔ اپنی جدوجہد کو رائیگاں قرار دینے لگے۔

آج مسلم لیگ ن کی قیادت پاناما کی دلدل میں دھنسی ہوئی ہے۔ میاں نواز شریف نا اہل ہونے کے بعد غصے میں آپے سے باہر ہیں۔ وزارت عظمیٰ چھن جائے تو ایسا فطری امر بھی ہے۔ ہم بطور قوم دو حصوں میں تقسیم ہیں۔ میاں نواز شریف کو بہت سے لوگ آج بھی ہیرو مانتے ہیں۔ ان کے لئے میاں صاحب کے ساتھی اور ان کا کیس لڑنے والے بھی قابل احترام ہیں۔ دوسرا طبقہ عمران خان اور ان کے حامیوں کی تحسین کرتا ہے جنہوں نے میاں نواز شریف جیسے طاقتور حکمران کو طاقت ‘اقتدار اور اختیار کے ایوانوں سے نکلوا کر رسوا کر دیا۔میاں نواز شریف اور عمران خان خود اور ان کے ساتھی لیڈر اور وکلا جو کہتے اور دلائل دیتے ہیں ان کو آگے پھر ان کے حامی جسے قوم کہہ لیں یا عوام کہہ لیں۔ بحث مباحثے میں استعمال کر کے‘ دوسرے کو نیچا اور خود کو اونچا دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔عمران خان کے وکیل نعیم بخاری نے کہا تھا وکیل کبھی نہیں ہارتا، مو¿کل ہارتا ہے۔ عمران خان اور ان کے حامیوں کے نکتہ نظر سے نعیم بخاری اور ان کے ساتھی وکلا نے یہ کیس بڑی جانفشانی سے لڑا اور جیتا۔

نعیم بخاری کہتے ہیں ان کو کیس سے الگ ہونے کے لئے قتل اور بچوں کے اغوا کی دھمکیاں دی گئیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے اس سال 78 لاکھ ٹیکس دیا۔ انکم ٹیکس والے پھر آئے اور کہا کہ مجبوری ہے، حکم دیا گیا ہے کہ آپ پر مزید 27 لاکھ ٹیکس لگا دیا جائے۔ ایک روز نیب کے ایک ڈائریکٹر آئے اور نیب کے چیف لا کنسلٹنٹ بننے کی پیش کش کی۔ یہ پیشکش پرانے چیئرمین نیب‘ جن کی نئی قسمت لکھی جانیوالی ہے‘ کے ایما پر کی گئی تھی۔ نعیم بخاری نظر پچاس 55 کے آتے ہیں مگر 70 کے پیٹے کے بزرگ ہیں۔ وکالت بڑی چل رہی ہے۔ اللہ کی کارسازی پر یقین ہے اس لئے دھمکی دھونس اور لالچ میں نہیں آئے۔ وہ کہتے ہیں شریف خاندان کے پاس دفاع کے لئے کچھ بھی نہیں۔ انکے پاس ایک ہی ڈیفنس ہو سکتا تھا کہ عدالت میں کہہ دیتے ہمارے بزرگوار منی لانڈرر تھے۔ بخاری کی حِس ظرافت عدالت کے اندر کے ماحول کو بھی کشتِ زعفران بنا دیتی ہے۔ نعیم بخاری کو مخولیہ بھی کہا جاتا ہے‘ انہوں نے مخول ہی مخول میں کیس جیت لیا۔ نعیم بخاری بڑی‘ بہت بڑی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ آج کی عدلیہ پاکستان کی خوش قسمتی اور عمران خان جیسے لیڈر مائیں روزانہ پیدا نہیں کرتیں۔ یہ باتیں انہوں نے سنجیدگی سے کہیں مخول میں نہیں۔

نعیم بخاری کو ملک ریاض حسین نے ارسلان کیس میں اپنا وکیل کرنا چاہا۔ 32 کروڑ فیس کی آفر کی مگر انہوں نے ان کے گھر جا کر یہ کیس لینے سے معذرت کر لی۔ 32 کروڑ کم رقم نہیں اور پھر کیس بھی ایسا جس میں ان کی ذاتی دلچسپی تھی اور یہ ان کیلئے اپنے ارمان نکالنے کا پورا موقع بھی تھا۔ ہم نے شروع میں ”ایک لیٹر“ کا ذکر کیا یہ وہ لیٹر تھا جس پر جنرل مشرف نے ایکشن لیتے ہوئے چیف جسٹس افتخار چوہدری کو سیک کیا تھا اور یہ لیٹر نعیم بخاری نے لکھا اور ”فرشتوں“ نے دور دور تک پہنچا اور پھیلا دیا۔ بڑے پاوے اپنا مو¿قف بدلتے ہیں تو لوگوں کے ہیرو بدل جاتے ہیں۔ اس دور میں جسٹس افتخار کو ہیرو ماننے والے نعیم بخاری کو ولن سمجھتے تھے آج خود فیصلہ کر لیں۔ ویسے کل تک اعتزاز احسن میاں نواز شریف کے خلاف پارلیمنٹ میں بہت کچھ کہتے تھے نا اہلی کی سزا کو انہوں نے ہی نرم سزا کہا تھا آج وہ میاں نواز شریف اور مریم نواز کی جدوجہد کو جائز اور دانشمندانہ قرار دے رہے ہیں!