سٹنٹ کالم فضل حسین اعوان

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع جنوری 25, 2017 | 14:04 شام

سٹنٹ کا مطلب کرتب بازی ہے‘ اسکے عالمی مقابلے ہوتے اور نام گینز بک ریکارڈ میں بھی درج ہوتے ہیں۔ فلم ہالی وڈ کی ہو یا بالی وڈ کی یا ہمارے ہاں ’’خالی وڈ‘‘ کی سٹنٹ اور سٹنٹ مین کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔ سٹنٹ پشتو فلموں کی بھی ضرورت ہے۔ پشتو فلموں کی یہ خوبی ہے کہ آواز نہ بھی ہو ا

س سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ محلے کے ’’منّے سیاستدان‘‘ سے لیکر اعلیٰ پائے اور اعلیٰ ترین منصب پر پہنچنے والے لیڈر تک سٹنٹ ماسٹر ہیں۔ انکے کرتب دیکھتے ہی طبیعت نہال ہو جاتی ہے۔ انکی پرفارمنس کو دیکھ کر کرتب بازی لفظ حقیر سا لگتا ہے، شعبدہ بازی زیادہ موزوں ہے۔ آج کل ہمارے بڑے سیاستدان ایک دوسرے کو شعبدہ باز کہتے ہیں مگر خود کو کوئی شعبدہ باز تسلیم نہیں کرتا۔ شیخ رشید کہتے ہیں کہ انہوں نے سیاست میں جھوٹ بولنا ترک کر دیا ہے مگر اپنے شعبدہ باز ہونے کا وہ بھی اعتراف نہیں کرتے۔ وزیراعظم نوازشریف ڈیووس جانے سے پہلے سرمایہ کاروں اور تاجرروں اور کاروباری لوگوںکے اجتماع سے خطاب کررہے تھے۔ اس تقریب میں انہوں نے برآمدات کے ایک ارب اسی کروڑ روپے کے پیکیج کا اعلان فرمایا۔ اپنی تقریر میں انہوں نے کہا کہ ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ کر دیا ‘ بجلی گیس پوری کردی، بجلی گزشتہ دور سے سستی بھی ہے۔ وزیراعظم کے اس فرمان پر اکثر شرکاء سر دھنتے اورکچھ دم بخود نظر آئے ۔یہ شعبدہ بازی سے اگلی مہارت ہیپناٹزم ہے۔ بلاول کو بھی ہیپناٹزم میں درک حاصل ہے۔ وہ نوازشریف اور حکومت کی کرپشن کے خلاف مہم چلا رہے ہیں، پی پی پی کے لیڈر اس مہم میں انکے ساتھ ہیں۔یہ بات تھی سیاسی اور کرتبی Stunt کی‘ اب بات کرتے ہیں اس Stent کی جو انسانی جسم میں دوڑتے خون میں پیدا ہونیوالی رکاوٹ کو دور کرنے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔

آجکل ان Stent کے جعلی‘ غیر معیاری ‘ غیر رجسٹرڈ اور فراڈ ہونے کا چرچہ ہو رہاہے۔ ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ کلو کے حساب سے دل کے سٹنٹ برآمد ہوئے۔ 6ہزار روپے والے سٹنٹ ڈیڑھ سے 3لاکھ میں ڈالے جارہے ہیں۔ سٹنٹ صرف دل ہی کے مریض کو نہیں لگتے‘ یہ گردے‘ پتے‘ دماغ اور دیگر امراض کیلئے بھی استعمال ہوتے ہیں جو دل کے سٹنٹ کی نسبت بہت سستے ہیں۔ ان کا سائز اتنا ہوتا ہے کہ ایک کلو میں شاید 10لاکھ آجائیں۔ پاکستان میں یہ سٹنٹ نہیں بنتے یہ امپورٹ ہوتے ہیں اور باقی اشیاء کی طرح چائنہ سے سستے آتے ہیں اور ان کا معیار بھی ویسا ہی جیسا چین سے آنے والے موبائل اور دیگر آلات و سامان کا ہے۔ میرے پڑوسی چودھری عاشق حسین اسی انڈسٹری سے وابستہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ دل کا سب سے سستا سٹنٹ بھی 50ہزار روپے سے کم میں نہیں پڑتا۔ معیاری سٹنٹ آئرلینڈ،جرمنی اور سوئٹزرلینڈ وغیرہ سے امپورٹ ہوتے ہیں۔مہنگے ترین کی قیمت تین لاکھ ہے جو معینہ مدت کے بعد خود بخود تحلیل ہوجاتا ہے۔ پاکستان میں FBAاپرووڈ سی ای مارکڈ سٹنٹ بروئے کارآتے ہیں۔ سٹنٹس کی 68اقسام ہیں۔ انجیو گرافی کے بعد ڈاکٹر نے فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ مریض کو کونسی قسم کے سٹنٹ کی ضرورت ہے۔ہر مریض کی نالی اوربلاکیج کا الگ سائز ہے اور پھر سٹنٹ کے ساتھ میڈیسن سمیت دس دیگر لوازمات استعمال ہوتے ہیں۔سٹنٹ ڈاکٹر کے پاس ہوتے ہیں نہ عام میڈیکل سٹورسے دستیاب،یہ کمپنیوں کے نمائندوں کے پاس ہوتے ہیںجو ڈاکٹر کی ڈیمانڈ پر سائز کے مطابق فراہم کر دیتے ہیں۔

یہاں میں سٹنٹ کے حوالے سے اپنا تجربہ بھی بیان کرنا چاہتا ہوں‘ تین سال قبل میرے چھوٹے بھائی لطیف کو دل کی تکلیف ہوئی‘ وہ شارجہ سے پاکستان آئے، لاہور میں ایک پرائیویٹ ہسپتال سے انجیو گرافی کرائی گئی‘ اس دوران ڈاکٹر نے مجھے بلالیا اور ٹی وی سکرین پر سکڑی ہوئی وین دکھاتے ہوئے کہا ایک سٹنٹ ڈلے گا۔ اب ہم نے آلات لگائے ہوئے ہیں بہتر ہے ابھی سٹنٹ ڈلوا لیں۔ لطیف نے اپنی تحقیق کے مطابق سٹنٹ نہ ڈلوانے کا فیصلہ کیا ہوا تھا۔ وہ تین سال سے سیب کے سرکے‘ شہد‘ لیموں‘ ادرک اور لہسن کے پانی والا نسخہ استعمال کررہا ہے۔ گزشتہ سال میری اہلیہ کو بھی دل کا مسئلہ ہوا‘ ہم انہیں ہسپتال لے گئے۔ قصہ مختصر، انجیوگرافی کے بعد ڈاکٹر نے بائی پاس یا تین سٹنٹ ڈلوانے کی رائے دی۔ ہم نے پوچھا کہ اس ہدایت پر زیادہ سے زیادہ کتنا عرصہ بعد عمل کرسکتے ہیں ڈاکٹر نے کہا ایک ہفتہ۔ ہم بھی قریباً ایک سال سے وہی نسخہ اہلیہ کو استعمال کرا رہے ہیں۔ واک اور احتیاط سے ہاتھ ہولا ہے‘ ادویات بھی جاری ہیں۔ بلڈ پریشر کبھی اوور شوٹ نہیں ہوا۔ہم نے سیکنڈ، تھرڈ اوپنیئن لیا، ایک پروفیسر نے کہا کہ کسی بھی مرض میں آپریشن پہلا نہیں آخری آپشن ہوتا ہے جبکہ دل کے اکثر ڈاکٹرکہتے ہیں مریض بم پر بیٹھا ہے۔ زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے، کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ سٹنٹ ڈالنے کے دوران مریض تو کیا خود ڈاکٹر بھی دنیا سے کوچ کر جائے۔ ہمارے ایک عزیز نے مہنگے ترین ہسپتال سے بائی پاس کرایا وہ تین ماہ بعد پوری احتیاط کے باوجود چل بسے‘ دوسرے نے دو سٹنٹ ڈلوائے تھے وہ دو ماہ میں انتقال کر گئے۔ تاہم ایسے ہزاروں ہیں جو بائی پاس کرانے اور سٹنٹ ڈلوانے کے بعدمعمول کی زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ ڈاکٹر کی مرضی اور دیانت پر ہے کہ سٹنٹ معیاری ڈالتا ہے یا غیر معیاری۔ جنرل اسلم بیگ کو سروس کے دوران دل کی تکلیف ہوئی تو کسی نے عجویٰ کھجور کاپائوڈر استعمال کرنے کا مشورہ دیا۔ پراپرٹی ٹائی کون ملک ریاض کو پاکستانی ڈاکٹروں نے بائی پاس کا مشورہ دیا وہ لندن جارہے تھے۔ انکی جنرل اسلم بیگ سے ملاقات ہوئی‘ انہوں نے دو ماہ بعد لندن جانے کا مشورہ دیا۔ اس دوران عجویٰ کھجور کا پائوڈر استعمال کرنے کی تاکید کی۔ ملک ریاض اسکے بعد لندن گئے۔وہاں انکے تمام ٹیسٹ کلیئر آئے۔ دل کے ڈاکٹر عموماً فوری طور پر بائی پاس سٹنٹ کا مشورہ دیتے ہیں‘ بعض نے اسے کاروبار بنایا ہوا ہے۔ کاروبار بھی کریں مگر انسانیت کی توہین اور صحت مند مریض کو دل کا دائمی مریض تو نہ بنائیں۔ ایک رپورٹ چل رہی ہے کہ ایک مریض کو دوبارہ دل کی تکلیف ہوئی تو ڈاکٹر نے اسے سٹنٹ ڈلوانے کا مشورہ دیا۔ مریض نے کہا کہ چند سال قبل اس نے ایک لاکھ 93ہزار کا سٹنٹ ڈلوا لیا تھاجو ایک فراڈ تھا‘ سٹنٹ کبھی اس مریض کو لگایا ہی نہیں گیا ۔ میو ہسپتال میں جعلی یا غیر معیاری سٹنٹس کی جو خبر سامنے آئی اسکے بارے میں کہا جارہا ہے یہ سب رقابت کی وجہ ہے‘ ایک وزیر کے بھائی کا کیا دھرا ہے۔ دونوں صورتوں میں یہ انسانیت سے گری ہوئی حرکت ہے۔ ضرورت سٹنٹ کے کاروبار کو ریگولر کرنے کی ہے۔ رجسٹریشن نہ ہونا بھی حکومتی غیر ذمہ داری کا شاخسانہ ہے۔ سپریم کورٹ نے نوٹس لیا ہے جس سے اصلاح احوال کی امید ہے۔

پاکستان میں بڑے بڑے خیراتی ادارے اور ہسپتال ہیں۔ مخیر حضرات کو دل کے امراض کی طرف بھی اسی طرح توجہ دینی چاہیے جس طرح عمران خان کینسر ہسپتالوں کی توسیع کررہے ہیں۔ انکے سیاسی سٹنٹ اپنی جگہ مگر ہسپتال کا سسٹم ایک کار خیر ضرور ہے۔عمران خان لاہور اور پشاور میں ہسپتال کی تکمیل کے بعدکراچی میں بھی ایک ہسپتال کی تیاری کررہے ہیں، جس کا سنگ بنیاد رکھ دیا گیا ہے۔