لعنت کیوں ؟

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع جنوری 23, 2017 | 08:04 صبح

 

’’شرم سے ڈوب مرو،تم پر خدا کی لعنت ہو۔‘‘جی ہاں ! یہی الفاظ آئی جی بلوچستان احسن محبوب نے سپریم کورٹ بنچ کے سامنے رکھے جو ان کیلئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں قائم کمیشن نے ادا کئے تھے۔ یہ کمیشن کوئٹہ سانحہ پر 8 اگست 2016 کو بلوچستان ہائیکورٹ بار کے صدر پرہونیوالے حملے اور ہسپتال کے باہر وکلا پر خودکش حملے کے افسوسناک سانحے کی تحقیقات کیلئے قائم کیا گیا تھا جس کی رپورٹ سولہ دسمبر کو جاری کی گئی۔ اس سانحہ میں ساٹھ سے زائد وکلا شہید اور ڈیڑھ سو افرا

د زخمی ہو گئے تھے۔ جسٹس فائز عیسیٰ کی رپورٹ حکومت کی شدید مخالفت کے باوجود سپریم کورٹ نے میڈیا کو جاری کر دی تھی۔ اسکا ایک اقتباس ریکارڈ کیلئے یہاں درج کرنا برمحل ہو گا۔ ’’وزیر داخلہ نے کالعدم تنظیموں سے ملاقات کی اور انکے مطالبات بھی مانے‘ ایکشن پلان پر عملدرآمد نہیں کیا گیا بلکہ اس معاملے پر جھوٹ بولا گیا۔ وزیر اعلیٰ اور وفاقی و صوبائی وزیر داخلہ نے غلط بیانی کی،وزارت داخلہ کے افسران وزیر داخلہ کی خوشامد میں مصروف رہتے ہیں۔ صوبائی حکومت میں اقرباپروری کاکلچرعام ہے ، وفاقی وزیرکے بھائی کو سیکرٹری ہیلتھ تعینات کیاگیا ہے جبکہ صوبائی حکومت کے 4 سیکرٹریز کی تعیناتی غیرقانونی ہے‘‘۔

رپورٹ کو وزیر داخلہ چودھری نثار نے متنازعہ قرار دیتے ہوئے شدید ردعمل کا اظہار کیا اور اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا۔ سپریم کورٹ پاکستان کا سب سے زیادہ بااختیار ادارہ ہے۔ اس نے ایک کمیشن قائم کیا‘ اسکی سفارشات پر عمل اسلئے نہیں ہو سکا کہ جن کیخلاف رپورٹ آئی انہوں نے ہی عمل کرانا تھا۔ اب معاملہ امیر ہانی مسلم کی سربراہی میں جسٹس مشیر عالم اور جسٹس مظہر عالم میاں مندو خیل کے سامنے ہے۔انکے فیصلے پر نظرثانی کی گنجائش بھی موجود ہے۔ اس بنچ کے سامنے آئی جی بلوچستان نے اپنی بپتا بڑے دکھی دل کے ساتھ اور جذباتی انداز میں سنائی ’’جوڈیشنل انکوائری کمیشن میں ان کا موقف نہیں سنا گیا، بے عزتی کی گئی، آٹھ گھنٹے تک کھڑے رکھا ،حلف لیا گیا جو کہوں گا سچ کھوں گا، کمیشن نے کہاجائو ڈوب مرو،خدا کی لعنت ہو تم پر ہماری بھی کوئی عزت ہے۔‘‘

عدلیہ میں پیئن سے پی ایم تک پیش ہوتے ہیں۔ عدالتیں شاید بندے کو دیکھ کر بات کرتی ہیں‘ ہمیشہ نہیں تو عموماً ایسا ہوتا ہے۔ اخلاقیات کیا ہیں‘ یہاں اس بحث میں نہیں پڑتے۔ رویے بہرحال بہتر اور مثبت ہونے چاہئیں۔ رویوں کا انحصار ڈگریوں ہی پر نہیں، تربیت سے بھی ہے۔ ایک جج کے گھر میں ملازمہ بچی پر تشدد ہوتا ہے اور جج صاحب ’’صلح‘‘ کر لیتے ہیں۔ آئی جی کا اپنا رویہ سائلوں کے ساتھ کیسا ہوتا ہے؟۔ پولیس کیا کچھ نہیں کرتی! کمیشن نے بھی ہو سکتا ہے پولیس والوں کے ساتھ‘ انہی کی طرح کا رویہ اختیار کیا ہو۔ عدلیہ کی طرف سے الٹا لٹکا دوں گا۔ شرم کرو جیسے الفاظ عموماً ادا ہوتے دیکھے گئے ہیں۔ جج کے پاس سزا دینے کا اختیار ہے شاید سزا میں نرمی کیلئے درشت ،لہجہ اور ترش رویہ اختیار کیا جاتا ہو۔ ایک منٹ کیلئے رکئے! سوچئے! آئی جی بھی ترکی بہ ترکی جواب دے دیتے تو؟ عام مقدمات میں بھی ایسا ہو سکتا ہے‘ اس پر توہین عدالت میں چند ماہ قید ہو سکتی‘ پھانسی نہیں لگ سکتی۔کمیشن کے پاس سزا دینے کا اختیار نہیں تھا۔ کمیشن نے تو صرف لعنت ملامت کی جبکہ سپریم کورٹ نے کہا۔’’واقعہ کے بعد آئی جی کو یونیفارم اتار دینی چاہئے تھی گویا پتلون اترتے اترتے بچ گئی۔امریکہ میں ٹرانسفر آف باور ہو چکی‘ ٹرمپ نے بائبل پر حلف لے لیا۔ باراک حسین اوباما نے ہلیری کو اپنا جاں نشیں بنانے کی پوری کوشش کی مگر… فیصلہ امریکی عوام نے کرنا تھا سو کر دیا۔ ٹرمپ جن لوگوں کیلئے اپنے کردار‘ اعلانات اور شخصیت کے باعث ناپسندیدہ تھے وہ انکی جیت پر تلملا اور بعض تو بلبلا اٹھے۔ یہ سب امریکہ ہی میں نہیں راؤنڈ دی ورلڈ ہو رہا ہے۔ ناپسندیدگی نفرت تک پہنچ گئی۔ کچھ سرکاری امریکی ا دارے بھی ٹرمپ کو قبول کرنے کیلئے تیار نہیں‘ انکی صدارت کو اسی طرح مسترد کر رہے ہیںجس طرح ہمارے ہاں پٹرول‘ کرائے کے نرخوں میں اضافے کو اپوزیشن سختی سے مسترد کر دیتی ہے مگر آن گراؤنڈ حقیقت تبدیل نہیں ہوتی۔

انکی حلف برداری پر مظاہرے ہوئے توڑ پھوڑ ہوئی ،آٹھ لاکھ مہمانوں میں آصف زرداری اور رحمٰن ملک بھی شامل تھے۔پی پی دعوت میں شرکت کو زرداری ٹرمپ دوستی قرار دے رہی ہی ہے۔ٹرمپ ایک وکھری ٹائپ کے صدر ثابت ہو سکتے ہیں مگر امریکہ کو یکسر بدل کے رکھ دینا شاید انکے بس کی بات نہ ہو‘ تاہم بہت کچھ بدلا ہوا ضرور نظر آئیگا۔ ٹرمپ کی کامیابی غیر متوقع نہیں تھی۔ انتخابی مہم کے دوران جب وہ مسلمانوں کا ناطقہ بند کرنے کا اعلان کر رہے تھے عین اس وقت کانگریس نے 76 ووٹوں کے مقابلے میں 348 ووٹوں کی بھاری اور ناقابل یقین اکثریت سے صدر اوباما کے ویٹو کو ویٹو کر کے سعودی عرب کیخلاف’’جاسٹا‘‘ قانون منظور کیا جس سے نائن الیون کے ہلاک شدگان کے لواحقین کو سعودی عرب کیخلاف ہرجانے کے دعوے دائر کرنے کا اختیارمل گیا۔ کانگریس کے تعلیم یافتہ لوگوں کے تعصب کا عکاس ہی امریکی الیکشن کے نتائج ہیں۔ ٹرمپ نے اپنے پہلے خطاب میں پھراسلام دشمنی کا اظہار کرتے ہوئے باور کرایاکہ اسلامی شدت پسندانہ دہشت گردی کیخلاف مہذب دنیا کو متحد کرینگے۔ ٹرمپ نے اپنی صدارت کے پہلے چند گھنٹے میں شکیل آفریدی کو رہا کرانے کا دعویٰ کیا ہے۔ وزیراعظم نوازشریف سے ذاتی راہ و رسم کے بعد‘ ٹرمپ کا دعویٰ درست بھی ثابت ہوسکتا ہے،نواز شریف ہوسکتا ہے عافیہ صدیقی کو رہا کرا لیں۔

ٹرمپ قماش کے لوگ مکھی پر مکھی نہیں مارتے‘ معاملات کو یا تو اوج ثریا تک لے جاتے ہیں یا پستیوں کی گہرائی میں دے مارتے ہیں۔ زرداری صدر بنے تو بھی ایک طبقے کی یہی رائے تھی اور پھر ایسا ہی ہوا۔ ٹرمپ کا جھکاؤ روس کی طرف اور انکی پیوٹن سے دوستی ہے‘ جبکہ امریکی اسٹیبلشمنٹ کیلئے روس قابل قبول ہے اور نہ ہی روس کیلئے نرم گوشہ رکھنے والا صدر۔۔۔ اسی لئے روس پر امریکی الیکشن ہیک کرنے کے الزامات لگائے جاتے ہیں۔ امریکہ آئی ٹی میں پوری دنیا میں ٹاپ پر ہے۔ اسکی انٹیلی جنس میں لاثانی ہے۔ اسکے باوجود بھی روس نے اگر امریکی الیکشن میں مداخلت کر کے نتائج ہی بدل کے رکھ دیئے ہیں تو لعنت ہو ایسی ایجنسیوں کی کارکردگی پر۔

ہمارے ہاں پانامہ کیس بڑے زوروں پر ہے۔ فریقین عدالت کے بعد ’’تھڑا عدالت‘‘ لگا کر ایک دوسرے پر لعنت بھیجتے اور جھوٹا جھوٹا کی گردان کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کو موٹو اور جھوٹو گینگ قرار دیتے ہیں۔ ایک لیڈر نے تو کہہ دیا کہ جھوٹے کا منہ کالا۔ اگر ایسا ہو جائے تو اکثر نہ صرف لیڈر بلکہ ہماشماکو بھی برقعے پڑیں گے۔ فیصلہ تو جو ہو گا‘ سو گا‘ جب ہو گا تب ہو گا مگر وزراء کے رنگ اڑے ہوئے ہیں‘ لہجے اشتعال انگیز ہیں، جیسے وزارتیں جانے کا گمان کئے بیٹھے ہیں یہ بے جا فکر مند ہیں وزیر اعظم کوکوئی فکر نہیں وہ کہتے ہیںپاناما کیس کا فیصلہ ملک کیلئے بہتر ہوگااور سپریم کورٹ نے بھی گزشتہ ہفتے کی سماعت کے آخری روز وزیراعظم کی طرف سے جماعت اسلامی کے وکیل کو مسکت جواب دیاہے،جماعت کا وکیل خود بیچارہ آرٹیکل ’’باریسٹھ‘‘ کی زد میں آتے آتے بچاہے۔

حرف آخر جھوٹوں پر تو لعنت ہونی ہی چاہیے خواہ کتنے ہی پاور فل اور بااختیار ہوں اس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کیوں کہ یہ قرآن کا حکم ہے۔