نسب اور نسبت

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع مارچ 15, 2017 | 07:09 صبح

قاہرہ کے ایک بڑے گھر میں مولاناسید ابوالخیرمودودی اپنے میزبان کی اضطراری و اضطرابی کیفیت سے خاصے حیران اور پریشان تھے۔ میزبان کا تعلق شہر کے امرا سے تھا۔ وہ تھوڑے تھوڑے وقفے سے گھر سے باہر جاتے اور ہر مرتبہ انکے ساتھ ایک نیا مفلوک الحال شخص ہوتا۔ وہ گھر میں لا کر اسکی خاطر تواضع کرتے۔ نئے کپڑے پہنوا کر تحفے تحائف دیتے اور کسی نئے غم کے مارے کی تلاش میں نکل جاتے۔ سید ابوالخیر نے ملازموں کے سامنے یہ معمہ رکھا تو انہوں نے بتایا کہ ان کا آقا ایک دن اپنے کاروباری مرکز پر بیٹھا تھا۔ یوں سمجھئے کہ و

ہ بہت بڑا سٹور تھا۔ سپرسٹور‘ ایک خاتون نے آکر فریاد کی کہ وہ ایک مجبور سید زادی ہے اسکی مدد کی جائے۔ سٹور مالک بھی سید تھا‘ اسکی کوئی مدد کرنے سے قبل پوچھا۔ ”بی بی آپکے پاس کیا ثبوت ہے سید زادی ہونے کا“؟ خاتون نے یہ الفاظ سنے تو خاموشی سے واپس چلی گئی۔ سیدزادے کی نظریں‘ سوالی خاتون کے تعاقب میں تھیں۔ وہ سامنے والے سٹور میں داخل ہوئی تھوڑی دیر بعد واپس آئی تو اسکے ہاتھ میں سامان کے بیگ تھے۔ وہ سٹور ایک یہودی کا تھا.... اسی رات سید زادے نے خواب میں دیکھا کہ ایک نورانی صورت والے بزرگ کے اردگرد چند لوگ جمع تھے۔ یہ صاحب بھی اس مختصر مجمع کی طرف چل دیئے۔ پتہ کرنے پر معلوم ہوا کہ حضور سے لوگ ہاتھ ملا رہے ہیں۔ اس نے اپنا نام سید.... بتاتے ہوئے مصافحہ کےلئے ہاتھ بڑھایا تو رسول اللہ نے اپنا ہاتھ پیچھے کھینچتے اور رخ انوردوسری طرف پھیرتے ہوئے فرمایا تمہارے پاس کیا ثبوت ہے کہ تم سید ہو؟ آج ہماری بیٹی تمہارے پاس آئی تم نے کہا کہ تمہارے پاس سید زادی ہونے کا کیا ثبوت ہے؟.... اس خواب کے بعد سے سید زادہ بے چین اور بے قرار رہے۔ اس نے سید زادی کی تلاش کی اپنی سی کوشش کر لی وہ تو نہ ملی‘ اب غریبوں کی خدمت کو شعار بنا لیا ہے....

پیر صاحب بھرچونڈی شریف کے عقیدت مندوں کی مجلس سجی تھی، جس میں ایک مفلوک الحال شخص بھی شامل ہو گیا۔ وہ کچھ بے چین اور بے قرار دکھائی دے رہا تھا۔ پیر صاحب نے اسکی اضطراری حالت کو بھانپتے ہوئے پوچھا ”نوجوان کیا بات ہے پریشان دکھائی دیتے ہو۔“ اجنبی نے کہا ”جناب، سید ہوں۔ گھر میں بھوک کے ڈیرے ہیں۔ آپکے پاس مدد کےلئے حاضر ہوا ہوں“ پیر صاحب اس شخص کی بات سنتے ہی جھٹکے سے اٹھ کر کھڑے ہو گئے اپنے اوپر اوڑھی ہوئی اجرک اپنے سامنے بچھا کر اسے بڑے احترام سے اس پر بٹھا دیا۔ خدمت گاروں کو حکم دیا کہ اسے ایک گھوڑا، گندم، گھی اور دیگر ضروریات دے دی جائیں۔ سارا سامان تیار ہوگیا تو پیر صاحب نے اسے بڑے احترام سے رخصت کرتے ہوئے فرمایا ”آتے جاتے رہا کرو“ اس ضرورت مند کی روانگی کے بعد ایک مرید نے کہا پیر سائیں ”آپ کو پتہ ہے یہ شخص کون تھا؟“ پیر صاحب نے فرمایا ”نہیں۔ لیکن ہمیں اسکے بارے میں جاننے اور آپ کو بتانے کی ضرورت بھی نہیں، اس نے جس نسبت سے بات کی ہم نے اس کا احترام کیا۔“

اعلیٰ و بالا نسب والے سے نسبت کے احترام، مقام اور اکرام کے ایسے درجات سبحان اللہ۔ ذرا آپ کی عظمت، عزیمت اور شان کا اندازہ کیجئے! ہم مسلمان اسلامی تعلیمات کو حرز جاں بنائیں یا نہ بنائیں مگر اس حدیث مبارکہ پر اسکی روح کے مطابق یقین رکھتے اور اپنے عمل سے ثابت بھی کرتے ہیں۔

”آپ میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کے نزدیک اس اولاد اور ماں سے بڑھ کر پیارا نہ ہو جاﺅں“

جہاں غازی علم الدین شہید، غازی عبدالرشید شہید (کراچی) اور ممتاز قادری جیسے عشاقان رسول کی ایک لسٹ موجود ہے وہیں ملعون اور شاتمین بھی موجود ہیں۔

ناموس رسالت کی خاطر مسلمان اپنی جان دینے اور شاتم کی جان لینے سے گریز نہیں کرتے۔ توہین رسالت کا ارتکاب کرنےوالے اپنی جان بچانے کیلئے چھپتے ہیں، دبک جاتے ہیں جبکہ شمع رسالت کے پروانے عدالت میں شاتم کو جہنم واصل کرنے پر سینہ تان کر اعتراف کرتے ہیں۔

آج پھر نئے روپ، نئے رنگ اور نئے ڈھنگ میں اسلام کی توہین کے مظاہر سامنے آ رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر اہل اسلام کی دل آزاری کی جا رہی ہے۔ جسٹس شوکت صدیقی کے سامنے کیس آیا تو وہ سوشل میڈیا کے مندرجات پر تڑپ اٹھے‘ انکے جاری کردہ احکامات ہر مسلمان کے دل کی آواز ہیں۔ سوشل میڈیا پر توہین آمیز پوسٹیں کرنےوالے ملک سے فرار کرا دیئے گئے۔ ایسا ماضی میں بھی ہوتا رہا ہے مگر بھگانے والے عبرت ناک انجام سے دو چار ہوئے۔ عامر لیاقت کی سیاست سے اختلاف کیا جا سکتا ہے مگر وہ جس طرح شاتمان کی بیخ کنی کر رہے اور ان کو ڈھونڈ نکالنے کی تجاویز پیش کر رہے ہیں اس سے اختلاف ممکن نہیں ہے۔ کیپٹن صفدر کا اس حکمران پارٹی سے تعلق ہے جس کے لیڈر اپنے قائد کےخلاف بات سن کر آگ بگولہ ہو جاتے ہیں مگر توہین رسالت پر انکے ضمیر میں خلش پیدا نہیں ہوتی۔ کیپٹن صفدر نے گزشتہ روز قومی اسمبلی جا کر کہا کہ سوشل میڈیا پر نبی کی شان میں گستاخانہ تصاویر اور باتیں گردش کر رہی ہیں مگر بد قسمتی سے پارلیمنٹ خاموش ہے، میں آج ایوان کا ضمیرجھنجوڑنے آیا ہوں کہ اٹھو آقا کی شان میں، وزارت کہاں سو گئی ہے ، ملک انارکی کی سمت جا رہا ہے۔ کیپٹن صفدر کے اس بیان سے میرے دل میں ان کا احترام و وقار دو چند ہو گیا۔ علامہ خادم حسین رضوی شاتمان کے خلاف اپنے کارکنوں کو پھر متحرک کر رہے ہیں۔

جو توہین رسالت کے مرتکب ہوئے، ان کیلئے آئین و قانون میں سزا موجود ہے، انکی حمایت کرنےوالے خوامخواہ اپنی زندگی خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ حکمران خاموشی اختیار کر کے اپنی عاقبت برباد کر رہے ہیں، جس کی شاید انہیں دنیا کی چکا چوند میں کوئی پروا نہیں ہے۔ آزادی اظہار کا حق بلاشبہ کسی سے نہیں چھینا جا سکتا۔ یہ حق آپ اپنے معاملات تک رکھیں۔ سیاست میں اسے آزمائیں، حقوق انسانی اور انسانیت کے بڑے معاملات ہیں۔ مذہبی معاملات میں ایسے سر پھرے رویے کا اظہار کرینگے تو سر سلامت رہنے کی کوئی گارنٹی نہیں دے سکتا۔