افواہیں اور یمن میں جاری تنازعے کا مستقبل.... مشاری الذايدی

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع اکتوبر 07, 2016 | 17:50 شام

اب ہر کہیں یہ سوال اٹھایا جارہا ہے کہ یمن میں جاری جنگ کب ختم ہوگی؟ مختلف تشویشوں اور تحفظات کی بنا پر یہ سوال اٹھایا جارہا ہے۔یہ امن اور سیاسی عمل کے آغاز میں دلچسپی کا مظہر بھی ہوسکتا ہے تاکہ خونریزی کو روکا جاسکے اور لوگوں کے جان ومال کو تحفظ مہیا کیا جاسکے۔ کوئی بھی معقول شخص ،جس کا ضمیر صاف ہے،وہ اس پر بحث نہیں کرسکتا لیکن اس کے باوجود بعض اوقات نیک خواہشات کو عملی پہننے سے قبل بہت زیادہ چیلنجز کا سامنا ہوتا ہے۔ سعودی عرب کی قیادت میں اتحاد میں شامل بعض ممالک داخلی مجبوریوں کا شکار ہیں ،ا
گرچہ وہ یمن میں کارروائی کی حمایت کرتے ہیں اور اس کو جائز قرار دیتے ہیں۔ اس اتحاد میں خلیجی ممالک خاص طور پر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نمایاں ہیں۔سعودی عرب اس اتحاد کا مرکزی ستون ہے اور متحدہ عرب امارات دوسری بڑی قوت ہے جو فیصلہ کن کارروائی کا مکمل حامی ہے۔ اس حوالے سے بھی تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے کہ کیا اس جنگ میں شریک ممالک کی معاشی صلاحیتیں بھی متاثر ہورہی ہیں۔ان سے کہیں سیاسی اور سماجی خوف و خدشات کی راہ تو ہموار نہیں ہوجائے گی؟ یہ سوالات بالکل درست ہیں اور ان کا حل تلاش کیا جانا چاہیے۔تاہم بعض لوگ یہ سوالات اس انداز میں پوچھتے ہیں جس سے ایرانی پروپیگنڈا مشینری اور مغرب کے بائیں بازو کے روزناموں کے آئیڈیا ہی کی خدمت ہوتی ہے۔انھوں نے سعودی عرب اور آپریشن فیصلہ کن طوفان کے خلاف ایک مذموم میڈیا مہم برپا کررکھی ہے۔وہ ایسا انسانی مقاصد کے تحت نہیں کررہے ہیں جیسا کہ وہ دعویٰ کرتے ہیں بلکہ ان کا مقصد سعودی عرب اور خلیجی ممالک کا گھیراؤ کرنا ہے۔ سعودی عرب اور خلیج میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو شاید تعداد میں تو تھوڑے ہیں مگر وہ بھی ان افواہوں پر کان دھررہے ہیں اور انھیں پھیلا رہے ہیں۔ وہ جو کچھ کررہے ہیں،یہ شاید اس کا بالکل درست بیانیہ ہے۔ان حالات میں یہ مخالف فریق ہے جو فائدہ اٹھاتا ہے اور جعلی افواہوں کو پھیلانے میں مدد دیتا ہے۔اس طرح وہ رائے عامہ میں ایک تقسیم پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ معقول حل؟ سب سے بڑا ایشو تو یہ ہے کہ وہ کوئی معقول حل تجویز نہیں کرتے ہیں۔سعودی عرب اور بیشتر خلیجی ممالک کے نزدیک ایک معقول حل ریاست کے اندر''ریاست'' کی موجودگی کو مسترد کرنا ہوگا جو یمن میں ''خمینی انقلاب'' کے خطوط پر چل رہی ہے۔ یہ وہ نکتہ نہیں ہے جس پر وہ مباحثے کے لیے تیار ہیں اور وہ اس طرح کی ''محدود ریاست'' کی موجودگی کو قبول نہیں کرسکتے ہیں۔بعض سیاست دان اگر کوئی اور سوچ رکھتے ہیں تو یہ اور بات ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ایک ایسے یمنی نظام کے ساتھ وجود برقرار رکھا جائے جو عبدالملک اور حسین الحوثی کے گروپ اور نظریے کے کنٹرول میں ہو؟ اس غیر ملکی جنگ ،جو جیتی بھی جاسکتی ہے اور ہاری بھی جاسکتی ہے، کے خاتمے سے قبل اس بارے میں بھی سوچیے کہ یہ سعودی عرب کی داخلی سلامتی کے علاوہ بیشتر خلیجی ممالک کی داخلی سلامتی کا بھی معاملہ ہے۔ حال ہی میں سعودی اتحاد کے فضائی حملے میں دو حوثی لیڈر ہلاک ہوگئے ہیں۔ان میں سے ایک عبداللہ القاید الفدیع تھا جو مبینہ طور پر سعودی عرب کے صوبے نجران کے دوسری جانب یمن کے سرحدی علاقے میں محاذ جنگ کا انچارج تھا۔ دوسرا کمانڈر حامد الاعزی تھا جو اپنے دس ساتھیوں سمیت سعودی عرب کے علاقے جازان کی موسیم گورنری کے نزدیک سرحدی علاقے میں مارا گیا تھا۔یہ ان ہمسایوں کی مثالیں ہیں اور کچھ لوگ ہمیں یہ کہہ رہے ہیں کہ ان کی علاقائی اور بین الاقوامی دباؤ پر موجودگی کو قبول کر لیا جائے۔ مزید برآں جب صدر عبد ربہ منصور ہادی کی وفادار فوج اور ان کے حامی جنوبی مزاحمتی گروپوں نے نمایاں پیش قدمی کی ہے اور یمن میں صورت حال بہتر ہوئی ہے تو پھر پسپائی کی کیا ضرورت ہے؟انھوں نے مآرب ،تعز اور نہم میں حوثیوں کے مقابلے میں پیش قدمی کی ہے اور یہ علاقے دارالحکومت صنعا کے بھی نزدیک واقع ہیں۔ سیاسی اتھل پتھل حکمت عملی کا حصہ ہے اور بعض اوقات اس کی ضرورت ہوتی ہے لیکن کسی معقول جواز کے بغیر جنگ سے انخلاء سے مذاکرات ہی پر منفی اثرات مرتب ہوں گے اور یہ اقدام سیاسی اور سلامتی سے متعلق غیر ذمے دارانہ رویے کا بھی مظہر ہوگا۔(العربیہ ڈاٹ نیٹ )