یکجہتی کشمیر کب تک؟....کالم فضل حسین اعوان

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع فروری 06, 2017 | 07:25 صبح

یومِ یکجہتی کشمیر ہم کئی دہائیوں سے مناتے چلے آرہے ہیں۔قاضی حسین احمد کی تجویز پر قوم کو بتی کے پیچھے لگا دیا گیا۔مسئلہ کشمیر پر بھی ہم سیاست کرنے اور پوائنٹ سکورنگ سے گریز نہیں کرتے۔ کشمیر کو آزاد کرانے کے بجائے یوم یکجہتی کشمیر منانے کو مقصد بنا لیاگیا، اسی پر زورہے اورماضی وحال کی حکومتوں کو یہی اپنے بہترین مفاد میں نظر آتا ہے۔قوم لکیر کی فقیر اور مکھی پہ مکھی مارے جارہی ہے۔یوم یکجہتی کشمیر منانے کی دو صورتوں میں ضرورت نہیں رہتی: ایک تو مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی تجویز پررائے شماری سے حل ہ

وجائے،ہم سمجھتے ہیں کہ رائے شماری میں کشمیریوں کی اکثریت پاکستان کا ساتھ دیگی اور کشمیر پاکستان کا حصہ بن جائیگا۔ کشمیر پاکستان کا حصہ اور کشمیری پاکستانی بن جائینگے تودونوں کے یکتا ہونے سے یکجہتی کی ضرورت نہیں رہے گی۔ دوسرے ہمارے کشمیر اور کشمیریوں سے لاتعلق ہونے کی صورت میںیکجہتی کی ضرورت نہیں رہے گی۔یہ خواہش ماضی وحال کے حکمرانوں کی اکثریت کے دل میں موجود رہی ہے جس کا اظہار محب وطن حلقوں کے ممکنہ شدید ردعمل کے باعث کھل کر نہیں کرتے مگرپالیسیاں اوراقدامات دل کی آواز کی ترجمانی کرتے ہیں۔حالیہ جمہوری حکومتوں، جو گزشتہ بیس سال سے آٹھ سال کے وقفے سے تسلسل ہے کو مسئلہ کشمیر کو نظر انداز کرنے پر موردِ الزام سمجھا جاتا ہے،یقینا ایسا ہی ہے مگر جنرل مشرف جو کارگل مہم جوئی کو کشمیر کی آزادی کی جنگ قرار دیتے ہیں،جب خود پاور میں آئے تو ان کو سانپ سونگھ گیا گیا ؟ ایک اور کمانڈرانہ اور کمانڈوآنہ کارگل کے بجائے وہ بزدلانہ حل پر حل پیش کرنے لگے۔مسئلہ کشمیر پر پاکستان کا مو¿قف ذوالفقار علی بھٹو کے اپنی ہم منصب وزیراعظم اندرا گاندھی کے ساتھ شملہ معاہدہ کے بعد مشرف کے مسئلہ کشمیر کے پے در پے حل تجویز کرنے سے کمزور ہوا۔شملہ معاہدہ میں مسئلہ کشمیر سمیت تنازعات مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر اتفاق کیا گیا تھا۔اسی معاہدے میں سیز فائر لائن کو لائن آف کنٹرول کانام دیا گیا۔ یہ معاہدہ ان حالات میں ہوا کہ 33ہزار فوجیوں سمیت 93ہزار پاکستانی بھارت کی قید میں تھے۔بھارت کئی افسروں پر جنگی جرائم کے تحت مقدمات چلانے کی باتیں کررہا تھا۔بنگلہ دیش پاک فوج پر بنگالیوں کیخلاف بدترین انسانی حقوق کی پامالی کاالزام لگا رہا تھا،پاک فوج کو 30 لاکھ بنگالیوں کے قتل اورلاکھوں خواتین سے ریپ کا پراپیگنڈہ کررہا تھا۔گو یہ سب لغو،جھوٹ اور بے بنیاد تھا لیکن بنگالیوں کی اکثریت کو گمراہ کیا گیا۔انکے جذبات اور مطالبات کا اندازہ کیا جاسکتاہے۔اس وقت بنگالیوں کے زخم تازہ تھے جن کو بڑھا چڑھا کر بیان کرکے انکے جذبات میں ہیجان پیدا کیا گیا جن میں اب بھی کمی نہیں آئی۔بھٹو کو تاریخ مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں کردار پر کبھی معاف نہیں کریگی،شاید اس وجہ سے سقوط مشرقی پاکستان کے تینوں کردارشیخ مجیب الرحمٰن،اندرا گاندھی اور بھٹو بھیانک اورعبرت ناک انجام سے دوچار ہوئے ہیں۔

بھٹو کو بدترین حالات میں دفاعی پوزیشن میں شملہ معاہدہ کرنا پڑا تھا،آج سانحہ مشرقی پاکستان کو پچاس سال ہونے کو ہیں مگر وہ درد ابھی دور نہیں ہورہا۔جب بھٹو انڈیا گئے تو اس وقت جنگ عظیم میں جنگی جرائم پر جرمن اور جاپانی جرنیلوں کی پھانسیوں کو ڈیڑھ دو دہائیاں ہی گزری تھیں۔اس نازک صورتحال میں بھٹو محض شملہ معاہدہ کرکے ان جنگی قیدیوں کو بھی واپس لے آئے جن پر بھارت اور بنگلہ دیش جنگی جرائم کے تحت مقدمات چلانے پر تلے ہوئے تھے۔یہ بھٹو کی طلسماتی شخصیت ہی کا شاخسانہ ہے کہ اندرا گاندھی نے معاہدے میں بھٹو کے سامنے کشمیر سے دستبردار ہونے کی شرط نہیں رکھی اگر وہ ایسا کہتیں تو کیا بھٹو اسے مسترد کرکے فوجیوں کو پھانسیاں لگنے کیلئے چھوڑ آتے؟

بھٹو کیلئے شملہ معاہدہ میں تنازعات مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر اتفاق کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا،مشرف نے نواز شریف کو آگے کھڑاکرکے مسئلہ کا حل کارگل جنگ کی صورت میں نکالنے کی کوشش کی مگر جب خود سامنے آئے تو مذاکرات کھیلنے ، خود مختار کشمیر اور جو جس کے پاس وہ اُس کا حصہ قسم کے حل پیش کرنے لگے جبکہ بھارت اپنے اٹوٹ انگ کے مو¿قف میں لچک اور نرمی پیدا کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔مشرف ایسے مجہول قسم کے حل پیش کرکے مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے مو¿قف کو جس قدر کمزور کرگئے اسکے تدارک کےلئے نکے بعد ایک جینئس ،ڈیڈیکیٹڈ اور ڈیووٹڈ لیڈر شپ کی ضرورت تھی مگر پاکستان کے نصیب میں پہلے پی پی اور پھر ن لیگ آئی جو بھارت کے ساتھ یکساں طور پر تجارت،تعلقات اور دوستی کے جنون میں مبتلا ہیں۔یہ دونوں پارٹیاں جس جوش وجذبے سے یوم یکجہتی مناتی چلی آرہی ہیں،اتنا ہی زور مسئلہ کشمیر کے حل پردیا ہوتا تو آج شایدکشمیریوں کی منزل قریب آچکی ہوتی۔اُدھر عام کشمیری آزادی کی تڑپ لئے کٹ اور مررہے ہیں مگر وہاں کی لیڈر شپ اپنے کردار وعمل سے پاکستان کی لیڈر شپ کی صحیح پیرو کار نظر آتی ہے جو بظاہرکشمیر کاز کو مقصد حیات باور کراتی ہے مگراعمال اسکے برعکس ہیں۔پاکستان سے صدر ،وزیراعظم اور آرمی چیف کشمیر کے معاملے پر کوئی دلیرانہ بیان دیں جو بیان برائے بیان ہوتا ہے،اس پر کشمیر حریت قائدین جھوم جھوم جاتے ہیں حالانکہ ان کو ایسے بیانات کو مقصد اور معنویت کا اچھی طرح علم ہوتا ہے۔کشمیری حریت قیادت بھی کشمیر کاز کو اپنے انتشار کے باعث کمزور کررہی ہے ۔مقصد ایک ہے دھڑے بندی اور الگ الگ گروپ کیوں ہیں؟کشمیر سے محبت ہے دہلی میں علاج کیوں، کشمیر کے الیکشن میں حصہ لینے سے شاید اپنی مقبولیت کا بھرم کھلنے کااحتمال ہے بہانہ انتخابات استصواب کا متبادل نہیں ہوسکتے۔کشمیر کے نام پر مر مٹنے کے دعوے کرنیوالے بھارتی ویزے پر دورے کرتے ہیں۔

اگر استصواب ہوتا ہے تو ہم نے کشمیریوں کو راغب کرنے کیلئے کیا کیاہے،آزادکشمیر سے مقامی جماعتوں کا صفایا کرکے پی پی پی،ن لیگ،پی ٹی آئی اور متحدہ براجمان ہوگئیں۔ہم نے اپنے کشمیریوں کا اپنے سے زیادہ برا حال نہیں کیا تواپنے سے اچھے حال میں بھی نہیں رکھا۔بھارت میں بھوک ناچتی اور کسمپرسی وپسماندگی کی انتہا ہے مگر اس نے کشمیریوں پر نوازشات کی برسات کررکھی ہے ۔بھارت کی اکثریتی آبادی بجلی سے محروم ہے جبکہ کشمیریوں کیلئے تین سو روپے فلیٹ ریٹ اور زیادہ سے زیادہ استعمال کی پابندی نہیں۔ 20کلو چاول ماہانہ فی خاندان فری ،آٹا،گھی،دالیں اور دیگر ضروریات بھارت کے مقابلے میں نصف نرخوں پر دستیاب ہیں۔نہرو نے ایک مرتبہ کہا تھا ”ہم کشمیریوں کو اتنی مراعات دینگے کہ دوسرے کشمیری بھی اس کشمیر کا حصہ بننے کی خواہش کرینگے“بھارت استصواب سے انکاری مگر اس کی وہ تیاری میں بھی ہے اورہمارا سارا زور صرف یکجہتی منانے پر ہے۔