خود بدلتے نہیں۔۔۔۔۔

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع اگست 02, 2017 | 09:36 صبح

 

دنیا کی پانچ سو بہترین یونیورسٹیوں میں پاکستان کی ایک بھی یونیورسٹی شامل نہیں ہے تاہم زندگی کے کئی شعبوں میں پاکستان کا نام دنیا میں جانا جاتا ہے۔ میڈیکل کی دنیا میں نوشیرواں برکی ایک معروف شخصیت ہےں۔ ان کا دنیا کے چار بہترین ڈاکٹرز میں شمار ہوتا ہے۔ یہ عمران خان کے کزن ہیں۔ مجھے عمران خان کی سپورٹس لائف سے کبھی دلچسپی نہیں رہی۔ حالانکہ ان کو کرکٹ کھیلتے دیکھا‘ انہوں نے ورلڈ کپ جیت کر پاکستان کا نام بھی روشن کیا اور خود بھی شہرت کی بلندیوں پر پہنچے جو انکی سیاست میں پذیرا

ئی کا بھی سبب بنا۔ بہت سے لوگوں کی طرح مجھے بھی انکی سیاست سے کبھی سروکار نہیں رہا تھا تاہم سماجی کاموں خصوصاً انکے کینسر ہسپتال سے دلچسپی رہی ہے۔ کینسر کا علاج مہنگا ترین ہے اور پوری دنیا میں ایک بھی کینسر کا پرائیویٹ ہسپتال نہیں ہے۔ اگر پرائیویٹ شعبے میں کینسر ہسپتال بن جائے اس کا چلنا ناممکن ہے۔ اخراجات ہی اتنے ہیں۔ عمران خان نے پاکستان میں لوگوں سے زکوٰة، صدقات اور عطیات اکٹھے کرکے لاہور میں ایک کینسر ہسپتال بنایا، دوسرا پشاور میں پایہ تکمیل کو پہنچا اور اب کراچی میں تیسرا زیر تعمیر ہے۔ ان ہسپتالوں کے پیچھے نو شیرواں برکی کا ذہن رسا کار فرما ہے۔ وہ دنیا گھومتے ہیں، جہاں سے بھی انہیں کوئی لیجنڈ ڈاکٹر ملتا ہے وہ کوشش کرتے ہیں اس کو شوکت خانم ہسپتال میں لے آئیں۔ نوشیرواں برکی کو عمران خان نے لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور کے بورڈ آف ڈائریکٹر میں شامل کیا۔ اسکے بعد سے اس ہسپتال کا معیار بھی شوکت خانم کے پائے کا ہورہا ہے۔

صحافت میں بلاشبہ جناب مجید نظامی آئیڈیل کے قریب تر تھے، تاہم صحافت کے آسمان کے درخشندہ و درخشاں ستاروں کے نقش قدم بھی رہنمائی کی کرنیں بکھیرتے اور ہم سمیٹنے کی کوشش کرتے رہے۔یہ ایک شدید سرد شب کا ذکر ہے۔ میں اپنے گھر سے شادمان کی طرف رواں تھا۔ ایک روز قبل برادرم توفیق بٹ نے فون کرکے گھر آنے کو کہا، جہاں عمران خان آرہے تھے۔ بٹ صاحب نے فرمایا تھا کہ دو چار دوستوں کو بلایا ہے۔ میں سوچ رہا تھا کہ ایک میز کے گرد عمران خان سمیت پانچ چھ افراد بیٹھے ہونگے۔ میں نے کئی سوالات ذہن میں ترتیب دیدئیے اور تصور میں میز پر کہنیاں ٹکا کر سوال پوچھنے کی سوچ جاگزیں رہی۔ بٹ صاحب کے گھر پہنچے‘ وسیع صحن میں کینوپی لگی تھی۔ سردی کی حدت کو کم کرنے کیلئے گیس کے بڑے بڑے ہیٹر جل رہے تھے۔ یہ ایک چھوٹا سا پنڈال تھا جس میں 60 ستر حاضرین ہونگے۔ عمران خان ایک صوفے پر بیٹھے تھے انکے ساتھ جید اور فاضل صحافی براجمان تھے۔ جناب مجیب الرحمن شامی کا لیکچر جاری تھا۔ وہ کہہ رہے تھے۔ ”قائداعظم کے بعد عمران خان کی صورت میں ایک سچا اور مخلص لیڈر ملا ہے، میں نے قائداعظم کے بعد عمران خان کی طرح سچا اور کھرا لیڈر نہیں دیکھا۔ ہم جیسے بزرگ اب دنیا سے کوچ کرتے ہوئے اطمینان سے جائینگے کہ پاکستان عمران خان کے محفوظ ہاتھوں میں ہوگا۔“ مجھے عمران کی سیاست سے کبھی دلچسپی نہیں رہی۔ جب صحافت کے دیدہ ور اور لیجنڈ سے عمران خان کے بارے میں یہ سنا توکوئی جائزہ لینے، تحقیق و جستجو کی ضرورت نہیں تھی، اسکے بعد سے اب تک جناب شامی صاحب کے الفاظ کی حرمت کا یقین کئے ہوئے ہوں۔ عمران خان کے بارے میں بہت سی منفی باتیں سننے میں آرہی ہیں، جن کی کبھی پروا نہیں کی ‘شامی صاحب کے اقوال پر شک نہیں کیا جاسکتا۔ وہ آج اپنے الفاظ سے رجوع کرلیں تو ہاتھی کے پاﺅں میں سب کا پاﺅں، ہم بھی سیاپا برگیڈ کی طرح عمران خان کے لتے لیں گے۔

الطاف حسن قریشی صحافت اور ادب کی دنیا میں اپنی مثال آپ اور ہم جیسے لوگوں کےلئے رہنمائی کا مینارہ نور ہیں۔ انہوں نے اپنے ایک کالم میں کہا تھا کہ میاں محمد نوازشریف اب صرف پاکستان کے ہی سیاستدان نہیں رہے بلکہ عالمی مدبر بھی ہوگئے ہیں۔ عالمی مدبر ہونا ‘ایک بڑا اعزاز ہے ‘سپریم کورٹ کی طرف سے نااہلی کے فیصلے کے بعد اس اعزاز کو زیادہ جسٹی فائی کرتے ہیں۔ حالیہ دنوں محترم ومکرم قریشی صاحب نے مریم نواز کی ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ بڑی خوبصورتی اور بھرپور دلائل کے ساتھ مسابقت کی، تحریر ذرا طویل ہے۔ مگر ایک فقرے میں قلزم قلمبند ہے۔ 5 جولائی کا موازنہ مبنی بر حقیقت کیا ہے۔ بھٹو کی حکومت کا تختہ 5جولائی کوالٹایا گیا جبکہ مریم نوازشریف 5 جولائی کو جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوئیں۔ جناب قریشی صاحب فرماتے ہیں ”مریم نواز جے آئی ٹی کے روبرو پیش ہوئیں تو ایک سیاسی، کرشماتی شخصیت کا ظہور ہوا“۔ دونوں صحافت اور ادب کی مدارالمہام شخصیات سے اختلافت کی کوئی گنجائش ہے ہم جیسے لوگ انکے ایسے ارشادات کی روشنی میں اپنی صحافتی سمت درست رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

بلاشبہ سیاسی لیڈروں سے بے پایا محبت کرنیوالے لوگ موجود ہیں ۔ ہم میں سے اکثر لوگوں کا دل ‘دل نہیں، ایک مندر ہے جس میں اپنی پسندیدہ شخصیت کا بت رکھا ہے بعض اوقات تو اس بت کو تمام رشتوں اور ایمان تک پر ترجیح دی جاتی ہے۔ خرابی مگر یہ بھی کہ جس لیڈر سے جتنی محبت کی جاتی ہے اسکے مخالف لیڈر سے اتنی ہی نفرت بھی دیکھنے میں آتی ہے۔ لیڈر سے محبت ضرور کریں ، اسکی محبت کو کسی کیلئے نفرت کا معیار نہ بنائیں اور پھر محبت اور چمچہ گیری میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ عدالتوں کے باہر، جوڈیشل اکیڈمی کے سامنے، ٹاک شوز اور پریس کانفرنسوں میں اپنے لیڈر کی چاپلوسی دوسروں پر دشنام چمچہ گیری کی واضح مثالیں ہیں اور اس میں لیڈر ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کیلئے کوشاں نظر آتے ہیں۔

آج نوازشریف‘ عمران خان اور آصف زرداری کو سیاست میں جو مقام ملا ہے وہ پاکستان کی بدولت ہے۔ پاکستان ہے تو سب کچھ ہے ورنہ کچھ بھی نہیں۔ پاکستان نہ ہوتا تو انہی میں سے کوئی چائے بیچ رہا ہوتا، کوئی کوچوان اور کوئی زیادہ سے زیادہ رکشہ ڈرائیور ہوتا۔ چاپلوسی میں وزیراعلیٰ گلگت بلتستان حافظ اور وزیراعظم آزادکشمیر فاروق حیدر نے حد کردی۔ حافظ صاحب سپریم کورٹ کے فیصلے کو بغاوت کہہ رہے ہیں جبکہ فاروق حیدر کہتے ہیں ہم کسی کے ساتھ بھی مل سکتے ہیں۔ اس خبر کی تردید کیلئے انہوں نے جو پریس کانفرنس کی وہ عذرِ گناہ بدتر از گناہ تھی۔ اللہ نے ماشاءاللہ ”شکل“ اچھی دی ہے مگر اخلاقیات نام کی کوئی چیز نہیں، صحافیوں پر گرج برس رہے تھے۔سیاستدانوں نے سپریم کورٹ کو تو ”ماسی دا ویہڑہ“ بنالیا ہے ۔ ابھی تو ہوا ہی کچھ نہیں‘ بہت کچھ ہوتا نظر آرہا ہے۔ مجیب الرحمن شامی کا سچا اور کھرا سیاستدان کرپشن کا کُھرا جن لوگوں کے گھروں تک لے جارہا ہے ان سے کھربوں ڈالر کی ریکوری ہوتی نظر آتی ہے۔

قارئین یقین کریں ہماری پسماندگی و درماندگی کی وجہ ہمارے وہ حاکم‘ عمال اور حکام ہیں جو ملک سے وسائل لوٹ کر بیرونِ ملک لے گئے یا ادھر ہی کہیں کھپا دئیے۔ اگر یہ پاکستان ہی میں ہوتے یا اب بھی آجائیں تو ریاستی امور چلانے کیلئے ٹیکسوں کی ضرورت نہیں ہوگی۔ پٹرول 30 روپے لٹر ہوگا، انڈیا میں سب سے سستی گاڑی کی قیمت ڈیڑھ لاکھ روپے ہے پاکستان میں ٹیکس نہ ہو تو جاپان سے اس قسم کی گاڑی پاکستان میں ایک لاکھ کی ملے گی جو ہرموٹرسائیکل رکھنے والا افورڈ کرسکتا ہے۔ لوٹ مار کا اثر کس پر پڑا ہے؟ خود سوچ لیں۔

جب بھی کسی بڑے کے پر جلتے ہیں تو آئین میں نقب لگانے کی باتیں ہوتی ہیں۔ اب کردار کا تعین کرنےوالا آئین کا آرٹیکل 62اور تریسٹھ (باریسٹھ) زیر بحث ہے۔ کیا اس کو ختم کرکے یہ اعلان کرایا جائےگاکہ چور‘ لٹیرے‘ بدمعاش‘ فاسق و فاجر لوگ اسمبلیوں میں آجائیں؟؟

ہوتا تو اب بھی یہی ہے مگر پھر تو ایک اعلان ہوجائےگا۔ میاں نوازشریف نے 2010ءمیں اس آرٹیکل میں ترمیم کی حمایت کرنے سے یہ کہہ کر انکار کردیا تھا، وہ اسلام کیخلاف نہیں جائینگے۔ ضیاءالحق کی ہر ترمیم کو اکھاڑ پھینکنے کی ذہنیت سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ ان میں ناموس رسالت کا قانون بھی موجود ہے۔ ....

خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں

ہوئے کس قدر فقیہان بے توفیق

میاں نوازشریف اپنے موقف سے نہ ہٹیں۔ نااہلی کا گو کہ آپ کیلئے بڑا کڑوا فیصلہ ہے مگر اس سے ایک مِتھ تو ختم ہوئی کہ پنجاب کے وزیراعظم کیلئے اور فیصلہ دوسرے صوبوں کے وزرائے اعظم کیلئے اور۔ مگر یہ فیصلہ سپریم کورٹ نے اس نکتہ نظر سے نہیں، فیصلہ اسکے سامنے رکھے گئے شواہد کے مطابق کیا ہے۔ ایک بار پھر عرض ہے کہ یہ پاکستان ہے جس میں کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ آپکی اہلیت پھر ثابت ہوسکتی ہے مگر دیر ہوچکی ہوگی کیونکہ آپ نے سیماب پاصفت کے حامل‘ فعال اور متحرک شہباز شریف کو اپنا جاں نشین نامزد کردیا ہے، اگر وہ، اگر وزیراعظم بن گئے تو بہت کچھ قصہ پارینہ ہوجائےگا۔