خوش فہمی... کالم نگار | فضل حسین اعوان....شفق

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع جنوری 08, 2017 | 09:22 صبح

خوش گمانی اور خوش فہمی میں زیادہ فرق نہیں ہے۔ اگر نتائج توقعات کے مطابق نہ نکل سکیں تو خوش فہمی کو غلط فہمی کہہ دیا جاتا ہے۔ بہت سے لوگوں کو خوش فہمی تھی کہ ایم کیوایم تقسیم ہو چکی ہے۔ تقسیم کی بات کریں تو اس میں بھی ایک برابری کا پہلو نظر آتا ہے۔ تقسیم پوری طرح سے برابر برابر

نہ سہی اس میں انیس بیس کا فرق ہو سکتا ہے۔ ایم کیو ایم کے وجود کے جس طرح دو حصے سامنے آئے اس میں سے الطاف کے اپنے وجود کی طرح بڑا دھڑا ایم کیو ایم کراچی کا سامنے آیا جبکہ ایم کیو ایم لندن کا وجود بھی لاوجود کی طرح تھا۔ اس گروپ کی پاکستان میں حیثیت تین میں ہے نہ تیرہ میں۔ محب وطن پاکستانی بڑے مطمئن تھے کہ اس ناسور سے نجات مل گئی۔ ایم کیو ایم پاکستان، اب قومی دھارے میں شامل ہو کر وہ خون معاف کرانے کی کوشش کرے گی جو اس کے سر چڑھ کر بولتے رہے ہیں مگر یہ سب پاکستانیوں کی خوش فہمی تھی جو نسرین جلیل نے دور کر دی۔ نسرین جلیل سینٹ میں قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کی چیئرپرسن ہیں۔ اس خاتون کو چین کی وہ کاوش ناگوار گزری جسے پاکستانی اپنے اوپر احسان سمجھتے ہیں۔چین نے مولانا مسعود اظہر کو اقوام متحدہ میں دہشت گرد قرار دینے کی قرارداد کو تیسری بار ویٹو کر دیا۔ یہ قرارداد منظور ہو جاتی تو اگلے اقدام کے طور پر پاکستان کو دہشت گرد ریاست قرار دلانے کی بھارت نے کوشش کرناتھی۔ نسرین جلیل نے وائس آف امریکہ کو جو بیان دیا وہ الطاف کے پاکستان کے بارے میں باطل خیالات کی ترجمانی کرتا ہے۔ یہ انٹرویو وائس آف امریکہ نے ایک رپورٹ کی صورت میں شائع کیا ملاحظہ کیجئے۔

سینیڑ نسرین جلیل نے کہا ”ہم حکومت سے کہیں گے کہ اگر چین کی حکومت پر زور دلوا کر یہ کروایا گیا توحکومت پاکستان کو ایسا نہیں کرنا چاہیے۔“ پاکستانی سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے ممبران نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ کالعدم تنظیم جیش محمد کے سربراہ مسعود اظہر سے متعلق اقوام متحدہ میں قرارداد کی مخالفت چین نے کیوں کی“۔

پاکستانی وزارت خارجہ کا موقف ہے کہ نئی دہلی کی طرف سے عسکریت پسند تنظیم جیش محمد کے سربراہ مسعود اظہر کے خلاف اقوام متحدہ میں قرارداد ایک ’سیاسی حربہ‘ ہے۔ بھارت کا الزام ہے کہ ا±س کے ہاں ہونے والے بعض حملوں بشمول پٹھان کوٹ فضائی اڈے پر کئے جانے والے حملے میںجیشِ محمد اور مولانا مسعود اظہر ملوث ہیں۔ جیشِ محمد اقوام متحدہ کی ا±س فہرست میں شامل ہے جن پر عالمی تعزیرات عائد ہیں لیکن مسعود اظہر کا نام بلیک لسٹ میں شامل نہیں ہے۔

درج بالا وائس آف امیریکا کی رپورٹ کے بعد بتایئے کیا فرق ہے، ایم کیو ایم کراچی اور لندن کے لیڈروں کی سوچ میں؟ ہمارے بڑے بڑے سیاسی بزرجمہر نائن زیرو کا طواف کرتے اور یادگار شہداءپر حاضری دیتے رہے ہیں۔ جن کی یہ یاد گار ہے انہوں نے کس مقصد کے لئے اور کس دشمن ملک کی فوج کے ساتھ لڑتے ہوئے شہادت کا درجہ پایا؟جنرل راحیل شریف نے ’مکا چوک ‘کا نام شہید لیاقت علی خان چوک رکھوایاتھا۔ اگر یاد گار شہداپاک فوج کے ساتھ لڑ کر مرنیوالوں کی یادگارمیں بنائی گئی ہے توکیا اس کا وہاں کیا وجود ہوناچاہئے۔

پانامہ کیس سے مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف نے اپنے اپنے حق میں فیصلہ آنے کی امیدیں باندھی ہوئی ہیں۔ فیصلہ جس فریق کے حق میں آیا اس کی خوشی کی انتہا نہیں رہے گی۔ ن لیگ کے خلاف فیصلہ آیا تو ن لیگ کو نہیں صرف میاں نوازشریف کو نقصان ہو گا۔ ان کی وزارت عظمیٰ جا سکتی ہے۔ باقی اکثر لوگ تو اپنے اپنے مقام پر رہیں گے کسی ایک کا درجہ و رتبہ بلند ہو گا‘ جو وزیراعظم کے منصب کا حق دار ٹھہرے گا۔ عدلیہ نوازشریف کو کلیئر قرار دیتی ہے تو عمران خان کا کیا جائے گا؟ کچھ بھی نہیں۔وہ مسکرا کر کوئی نیا اشو ڈھونڈ لیں گے۔ بہرحال فیصلے سے کسی ایک فریق کی خوش فہمی غلط فہمی بن جائے گی۔

پانامہ کیس کا ایک بڑا دلچسپ پہلو بھی ہے۔ پانچ رکنی بنچ کی سربراہی جسٹس آصف سعید کھوسہ کر رہے ہیں۔ 2012ءوہ جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں اس سات رکنی بنچ کا حصہ تھے جس نے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو دنیا کی تاریخ کی مختصر ترین سزا دی جس نے گیلانی کی کائنات اور خرمن پر بجلیاں گرا دی تھیں۔ گیلانی صاحب کو بھی خوش فہمی تھی کہ عدالت ان کے خلاف فیصلہ نہیں دے گی مگر

صد آرزو کہ خاک شد۔

گیلانی سمیت کئی لوگ اس غلط فہمی یا بدگمانی کا شکار ہیں کہ ان کو جسٹس افتخار محمد چودھری نے نااہل قرار دیا تھا۔ کل وزیراعظم نوازشریف کے خلاف فیصلہ آتا ہے تو کیا کہا جائے گا‘ یہ فیصلہ جسٹس میاں ثاقب نثار نے دیاہے؟

ن لیگ اور اس کے اتحادی ڈیڑھ ماہ پہلے تک پریشان تھے،دبے لفظوں میں میڈیا پر اور کھلے بندوں عام گفتگو میں اس کا اظہار کرتے تھے،کہا جاتا کہ جنرل راحیل اور انور ظہیر جمالی ریٹائر ہونگے تو ن لیگ مسائل سے نکل آئے گی،حالانکہ جمالی صاحب نے پانامہ لیک میں ن لیگ کو جو ریلیف دیا اس نے جسٹس جمالی کے کیریئر کی تابناکی کو دھندلا دیا،خواجہ آصف کی اہلیت کے فیصلے پر باتیں ہورہی ہیں۔ اس میں سپریم کورٹ ہی کے ایک طے کردہ اصول کی نفی ہے۔جنرل راحیل کی ریٹائر منٹ اورجسٹس جمالی کی طرف سے پانامہ کیس کو ایک ماہ کیلئے التوا میں ڈالنے پر ن لیگ نے سکھ کا سانس لیا۔مولانا فضل الرحمٰن نے کہاتھا کہ اب نواز شریف کی مشکلات ختم ہوگئی ہیں۔جنرل راحیل ڈان لیک کی انکوائری پر زور دے رہے تھے۔اس کی انکوائری کیلئے کمیشن بنا اس کی طرف سے سات دسمبر کورپورٹ آنی تھی، اس میں ایک ماہ کی توسیع کی گئی مگر سات جنوری کوبھی رپورٹ نہیں آئی۔جنرل باجوہ سے بھی حکومت کو خوش فہمی ہے کہ ان کو صرف اپنے معمولات سے دلچسپی ہے،وہ ڈان لیک پر کچھ نہیں بولیں گے،حالانکہ جنرل باجوہ اس اجلا س میں بطور کور کمانڈر موجود تھے جس میں ڈان لیک کو ’سیکورٹی بریچ‘ کہا گیا تھا۔ خوش گمانی میں خوش فہمی کا اسیر رہنے میں کوئی حرج نہیں، مگر سب کچھ ہمیشہ اپنی پلاننگ کے مطابق نہیں ہوتا۔ نواز شریف نے مشرف کواپنے اختیارات کی خوش فہمی میں ہی برطرف کیا تھا۔ مشرف نے بھی کسی خوش فہمی میں وردی اتاری۔۔۔ اور خوش فہمی ہی میں پاکستان چلے آئے اور واپسی کیلئے کس طرح رسے تڑوا رہے تھے۔ آج بظاہر ہر چیز ن لیگ کی فیور میں ہے۔ اسے پاناما لیک کیس سے بھی زیادہ خطرہ نہیں، ایسے وہ کئی کیس بھگت اور ججوں سے بھی نمٹ چکے ہیں، نواز شریف اور شہباز شریف کو جس عدلیہ نے نااہل قرار دیا اسی نے اہل بھی کہہ دیا تھا۔پاناما کیس سے ہر کسی کو اپنی مرضی کے فیصلے کی خوش فہمی ہے۔۔۔ ہونی بھی چاہیے کہ خوش فہمی ہزار نعمت ہے مگر جب غلط فہمی ثابت ہوتی ہے تو ایسی زحمت بھی ثابت ہوتی ہے جو انسان کو کبھی تو کہیں کا نہیں چھوڑتی، بھٹو صاحب کو تو خوش فہمی تختہ دارتک لے گئی تھی۔