واہگہ پریڈدیکھنا کیوں ضروری

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع مارچ 22, 2017 | 08:38 صبح

واہگہ اور گنڈا سنگھ بارڈر پر جذبات سے معمور اور دلفریب تقریب کی بڑی دھوم سنی اور ٹی وی چینلز پر کئی بار جھلکیاں دیکھی تھیں۔ کئی بار واہگہ جا کر شام کی پریڈ دیکھنے کا قصد کیا مگر… مگر اب ہفتہ کے روز جانے کا پروگرام بنایا اس میں تبدیلی اس لئے نہ ہو سکی کیونکہ اوکاڑہ سے چھوٹے بھائی لطیف بمع فیملی آ

ئے ہوئے تھے ۔ ہم کشاں کشاں واہگہ کی جانب روانہ ہوئے۔ پروٹوکول نمبر مل گیا تھا ۔ اس سے فائدہ یہ ہوتا ہے کہ رش کے دنوں دھکم پیل سے پروٹوکول والے بچ جاتے ہیں۔ ہفتے کے روز زیادہ رش نہیں تھا۔ چار پانچ بچے ہلا گلا کرتے، نعرے لگاتے جا رہے تھے۔ ایک طرح سے جشن کا سماں تھا۔ یہ سب دلکش پریڈ دیکھنے کے شوق کا اظہار تھا۔ ہم بڑے بھی کچھ جذباتی سے ہو رہے تھے۔ یوں لگ رہا تھا ہم معرکہ حق باطل ملاحظہ کرنے جا رہے ہیں جس میں حق یعنی ہماری فتح یقینی ہے۔ ہم کینال روڈ سے گئے۔ بی آر بی نہر سے ہوتے ہوئے واہگہ روڈ پر مڑے ہی تھے کہ سامنے جو کچھ نظر آیا اس سے خوشی کچھ کافور اور جوش ٹھنڈا پڑنے لگا۔ یہاں سے منزل سات آٹھ کلو میٹر دور ہے مگر بھارتی ترنگا نظر آ رہا تھا۔ رینجرز نے سکیورٹی کے مثالی انتظامات کر رکھے ہیں۔ کوئی افراتفری نہیں، کوئی بدتمیزی نہیں، چیکنگ کے چار پانچ مراحل ہیں۔

ہربنس پورہ سے آگے جائیں تو بی آر بی تک نہر کے اطراف اچھی سڑک، درخت لہلاتے اور پھول پودے بہار دکھاتے ہیں۔ بی آر بی کے ساتھ چند کلومیٹر سڑک ویران اور آگے واہگہ روڈ سرسبز فصلوں کے درمیان بیابان ہے۔ یہ سڑک اب قومی اہمیت کی حامل ہے مگر اسکے شایان نہیں۔ لاہور کی اکثر سڑکیں سبزہ زار اور یہ آٹھ نو کلو میٹر ریگزار سی ہے۔ پنجاب حکومت اسے لاہور کا حصہ سمجھے‘ اسکے گرد گرین بیلٹ بنا دے۔

20 روپے فی کس ٹکٹ اور 20 روپے ہی کار پارکنگ فیس ہے۔ پریڈ سے قبل ادھر پاکستان تو ادھر انڈین براجمان ہوتے ہیں۔ ہم لوگ ڈیڑھ گھنٹہ قبل سٹیڈیم پہنچ گئے۔ ہمارے سٹیڈیم میں داخلے سے قبل قومی نغمے بج رہے تھے۔ جو قومی جذبات کو گرما رہے تھے۔ ڈیڑھ گھنٹہ ایک صبر آزما انتظار ہوتا ہے، اس دوران عموماً بوریت ہوتی ہے۔ یقین جانئیے یہاں ایک لمحہ بھی بوریت ہوئی نہ بوجھل محسوس ہوا۔ تھوڑی دیر بعد نغموں کی دھن پر رقص کرتا ایک ٹانگ سے معذور نوجوان نمودار ہوا۔ وہ پرچم کو لہراتا ہوا آگے پیچھے جا رہا تھا۔ بار بار بھمبیری کی طرح گھوم کر اپنے جوہر دکھا رہا تھا۔ اس کے ساتھ ایک صحت مند مست مولا ٹائپ نوجوان بھی آ ملا۔ تھوڑی دیر میں ان کا تیسرا ساتھی ڈھول والے کے ساتھ نمودار ہوا۔ قومی نغموں کی گونج، ڈھول کی تھاپ اور یہ چار درویش شرکاء کو اپنے اپنے فن سے محظوظ کر رہے تھے۔ کولڈ ڈرنک، پاپ کارن، پاکستانی فلیگ اور کیپ فروخت کرنیوالے ادھر سے ادھر آجا رہے تھے۔ یہاں تصویر اور ویڈیو بنانے پر کوئی پابندی نہیں بلکہ رینجرز نے ایک جوان اس مقصد کیلئے وقف کر رکھا ہے۔ لوگ اسکے ساتھ جوق در جوق تصویر بنواتے، تھوڑی دیر میں یہ چائے کے مگ پر پرنٹ ہو کر انکے حوالے کر دی جاتی، یہ کپ مناسب ریٹ پر تین سو روپے میں دستیاب ہے۔

ہم سٹیڈیم پہنچے تو دوسری طرف ہائوس فل تھا جبکہ ہماری طرف آخری وقت میں بھی کچھ نشستیں خالی تھیں۔ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔ شور شرابہ‘ ہلہ گلہ ایک ناپسندیدہ فعل ہے مگر یہاں یہ سب بھلا لگ رہا تھا۔ انڈین سائیڈ پر پاکستان کی نسبت تین گنا زیادہ نشستوں کی گنجائش پیدا کی جا رہی ہے۔

سٹیڈیم میں آپ داخل ہوتے ہیں توآخر تک بہت کچھ سامنے آتا ہے۔ جہاں قومی جذبات ہیں، سنسنی ہے ہنسی ہے مضحکہ خیزی ہے۔ دونوں طرف جوانوں میں واضح فرق ہے، ہمارے گبھرو دراز قد،لحیم وشحیم جوان تو دوسری طرف پُتلی ٹائپ تھے۔ ادھر ریلنگ والا گیٹ‘ ادھر عام گیٹ ہے۔ پریڈ کے آغاز میں دونوں طرف سے دو دو باوردی خواتین گیٹ کے قریب آتی ہیں۔ ہماری لڑکیوں میں یکسانیت نہیں تھی۔ قد میں نمایاں فرق تھا۔ پریڈ میں شامل جوانوں کے بازوئوں پر رینک لگے تھے جبکہ انتظامی افسروں اور جوانوں کے بازوئوں اور کندھے پرکوئی رینک اور نشان نہیں ۔ وردی بھی یکساں ہے۔ ڈھولچی، معذور نوجوان اور دیگر دو نے سفید شلوار اور سبز کرتے پہن رکھے تھے۔ کرتوں کی بیک سائیڈ پر انکے نام لکھے تھے۔ ان میں سے تین کو واپسی پر بی آر بی نہر پر کھڑے دیکھا یہ شاید موٹر سائیکل سے اتر کر پیسے تقسیم کر رہے تھے۔

پریڈ کے دوران پائوں اٹھاتے، انڈین و پاکستانی سپاہی جس طرح ایک دوسرے کو آنکھیں دکھاتے ہیں‘ اس سے جذباتیت کے اظہار کے ساتھ دیکھنے والوں کے لبوں پر مسکراہٹ بکھرجاتی اور بعض قہقہہ بھی لگا دیتے ہیں۔ ہاتھ ملا کر آنکھیں دکھانا، آپ اسے جو بھی کہہ لیں۔ ہر موومنٹ کے بعد دونوں اطراف کے جوان اپنا کلہ و کلغی درست کرتے ہیں۔ اس کلے کو سٹریپ لگایا جا سکتا ہے جو کم ازکم دو موومنٹس کیلئے تو اپنی جگہ سے نہ ہلے۔ جس طرح پائوں ماتھے کی سیدھ میں لا کر پٹخا جاتا ہے اس سے جوان گر بھی جاتے ہیں، کلہ سنبھالنا بھی مشکل ہوتا ہے بہرحال یہ ایک روایت چل رہی ہے تو ٹھیک ہے،کُلے کو سٹریپ لگ جائے تو بہتر ہے، گیٹ اکھاڑے جانے کے انداز میں زور دار طریقے سے کھولے اور بند جاتے ہیں۔

تقریب کے دوران وقفے وقفے سے لمبی اَے… کی آواز آتی ہے شاید یہ پریڈ کے دوران جوانوں کیلئے اگلی موومنٹ کی تیاری کا سگنل ہو۔ یہ آواز کسی قدر کٹے کی آواز سے مشابہ اور لگتا ہے سلو موشن میں جے ہند کہا جانے والا ہے۔یہ واقعی قومی سطح کی پریڈ ہے، لوگ بڑے جوش و جذبے سے دیکھنے جاتے ہیں۔ یہاں ٹکٹ اور پارکنگ فیس کا کوئی جواز نہیں۔یہ فوج کے شایانِ شان نہیں۔ اگر اسے کمائی کا ذریعہ بنایا گیا ہے تو چندہ بکس رکھ دیں یا چار درویشوں کی جگہ دو ہی کھسرے نچا دیں تو اس سے کہیں زیادہ کمائی ہو سکتی ہے۔ جس نے ٹکٹ کی تجویز دی اور اس پرعمل کیا اوراب جو مکھی پر مکھی مار رہے ہیں، وہ ادارے کے وقار کو مدنظر رکھیں۔

ہوا میں لہراتا بل کھاتا بھارتی پرچم بھارتیوںکے سینے پھلاتا ہمارا دل جلاتا ہے۔ اسکے مقابل سبز ہلالی پرچم نہ لہرانے کی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔ متعلقہ حکام کی یہ غفلت پاکستانیوں کے جذبات پر تازیانہ ہے۔ کم از کم اتنی ہی اونچائی اور اسی سائز کا پاکستانی پرچم لہرانے سے ہمارے ہاں سے انڈین پرچم اوجھل ہوگا ۔وہیں سبز پرچم میلوں دور سے پاکستانیوں کا استقبال کرتا، لہراتا، بل کھاتا نظر آئیگا۔

کہتے ہیں جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ پیدا ہی نہیں ہوا۔ جس نے لاہور دیکھ لیا وہ پیدا ہوگیا۔ ہم تو کہتے ہیں جس نے واہگہ کی تقریب نہیں دیکھی وہ پیدا ہو کر جوان ہی نہیں ہوا۔