گھمنڈی قیادتیں ‘ بے لوث کارکن

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع اپریل 05, 2017 | 06:02 صبح

دھماکے کی آواز آئی تو اے ڈی سی پلک جھپکتے میں دروازہ کھول کر کمرے میں داخل ہوا۔ صدر ذوالفقار علی بھٹو کا چہرہ غصے سے سرخ اور و

ہ سامنے کھڑے کارکن پر برس رہے تھے۔ اے ڈی سی نے کارکن کو اپنے تئیں دونوں ہاتھوں سے قابو کر لیا اور اسی ایکشن میں باہر لے جانے لگا۔ بھٹو صاحب نے کہا ”چھوڑ دیں، انہیں بیٹھنے دیں“۔ اے ڈی سی نے کہا ”سر انہیں ابھی لاتا ہوں“۔ باہر لا کر جیالے سے بھٹو صاحب کے اشتعال میں آنے کی وجہ پوچھی اور پھر اندر لے جا کر بٹھا دیا۔ یہ جیالا نوجوان قیوم نظامی تھا۔

قیوم نظامی بتاتے ہیں کہ وہ سمن آباد لاہور میں پیپلزپارٹی کے پرائمری یونٹ کے انچارج تھے۔ انہوں نے بھٹو صاحب سے ملاقات کی خواہش کا اظہار ایک خط کے ذریعے کیا جس کی پذیرائی کا زیادہ امکان نہیں تھا۔ کہاں صدر اور کہاں ایک کارکن! بہرحال ایک موہوم سی امید ضرور تھی۔ میری حیرانی کی انتہا ہو گئی جب فون آیا کہ بھٹو صاحب سے لاہور گورنر ہاﺅس میں آپکی فلاں دن اتنے بجے 5 منٹ کی ملاقات طے ہے۔ مقررہ روز میرے ساتھ تین چار کارکن بھی ہو لئے۔ گورنر ہاﺅس گیٹ پر کہا گیا کہ صرف قیوم نظامی اندر جا سکتے ہیں۔ میں نے پراعتماد لہجے میں کہا کہ یہ بھی بھٹو صاحب سے ملیں گے۔ اے ڈی سی کو بھی یہی کہا مگر اس نے ان ساتھیوں کو باہر بیٹھ کر انتظار کرنے کو کہا۔ اے ڈی سی کیساتھ میں اندر چلا گیا۔ بھٹو صاحب کھڑے ہو کر ملے۔ مجھے بیٹھنے کو کہا۔ میں نے عرض کی ساتھ تین کارکن بھی ہیں، ان کو بھی اندر آنے دیں۔ بھٹو صاحب نے کہا آپ بیٹھیں۔ میں نے پھر کہہ دیا‘ سر وہ مایوس ہونگے۔ اس پر بھٹو صاحب کو غصہ آگیا۔ شاید یہ جاگیردارانہ مزاج سے لگا نہیں کھاتا تھا۔ بھٹو صاحب کو غصہ آتا تو وہ زور سے زمین پر پاﺅں مارتے تھے۔ وہ عموماً انکلٹ شوز پہنتے تھے۔ یہ گورنر ہاﺅس کا فسٹ فلور تھا جس کا فرش لکڑی کا بنا ہوا ہے۔ بھٹو صاحب کا زوردار پاﺅں لکڑی کے پھٹے پر پڑا‘ دھماکہ تو ہونا ہی تھا۔اے ڈی سی نے کمرے سے باہر لا کر میری بات سننے کے بعد کہا ”آپ صدر سے مل رہے ہیں۔ ایسی بات نہیں کرنی چاہیے تھی“۔ میں نے کہا ”مجھے نہیں پتہ تھا وہ خفا ہو جائینگے۔ میں سوری کر لیتا ہوں“۔ اس پر اے ڈی سی مجھے دوبارہ کمرے میں لے گئے۔ بھٹو صاحب نے مجھے بیٹھنے کو کہا۔ میں نے معذرت کی۔ انہوں نے کہا ”صدر کے سامنے اس طرح بات کرتے ہیں! میں نے پھر عرض کی ”میں صدر سے ملنے نہیں آیا، پارٹی کے چیئرمین کے روبرو ہوں“۔ جس پر بھٹو صاحب نے تحسین آمیز نظروں سے مجھے دیکھا اور ملاقات کیلئے آنے کا مقصد پوچھا۔ میں نے جو پارٹی کے معاملات تھے انکے گوش گزار کئے۔ 5 منٹ کی ملاقات طے تھی۔ بھٹو صاحب نے آدھا گھنٹہ بات کی۔

گزشتہ روز بھٹو کی برسی تھی جو پیپلزپارٹی کے دفاتر، لیڈروں اور کارکنوں کے گھروں سے زیادہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر منائی جاتی نظر آئی۔ بھٹو کو ضیاءالحق آمریت میں 4 اپریل 1979ءکو پھانسی دی گئی مگر بھٹو پیپلزپارٹی کی صورت میں زندہ رہے۔ پیپلزپارٹی کو ختم کرنے کی بڑی کوششیں ہوئیں مگر سول اور فوجی آمریتیں پیپلزپارٹی کا کچھ نہ بگاڑ سکیں۔ زمام اقتدار آصف علی زرداری کے ہاتھ آئی تو انہوں نے بھٹو کو پارٹی سمیت 18 فروری 2013ءکو کفنایا، لحد میں اتارا اور دفنا دیا۔

بھٹو کارکن کا احترام کرتے تھے۔ آج سیاسی کارکنوں کی اعلیٰ قیادت کے سامنے کوئی پذیرائی نہیں۔ کارکن تو کارکن، لیڈروں کو بھی قیادت نہیں پوچھتی۔ جہانگیر بدر کے صاحبزادے علی بدر بتا رہے تھے کہ زرداری صاحب نے انکے والد کی وفات پر فون پر بھی تعزیت نہیں کی۔ بھلیکھا کے چیف ایڈیٹر مدثر بٹ نے بتایا کہ بلاول ہاﺅس میں ایک تقریب میں محدود تعداد میں لوگ موجود تھے۔ زرداری صاحب تشریف لائے۔ شرکاءسے ہاتھ ملانا گوارہ نہ کیا اور تقریب کے اختتام پر وہ جانےوالے پہلے شخص تھے حالانکہ وہ میزبان تھے۔ پیپلزپارٹی کے انحطاط کی وجہ اور بلاول کی انتھک کوششوں کے باوجود ساکھ کی بحالی میں زرداری کا کارکنوں کے ساتھ ملاقاتوں سے گریز کا رویہ بھی رکاوٹ ہے۔

یہ صرف زرداری پر موقوف نہیں، مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے مدارالمہام بھی کارکنوں اور لیڈروں کی پروا نہیں کرتے صرف رتن ہی انکی شخصیت کے گرد گھومتے ہیں۔ کسی کے نورتن ‘کسی کے تین ہیں۔ پی ٹی آئی اور ن لیگ کی لیڈرشپ کو گھمنڈ ہے کہ امیدواروں کو ووٹ ہماری طلسماتی شخصیت کی بدولت ملتے ہیں۔ ہم کھمبے کو ٹکٹ دے دیں تو وہ بھی جیت جائےگا۔ کارکنوں کے بغیر لیڈر کی حیثیت تپتے صحرا اور بیاباں میں کھمبے جیسی ہو جاتی ہے۔بھٹو نے کارکن کو عزت اور اہمیت دی تو وہ سیاست میں انقلاب لے آئے۔ ان کو پاکستان توڑنے کا بھی موردِالزام قرار دیا جاتا ہے۔ حمودالرحمن کمیشن رپورٹ میں سب کچھ نہ ہو تو بھی بہت کچھ ہے۔ وہ بھٹو نے جاری نہ ہونے دی۔ بھٹو مر کے بھی اتنا طاقتور ہے کہ آج تک اس رپورٹ کو جاری نہیں ہونے دے رہا۔ برسبیل تذکرہ: عموماً کہا جاتا ہے کہ 1970ءکے الیکشن میں پیپلزپارٹی نے مشرقی پاکستان اور عوامی لیگ نے مغربی پاکستان میں کوئی امیدوار کھڑا نہیں کیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ عوامی لیگ نے مغربی پاکستان میں چھ امیدوار نامزد کئے تھے ان میں حامد سرفراز لاہور سے الیکشن لڑے تھے۔ ان سمیت چھ کے چھ ہار گئے تھے۔ مجید نظامی صاحب نے ایک مرتبہ بتایا کہ انہوں نے ووٹ قومی یکجہتی کیلئے مجیب الرحمن کی عوامی لیگ کے امیدوار حامد سرفراز کو دیا تھا۔ بھٹو کی برسی سے ایک روز قبل جناب مجید نظامی کی سالگرہ تھی۔

بھٹو کا نام آئے تو ضیاءالحق کا تذکرہ نہ ہو، ایسا ممکن نہیں۔ سابق چیف جسٹس آف پاکستان اور چیف الیکشن کمشنر ارشاد حسن خان بتا رہے تھے کہ ضیاءالحق کو غصہ آتا تو وہ زوردار قہقہہ لگاتے تھے۔ جس کا انہیں خود بطور سیکرٹری قانون کے تجربہ ہوا۔ عارف خان سندھیلا وزیراعظم نواز شریف کے قریب ہونے اور رہنے کی آخری خواہش کی طرح آرزو ہوتی ہے۔ وہ کروڑوں روپیہ میاں نواز شریف کی شان میں تہنیتی اور تحسینی اشتہارات کی مد میں اڑا چکے ہیں۔ اس کا میاں صاحب کو ادراک ہے مگر کسی عہدے کی تفویض کی صورت میں پذیرائی نہیں فرما رہے۔ سندھیلا صاحب بتا رہے تھے کہ میاں صاحب کو غصہ آئے تو وہ اِدھر اُدھر دیکھنے لگتے ہیں۔ سنا ہے غصہ ٹھنڈے پانی سے ٹھنڈا ہوتا ہے۔ میاں صاحب کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ گرم پائے انکے غصے کو پی جاتے ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب۔