تحریک عدل کیلئے موقع بے بدل

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع جنوری 10, 2018 | 08:41 صبح

احتجاجی مارچ اور دھرنوں کی سیاست بیسویں صدی کے تیسرے عشرے سے شروع ہوتی ہے جب چین کے ماؤزے تنگ نے ایک عظیم لانگ مارچ کا آغازکیا جس کے نتیجے میں چین کو آزادی نصیب ہوئی۔ یہ لانگ مارچ 368 دنوں پر محیط تھا۔ اکتوبر 1934ء میں آغاز ہوا۔ لانگ مارچ کا فاصلہ 6000 میل تھا۔ مائو کی فوج م

یں دو لاکھ افراد تھے جب یہ مارچ اپنی منزل پر پہنچا تو اس کے شرکا کی تعداد صرف چالیس ہزار کے لگ بھگ رہ گئی تھی۔ گویا ایک لاکھ ساٹھ ہزار افراد بھوک نامسائد حالات کا شکار ہو گئے۔ انہوں نے ایشیا کے بلند ترین برف پوش پہاڑوں اور غضبناک دریاؤں کو عبور کیا۔ اس دوران مائو سمیت بہت سے لیڈروں کے بیوی بچے بھائی اور دوسرے رشتہ دار قتل کر دئیے گئے۔ ماؤ کو گرفتار کر کے فوجی ٹرک میں لے جایا جا رہا تھا کہ ماؤ نے چھلانگ لگا دی۔ ماؤ کئی راتیں پہاڑوں میں پیدل چلتا رہا اس کے پاؤں لہو لہان ہو گئے۔ ماؤزے تنگ کا ایک ہی بیٹا تھا جسے انہوں نے کوریا کے ساتھ جنگ میں محاذ پر روانہ کیا‘ جب اس کی لاش واپس آئی تو یہ کہہ کر رونے سے انکار کر دیا ’’بے شمار والدین اپنے بیٹوں کی لاشیں وصول کر رہے ہیں، پہلے ان کے آنسو پونچھ لوں‘‘۔ سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے صدرمیاں محمد نواز شریف نے ایک بار تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ پہلے ججوں کی بحالی کیلئے نکلے تھے، اب انصاف کی بحالی کیلئے نکلیں گے۔یہاں سکھا شاہی نہیں چلے گی۔ میاں نواز شریف کے لانگ مارچ میں سرخرو ہونے میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں۔ ماؤزے تنگ نے ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ لوگ مروا لئے میاں نواز شریف کے مارچ میں کسی ہلاکت کا خدشہ نہیں البتہ کوئی خود قافلے کی گاڑی کے نیچے آ کر جاں جان آفرین کے سپرد کر دے تو الگ بات ہے۔ حکومت کی چھتری تلے ہونے والے مارچ مظاہرے اور احتجاج کے شرکاء بسیار خوری سے تو مر سکتے ہیں بھوک اور موسم کی سختی سے نہیں۔ میاں صاحب کے اندر وہ تمام خوبیاں ہیں جو علامہ اقبال کی نظر میں میر کارواں کے لئے ضروری ہیں۔

نگاہ بلند سخن دلنواز جاں پرسوز

یہی ہے رختِ سفر میر کارواں کے لئے

اپنے ہاتھوں لنگر تقسیم کر کے انہوں نے اپنے اندر ان عناصر کی موجودگی کا بھی اظہار کر دیا جو مسلمان ہونے کے لئے ضروری ہیں۔

قہاری و غفاری، قدوسی، جبروت

یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان

عدل بحالی تحریک کا بظاہر محرک عمران خان کو سپریم کورٹ کی طرف سے نااہل قرار نہ دینا ہے۔ اسی روز سپریم کورٹ کے ایک اور تین رکنی بنچ نے نیب کی حدیبیہ پیپر ملز ریفرنس کھولنے کی درخواست مسترد کر دی تھی۔ اس کیس میں شہباز شریف ان دی لائن آف فائر تھے جو بال بال بچ گئے جس کی مسلم لیگی مخالف اور کچھ حامی حلقوں میں بھی تکلیف محسوس کی گئی۔ سپریم کورٹ نے عمران خان کے خلاف غیرملکی فنڈنگ معاملے کو مسترد کرتے ہوئے نااہلی کی اپیلیں خارج کر دیں جبکہ جہانگیر خان ترین کو ایماندار قرار نہ دیتے ہوئے پارلیمانی سیاست سے تاحیات نااہل قرار دے دیا۔ اس پر فیصلے جانبداری کا طوفان اٹھا، تعصب کی گرد اڑائی گئی۔

اس فیصلے پر میاں نواز شریف اور ان کے چاہنے والے جو اعتراض کر رہے ہیں اس کا جواب بنچ کے ایک رکن جسٹس فیصل عرب نے ایک خصوصی نوٹ میں دے دیا تھا۔ اس میں جسٹس فیصل عرب کا کہنا ہے کہ عمران خان کا کیس پانامہ کیس سے یکسر مختلف ہے، عمران کیس کا موازنہ نواز شریف کیس سے نہیں کیا جا سکتا۔ پانامہ کیس میں منی لانڈرنگ کرپشن اور آمدن سے زائد اثاثوں کا معاملہ تھا، نواز شریف نے عوامی عہدہ سنبھالنے کے بعد آمدن سے زائد اثاثے بنائے، نواز شریف گزشتہ 30 سال اعلیٰ عوامی عہدوں پر تعینات رہے۔ میاں نواز شریف لندن فلیٹس، عزیزیہ سٹیل ملز، گلف سٹیل ملز کے ذرائع آمدن بتانے میں بھی ناکام رہے، یہ بات ثابت ہو چکی کہ نواز شریف عوامی عہدہ رکھنے سے پہلے یہ اثاثے نہیں رکھتے تھے، ان اثاثوں میں 840 ملین روپے کے ملنے والے تحائف بھی شامل ہیں۔ پاناماکیس میں عدالت نے قرار دیا کہ نواز شریف کی جانب سے تنخواہ چھپانا بددیانتی ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے اور جسٹس فیصل عرب کے اضافی نوٹ پر ہم جیسے لوگ قائل ہو گئے تھے۔عمران خان کے حق میں اور میاں صاحب کی خواہش کے مطابق فیصلہ نہ آنے کو دلیل اور شواہد کے ساتھ دانشوروں اور تجزیہ نگاروں نے سمندر کی تہہ سے کوڑیاں لاتے ہوئے جانبدارانہ اور مبنی برتعصب ثابت کر دیا جس پر ہمیں پہلے والی رائے سے رجوع کرنا پڑا۔ یہ لوگ لیجنڈ کہلانے کے بجا طور پر حقدار ہیں۔ جمائما کی ٹریل کے مقابلے میں قطری شہزادے کے خط کو معتبر قرار دیا اور ثابت بھی کیا۔ ہمارے ایک صحافی دوست نے مریم نواز کو بینظیر بھٹو سے بڑی سیاسی لیڈر اور جرات و بہادری کا پیکر ثابت کیا۔ ایک نے زیادہ ہی زور کی چوکڑی بھرتے ہوئے مریم کو اوتار قرار دیدیا۔ میاں نواز شریف نے قائداعظم ثانی کہلانے ہی پر اکتفا کیا حق و صداقت کے علمبردار انہیں قائد سے بڑا لیڈر باور کرا کے ثابت بھی کر سکتے ہیں۔ یہ اکبر اعظم کی دین الٰہی کی اختراع کی نشاۃ پر لبیک بھی کہہ دینگے۔

کچھ لوگ میاں نواز شریف کو خمیدہ قلب، دریدہ دہن اور دُزدیدہ نظر قرار دیتے ہیں مگر ایک حلقہ ہے جو ان کے خندہ جبیں اور شیریں سخن ہونے کا قائل ہے۔ 22 کروڑ عوام کی آنکھ کا تارا کوئی ایویں نہیں بن جاتا۔عزت اور ذلت کی طرح بزرگی بھی اللہ جس کو چاہے دیتا ہے۔ آج اکثر نوجوان لکھاری اور لکھارنیں اپنی پسند کی سیاسی شخصیات کو قابل تقلید شمار کرا رہی ہیں انہی کے بارے میں علامہ نے کہا تھا جوانوں کو پیروں کا استاد کر۔ کئی بڑے بھی اپنی پسند کی شخصیت کی معصومیت کی قسم کھا تے اورمخالف کو معصیت کا مینارہ قرار دیتے ہیں۔ یہ ان کا حسنِ کرشمہ ساز ہے جسے چاہیں عطا جسے چاہیں خطا بنا دیں۔ یہ سب ان کے بیٹے ہیں اس لئے حسین اور حسن کو لندن سے بلانے کی ضرورت نہیں ہے۔

نواز شریف کے عدلیہ مخالفت تحریک کے حق میں بھرپور دلائل دیئے جا رہے ہیں۔ ان کو سن اور پڑھ کر لگتا ہے جن ججوں نے پاناما اور عمران خان کی اہلیت کے فیصلے دیئے وہ اگر تعصب سے بالاتر تھے تو قانون سے نابلد ضرور تھے۔ ان دانشوروں کی کئی حوالوں سے خدمات حاصل کی جا سکتی ہیں۔ ججوں عدل اور عدلیہ کے خلاف تحریک میں کامیابی کے لئے یہ دانشور تھنک ٹینک ہی نہیں ریور اور سی ٹینک بھی ثابت ہو سکتے ہیں۔ آئین میں وہ ترمیم واپس لائی جا سکتی ہے جس کے تحت وزیراعظم جسے چاہے جج لگا دے۔ ایسا بے نظیر بھٹو کے دور میں ہو چکا ہے۔ احمد سعید اعوان ہائیکورٹ کے جج بنائے گئے تھے۔ جہانگیر بدر کو چیف جسٹس لگایا جا رہا تھا وہ تو قوم کی کوئی نیکی کام آ گئی تھی۔ آج پاکستان کی سرحدوں پر خطرات منڈلا رہے ہیں۔ اندرونی استحکام دائو پر لگا ہے، دہشت گردی پھن پھیلائے ہوئے ہے، امریکہ حارحیت کی دھمکیاں دے رہا ہے ، ایسے میں میڈیا کو عمران کی تیسری شادی کی فکر اور یہاں نواز شریف عدلیہ کے خلاف تحریک چلانے کے لئے خم ٹھونک رہے ہیں۔ انہوں نے جلسہ عام میں اعلان کیا کہ پانچ ججوں والے بنچ کو جواب دینا پڑیگا۔ انہیں ہم چھوڑیں گے نہیں۔میاں صاحب ان کا کیا کرلیں گے؟ انکے جاں نشین خاقان عباسی کہتے ہیں میرے آج بھی وزیر اعظم نواز شریف ہیں، خلاف فیصلے ردی کی ٹوکری میں جائیں گے۔ ایسا مخبوط الحواسی میں ہی کہا جاسکتا ہے۔تحریک عدل کے ذریعے کیا عدالتوں کو تالے لگانا یادبائو ڈال کر بحالی مقصود ہے ۔یہ دنیا میں ایسی نوعیت کی واحد اور منفرد تحریک ہے جس میں کامیابی کے لئے پارٹی کا ایک حلقہ کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہے مگر حکومت کچے پر پائوں رکھنے سے گریز کر رہی ہے جبکہ اکھاڑے سے دور بیٹھے حامی ججوں کے ساتھ فوج پر بھی پیچ و تاب کھا رہے ہیں۔