قبر کا خط محترم نواز شریف صاحب کے نام – ظفراقبال مغل

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع دسمبر 17, 2016 | 11:26 صبح

 

اے راہ حق کے مرد کامل! امید کرتی ہوں جب میری یہ تحریر آپ کے ہاتھ میں ہوگی اس وقت آپ ایک صحت مند اور توانا زندگی گذار رہے ہوں گے. نجانے کیوں آج میں بہت اداسی کے عالم میں آپ کو یاد کر رہی ہوں۔ میرا یاد کرنے کا مطلب ہرگز یہ نہ ہے کہ آپ کو ہر چند پریشانی میں مبتلا کروں اور نہ ہی آپ کو خوفزدہ کرنا مطلوب و مقصود ہے۔

عزیز من میاں صاحب! دنیا ایک لافانی ولامتناہی خواہشات کا بحر بےکراں ہے۔ جب آپ رات کو سوتے ہوں گے تو خوشبوؤں میں بسے اطلس و کمخواب کے بستر، نرم نرم پروں کے

تکیے اور راحت کے کئی اور سامان آپ کو میسر آتے ہوں گے۔ صبح کاذب طبع و طبیعت کے موافق غسل اور ناشتے کی میز خواہش کے مطابق انواع و اقسام کے کھانوں سے بھری ہوتی ہوگی۔ خادمین کی لمبی قطاریں خدمت و چاکری کے جذبے سے موجزن ادھر سے ادھر بھاگ دوڑ رہی ہوتی ہوں گی۔ سورج کی کرنیں سلام و آداب کی کورنشیں بجا لاتی ہوں گی۔ بیوی بچے وارے نیارے جاتے ہوں گے۔

مہمانوں کی لمبی لمبی لسٹیں ملاقات سے فیض یاب اور بعض حسرت دیدار دل میں ہی لے کے چلتے بن رہے ہوں گے۔ لمبی لمبی نئی اور بڑی بڑی کاریں آ جا رہی ہوں گی۔ طعام و اہتمام کے کئی ادوار چل رہے ہوں گے۔ سیکرٹری صاحبان کی اک دوڑ سی لگی ہوگی۔ حکم احکام کے پرچے کمپیوٹر سے دھڑا دھڑ نکل رہے ہوں گے۔ کیا معلوم کب دن چڑھا، کب شام آئی اور کب اندھیرے نے اپنے بازو پھیلا کے رات کو اپنے سر پہ کھینچ لیا ہوگا۔ کہیں ملکی باگ ڈور ہلانے کی ہلچل، کہیں دولت کے انبار ٹھکانے لگانے کے نت نئے طریقوں کی باتیں، کہیں فیملی کے مسائل، کہیں لندن کی گہما گہمی سے حسن و حسین کے فون، کہیں مریم اور حمزہ کی چہ میگوئیاں، کہیں شہباز کی پرواز، گویا ارد گرد اک ہنگامہ سا برپا ہوگا۔

وزیروں مشیروں سے ملاقاتیں، امور سلطنت کی بازیگریاں، ادھر رانا ثناءاللہ کی پھرتیاں، سب اک ترتیب زماں سے رقصاں و موجزن ہو رہی ہوں گی۔ عقل و خرد کے گھوڑے دوڑاتے دوڑاتے آپ یقینن مجھے فراموش کر بیٹھے ہوں گے۔ سوچا آج میں بھی آپ کی بزم میں کچھ دیر کے لیے آ جاؤں۔ کچھ باتیں روبرو ہو جائیں۔ آپ نے میرے بارے میں تو پڑھا سنا ضرور ہی ہوگا مگر چونکہ آپ امور سلطنت میں اس طرح مگن ہوتے ہیں کہ پھر کسی اور طرف نگاہ مست اٹھتی ہی نہ بنے ہے، تو خود سے آپ کی خلوت میں مخل ہونے کی جسارت کر رہی ہوں۔

میاں صاحب! میں ایک مٹی کی ڈھیری ہوں۔ دیر بدیر آپ میرے مہمان بننے والے ہیں۔ جب سفید چادرسے ڈھکا آپ کا جسد خاکی رضائے الہی سے تابوت میں لپیٹ کر آپ کے گھر سے اٹھایا جائےگا تو گھر والوں کی چیخوں کا اک کہرام مچا ہوگا۔ کوئی آپ کی میت کو گھر سے نکلنے نہ دینے کی دہائی دے رہا ہوگا، کوئی آپ کے ساتھ مرنے کی تمنا کر رہا ہوگا، کوئی ہمیشہ کے لیے جدا ہونے کو یاد کر کے بلک رہا ہوگا، کہیں سسکیاں اور کہیں آہ و فغاں کے میلے سجے ہوں گے، کوئی چلا رہا ہوگا، کوئی غم کی زندہ لاش بن کے دیواروں سے چمٹ رہا ہوگا۔ آہ وفغاں کے اس ہنگام سے اپنے بیٹوں، دوست احباب، منصب داروں، ملازموں، وزیروں اور مشیروں کے کاندھے پہ سوار ہو کے جنازگاہ کی طرف رواں دواں ہوں گے۔ میری طرف آنے والے ہر راستے پر لوگوں کا اک ہجوم ہوگا۔ اور حیران و پریشان آپ کا جسد خاکی یہ سارا منظر دیکھ رہا ہوگا۔

آپکا دل تو چاہے گا کہ کوئی تو ہو جو رگوں میں اترتی اس اذیت سے آپ کی جان چھڑا دے۔ مریم کو آواز تو دے رہے ہوں گے مگر وہ غم و یاس میں ڈوبی پگلی کب یہ سن پائے گی۔ بیگم کلثوم نواز کے گالوں کے موتی آپ کو بےچین تو کریں گے مگر اب آپ ان کو پونچھ نہ سکیں گے۔ جھوٹے درد میں ڈوبے بہت سے اپنے ظاہری غم و حزن کا ڈھونگ رچا رہے ہوں گے مگر ذہنوں اور دماغوں میں اقتدار کی منتقلی کے نت نئے منصوبے بن رہے ہوں گے۔ یہ سب آپ سن اور محسوس کر رہے ہوں گے مگر یہ کیا کہ آج آپ ایک دم سے اتنے بےاختیار ہو گئے کہ کسی کے آنسو پونچھنا تو درکنار آپ تو اپنا ہاتھ بھی نہیں ہلا سکتے ہوں گے۔

جب محل کو آخری نظر دیکھیں گے تو کلیجہ منہ کو آجائے گا۔ وہ خواب گاہ کی چہ مگوئیاں وہ ناشتے وہ حلوے مانڈے، وہ مالی بابا سے پیار سے ملنا، وہ پودے وہ درخت، جو آپ کے سامنے پلے بڑھے، وہ ڈرائنگ روم اور اس کا فرنیچر جہاں کئی ملکوں کے فرماں رواں آپ کے ساتھ بیٹھ کے چائے کی چسکیاں لیتے رہے۔ وہ مہمان خانے، وہ قیمتی اشیاء، وہ گھڑیاں، وہ مہنگےسوٹ اور ٹائیاں، غرض ہر وہ چیز جو بڑے شوق اور بڑے چاؤ سے خریدی تھی، اب آپ کی نہیں رہی ہوگی۔ حسرت ویاس کے ان تمام مناظر سے اپنی روح کی آنکھوں کو تر کرتے آپ جنازگاہ پہنچ جائیں گے۔ ملک کے بڑے سے پیٹ والے ملا سے اپنی نماز جنازہ پڑھانے کے بعد کلمہ شہادت کی گونج میں آپ میرے مہمان بنیں گے۔ اس وقت آپ آخری بار آسمان کو دیکھ رہے ہوں گے۔ میرا خوف آپ کا جسم تو ٹھنڈا کر چکا ہوگا مگر اب زمین کی نمی اور تنگ و تاریک اور ہمیشہ کی سیاہ رات آپ کا مقدر بن چکی ہوگی۔

میاں صاحب! اس کے آگے کا احوال میں آپ کو نہیں بتاؤں گی کیونکہ ابھی آپ کے پاس وقت کا خنجر موجود ہے جو آپ میرے سینے میں پیوست کر کے مجھ سے کچھ دیر کے لیے دور ہو سکتے ہیں، مگر جو بتا کے جا رہی ہوں، وہ ایک اٹل حقیقت ہے، اور ہو کے رہنی ہے۔

ہاں! آپ نےاپنی زندگی میں ایک نیک کام کیا ہوا ہے، جس کے بدلے میں آپ کو ایک گر کی بات بتا کے جا رہی ہوں کہ ”شاید تیرے دل میں اتر جائے میری بات“، وہ یہ کہ ایک تجربہ کر لیں۔ اپنے گھر کے سب سے بڑے کمرے میں دنیا کی ہر آسائش اپنے پاس رکھ لیں، اور صرف اندھیرا کر لیں۔ ٹٹول ٹٹول کے ہر چیز کھائیں پئیں، موج مستی کریں۔ صرف پابندی یہ ہوگی کہ اجالا ہوگا نہ آپ باہر جا سکیں گے، اور نہ کوئی اندر آسکے گا۔ تصور کی آنکھ دوڑا کر دیکھ لیں کہ تصویر کیا بنے گی، اور کتنے دن تک اس کو جھیل پائیں گے، بالکل اسی طرح اگر اللہ پاک کی ذات آپ کو کوئی سزا نہ دے اور میرے پاس اس اندھیر نگری میں صرف آپ کو زندہ ہی کر دے تو کیا ہوگا۔

آپ کے پاس کافی ٹائم ہے۔ ایسے مال کی محبت کو دل سے نکال پھینکیں جو آپ کا نہیں ہونے والا، اور نہ آپ کو کوئی فائدہ دے گا۔ اس جہان کے مالک نے آ پکو ایک بڑی اور طاقتور سلطنت کا مالک و مختار بنایا ہے، اس کو جنت بنانے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھیں۔ مسلم امہ کے لیے کوئی بڑا سا کام کر کے فخر سے میری طرف کا سفر فرمائیں، میں آپ سے وعدہ کرتی ہوں کہ آگے بڑھ کے آپ کا خوش دلی استقبال کروں گی، اور تا قیامت روشن اور پر نور رہوں گی، اور جنت کے باغ کی ایک کھڑکی بھی آپ پر وا کر دوں گی۔

آپ کی منتظر

آپ کی قبر

(بشکریہ روشن نیوز)