ٹرمپ، پانامہ،اسمبلی ہنگامہ۔۔۔اور جنرل راحیل

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع جنوری 29, 2017 | 07:16 صبح

صدر ٹرمپ بدستور عالمی اور مقامی سطح پر شدید تنقید کے تیروں کی زد میں ہیں۔ شاید اپنے دور اقتدار کے آخری روز تک رہیں، آخری روز چار سال بعد آنا ہے۔ تاہم کسی کی بھی زندگی کا سفر کسی بھی لمحے تمام ہو سکتا ہے۔ سانس جسم اور روح کے درمیان پھانس ہے۔ ٹرمپ جو کچھ کر رہے ہیں اسے کچھ لوگ پھانس کا بانس‘ یا رائی

کا پہاڑ بنا رہے ہیں۔ ٹرمپ کے صدارت میں آنے کے بعد کے اقدامات کسی کو پسند ہوں یا نہ ہوں مگر یہ وہی کچھ ہے جس کا انہوں نے اپنی انتخابی مہم میں اعلان کیا اور صدارت سنبھالتے ہی ان پر عمل شروع کر دیا۔ بیک جنبشِ قلم سارے سفیر تبدیل کر دئیے۔ میکسیکو کی سرحد پر دیوار بنانے کا حکم دے دیا اور کہا اس دیوار کے اخراجات میکسیکو ادا کریگا۔ میکسیکو چھوٹا سا ملک ہے مگر غیرت،قومی وقار اور جرأت اظہار کیلئے بڑا اورایٹم بم سے لیس ملک ہونا ضروری نہیں۔میکسیکوکے صدر اینرک پینانیٹونے اپنا دورہ امریکہ منسوخ اور دیوار کے اخراجات ادا کرنے سے انکار کردیا۔ٹرمپ نے اپنی پہلی تقریر میں مہذب دنیا کو اسلامی شدت پسندی کے خلاف متحد کرنے کا اعلان کیا تھا۔ کہاں کی مہذب دنیا؟ جو عراق اور افغانستان میں بچوں اور خواتین سمیت تیس لاکھ معصوم انسانوں کا خون پی چکی ہے۔ٹرمپ جو کچھ کہہ اور کر رہے ہیں وہ انوکھا اس لئے نظر آتا ہے کہ کبھی کسی امریکی صدر نے ایسا کیا نہیں مگر یہ امکانات اور توقعات کے عین مطابق ہے۔ وہ اس کا اعلان کر چکے تھے۔

جمہوریت ہمارے ہاں بھی ہے مگر کچھ انوکھی‘ نرالی اورلاابالی سی ۔ جو پارٹی اقتدار میں آتی ہے اس کا دو اڑھائی سال تو ہنی مون پیریڈ چلتا ہے۔ اس دوران پرانے انتخابی اخراجات پورے کرنے اور اگلے انتخابات کے لئے بندوبست کرنا ہوتا ہے۔مسلم لیگ نے حکومت میں آنے کے تیسرے روز بجٹ میں پٹرول بچانے کیلئے 12 سو سی سی ہائی برڈ گاڑیاں درآمد کرنے کا اعلان کیا‘ ایک بھی گاڑی اب تک بارہ سو سی سی ہائی برڈنظر نہیں آئی۔ البتہ پاکستان میں بہت ہی کم تعداد میں ساڑھے چھ سو سی سی ’’میرا‘‘ ہائی برڈ ضرورچل رہی ہیں۔کرپٹ لوگوں کے احتساب کا نعرہ لگایا گیا وہ پھوکا فائر ثابت ہوا جبکہ آج ن لیگ خود سب سے زیادہ احتساب کی زد میں ہے۔ پانامہ ہنگامہ زوروں پر ہے۔جماعت اسلامی کے وکیل کو سبکی اور مذاق کا سامنا کرنا پڑا۔ جماعت خیبر پی کے میں تحریک انصاف اور آزاد کشمیر میں ن لیگ کی اتحادی ہے‘ کیس میں درمیانی راستے پر چلتی دکھائی دیتی ہے ۔ کرپشن کے خلاف مہم میں یہ پی ٹی آئی کی اتحادی نہیں بنی،الگ سے کرپشن کے خاتمے کا ترانہ گنگنا رہی ہے۔ پانامہ کیس میں عدالتی کمشن کے لئے پورا زور لگادیا۔ پانامہ میں جس طرح نواز لیگ الجھی ہوئی ہے جوڈیشل کمشن بننے سے اس کی ٹنشن ختم ۔ جماعت کے وکیل کی کارکردگی ان کو دئیے گئے ’’مشن‘‘ کے مطابق مثالی ہے اور ا س سے بھی عمدہ کارکردگی ن لیگ کے وکلاء کی ہے جو کیس کو وزیراعظم نواز شریف کے بچوں کے گرد گھماکرنواز شریف کو بچاکر ایک طرف کرچکے ہیں۔پی ٹی آئی کو مریم‘ حسن اور حسین نواز کو سزاؤں اور کیپٹن صفدر کی نااہلیت سے غرض نہیں‘ وہ وزیراعظم نواز شریف کو ٹارگٹ کئے ہوئے تھی۔ تاہم ایک امکان ایک فیصد ہی سہی، وزیراعظم کے خلاف فیصلے کا موجود ہے۔ ایسا ہوا تو ن لیگ کی میڈیا ٹیم اور سیاپا بریگیڈ بنچ کے معزز جج حضرات کے سکینڈل سامنے لا سکتا ہے۔ ماڈل ٹاؤن سانحہ میں جج باقر نجفی‘ ایاز صادق نااہلی کیس میں جج کاظم ملک اور سانحہ کوئٹہ کمشن کے سربراہ جسٹس فائز عیسیٰ کو بدنام کیا گیا۔ ہمارے ہاں کی جمہوریت میں ایسا ہی ہوتا ہے اور بھی بہت کچھ ہوتا ہے جیسا قومی اسمبلی 26جنوری 2017 ء کو لڑائی مارکٹائی ہوئی‘ اسے بھی جمہوریت کا حسن کہا جائے گا۔ نواز لیگ اور پی ٹی آئی کے ممبران نے شاہ سے زیادہ شاہ سے وفاداری جتلانے کے لئے آستینیں چڑھائیں اور ایوان کو میدان جنگ بنا دیا۔ ہر دو پارٹیوں کے ’’موگیمبو‘‘ خوش ہوئے۔ ایسا کئی ملکوں کی جمہوریت میں ہو چکا ہے۔ مشرقی پاکستان اسمبلی میں ڈپٹی سپیکر شاہد علی کو اپوزیشن نے اجلاس کے دوران بدترین تشدد کا نشانہ بناکر مارڈالا تھا ۔مشرقی پاکستان اسمبلی 6 حکومتی ارکان کے پاس پر کشش سرکاری عہدے بھی تھے جس کے باعث سپیکر عبدالحکیم نے 21 ستمبر 1958 کورولنگ کے ذریعے ان ارکان کی رکنیت معطل کردی۔ جس پرحکومتی ارکان نے بے قابوہوکر پیپر ویٹ، پردوں کے ڈنڈوںسے ہلہ بول دیا،تھوڑی سی چھترول کے بعد سپیکر بھاگ نکلے جس کے بعد اجلاس چلانے کی ذمہ داری ڈپٹی سپیکر شاہد علی پٹواری نے سنبھالی۔ ڈپٹی سپیکر نے حکومتی ارکان کی معطلی ختم اور ان کی سپیکر عبدالحکیم کو پاگل قرار دینے کی قرارداد منظور کرلی۔اب مشتعل ہونے کی باری اپوزیشن کی تھی جو حکومتی ارکان کا ’’پھینکا ہوا سلحہ‘‘ اٹھا کر پٹواری پرپِل پڑے،دودن بعد شاہد علی پٹواری زخموں کی تاب نہ لاکر راہی ٔ ملکِ عدم ہوگئے۔جن کی’ آئی‘ شاہد علی کو آگئی وہ عبدالحکیم ابھی زندہ ہیں۔اس سانحہ کے ایک ماہ کے اندرصدر سکندر مرزا نے مارشل لاء نافذ کیا اور اگلے دس دن میں جنرل ایوب نے ٹیک اوور کرلیا۔اس کے بعد جرنیلوں کیلئے اقتدار میں آنے کے راستے کھل گئے۔پاکستان میں ’’کو‘‘ کرنے والے جرنیل تین چار رہے ہیں،اکثر نے جمہوریت کو سپورٹ کیا مگر فوج کو ایک طبقہ باقائدہ بدنام کرنے پر تلا ہوا ہے۔پاکستان میں جنرل راحیل نے اپنے تین سالہ آرمی سربراہ کے طور پر جمہوریت کو تو کچھ نہ کہا تاہم قومی غیرت اوروقار کیلئے معاملات اپنی مرضی سے چلاتے رہے۔ خارجہ پالیسی پر ان کی گرفت تھی۔ دہشتگردوں سے نجات دلائی اور کراچی میں بدمعاشوں اور بدقماشوں کا تعاقب کیا۔ وہ جمہوری دور میں غیر جمہوری رویوں پر کڑی نظر رکھے ہوئے اور ذمہ داروں کوغیر ذمہ داری پر گھورتے تھے۔ آصف زرداری نے تو اینٹ سے اینٹ بجانے کا بیان دیکر اپنا ابال نکالا اور راہ فرار اختیار کر لی جبکہ حکمران پارٹی نے کینے کا اُس وقت اظہار نہ ہونے دیا اور اب چھپانے کی ضرورت محسوس نہیں کررہے۔ 39 ملکی اسلامی فوجی سربراہی کا شوشہ چھوڑ کر جنرل کے خلاف بحث کے دروازے کھول دئیے۔ سینٹ میں رضا ربانی نے ایک مفروضے پر بحث چھیڑدی۔ خواجہ آصف فوج کیساتھ حساب چکتا کرنے کی شہرت رکھتے ہیں‘ سرتاج عزیز اور اسحاق ڈار نے بھی جنرل راحیل پر بحث کو فرض عین سمجھ لیا۔ اب قوانین کے تحت الاٹ کی گئی اراضی کو سکینڈل بنا کر پیش کیااور جنرل راحیل کو رگڑا دیا جا رہا ہے۔ ایک مخصوص سوچ اور نظریات کا حامل میڈیا گروپ جنرل راحیل کی تذلیل اور تضحیک کے لئے آگے آگے ہے مگر کس کے ایما پر؟ انہی کے ایما پر جو کہتے تھے غلیل کے ساتھ نہیں دلیل کے ساتھ ہیں۔ جنرل راحیل کو اللہ نے عزت و احترام دیا ہے۔ وہ پاکستانیوں کی اکثریت کے دل میں بستے ہیں۔ ڈیووس اکنامکس فورم گئے تو دنیا نے ایک ایک لفظ کوغورسے سنا جبکہ وزیراعظم کی تقریر کی نوبت ہی نہیں آئی۔لوگوں کے دلوں میں اپنے کام اور کارکردگی سے مقام بنایا جاتا ہے سازشوں اور دوسروںکی تضحیک وتذلیل کرکے نہیں۔یہ اصول پی ٹی آئی اور پی پی کے سیاپا بریگیڈز کو بھی یاد رکھنا چاہیے۔