ٹرافی ہنٹنگ تلور اور مارخور

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع فروری 01, 2018 | 09:12 صبح

پاکستان فلک بوس سرسبز پہاڑوں، برف زاروں، حسین وادیوں، لہلہاتی فصلوں کے میدانوں، زندگی کا سامان لئے ہوئے صحرائوں اور ریگزاروں کی سرزمین ہے۔ اللہ نے اس دھرتی کو چار موسموں سے مزین کیا ہے۔ اللہ نے سرزمین پاک کی خوبصورتی کو جانوروں اور پرندوں سے دوچند کر دیا۔ 

پاکستان فطرت کا حسیں شاہکار ہ

ے، اسے جنت نظیر ہونا چاہئے تھا۔ اگر نہیں ہو سکا تو اس کا خالق کائنات نہیں ہم خود قصوروار ہیں۔ انسان، انسان کا خون بہا رہا ہے معطر فضائوں میں بارود کی بُو رچ بس گئی۔ جانوروں اور پرندوں کو لذت کام و دہن کے لئے ذبح کیا جا رہا ہے۔ کچھ لوگوں نے جانور کشی کو کاروبار بنا لیا۔ ملکوں ملکوں سے بڑے لوگ، بادشاہ اور شہزادے شوقِ شکار کے لئے پاکستان آتے ہیں۔ مقامی شکاری اور شکار کے سہولت کار بھی وطن عزیز میں کچھ کم نہیں۔
شکاریوں نے پاکستان سے ایک بار تو کئی جانوروں کی نسل ہی تقریباً ختم کر دی، ان میں چولستان میں پائے جانے والے ہرن، شمالی علاقہ جات میں پایا جانے والا پاکستان کا قومی جانور مار خور سرفہرست جبکہ کسی حد تک مہمان اور خوبصورت پرندہ تلور شامل ہے۔ پاکستان سے کالے ہرن کا صد فیصد خاتمہ ہو گیا تھا۔ 60 کی دہائی میں پاکستان کی طرف سے ایوب خان نے امریکی صدر کو چند کالے ہرن تحفہ میں دئیے۔ پاکستان سے اس کی نسل ناپید ہوئی تو امریکہ سے درخواست کرکے ایک جوڑا منگوایا گیا۔ 20 پچیس سال میں اب اسی علاقے چولستان میں کالے ہرن کی تعداد ہزاروں ہو گئی ہے جہاں پر بے رحمی سے شکار ہو کر ختم ہو گیا تھا۔ سائبریا سے ہزاروں کی تعداد میں پرندے پخ بستہ سردیوں میں نسبتاً کم سرد علاقوں میں آتے ہیں ان میں سے وہی واپس جا پاتے ہیں جو شکاریوں کی بھینٹ چڑھنے سے بچ رہتے ہیں۔ نسلیں ان جانوروں اور پرندوں کی ناپید ہوتی ہیں جن کے شکار اور افزائش میں توازن برقرار نہ رہے ورنہ تو دنیا میں روزانہ لاکھوں کی تعداد میں بکرے بکریاں، گائیاں، مرغیاں ذبح ہوتی ہیں مگر ان کی افزائش ساتھ ساتھ ہوتی رہتی ہے۔ 
ہمارے ہاں مارخور، ہرنوں اور تلور جیسے جانوروں کا شکار بڑی بے دردی سے کیا گیا۔ مقامی لوگ تھوڑے سے لالچ میں شکاریوں کی معاونت کرتے رہے ہیں۔ ایک مار خور مارا گیا تو شکاری نے سہولت کار کو دس ہزار انعام دے دیا۔ تلور کا شکار کرنے والے نے یہاں تک لانے والے کو خوش کر دیا۔ علاقے کے بڑے لوگ سرکاری افسران بھی خدمت گزاری کرتے رہے ہیں۔ ناپید ہوتی جانوروں کی نسلوں کو بچانے کے لئے 1990ء میں پاکستان نے ہنٹنگ ٹرافی پروگرام شروع کیا جس کے مثبت نتائج سامنے آئے ورنہ تو پاکستان میں کوئی مارخور نظر آتا نہ تلور پاکستان میں کہیں دکھائی دیتے اور ہرن تو پہلے ہی ختم ہو گئے تھے۔ 
رواں ’’شکاری‘‘ سال مار خور کی ہنٹنگ ٹرافی میں قومی خزانے میں کروڑ روپے جمع ہوئے۔ کئی سال سے مارخور کے شکار کا لائسنس ایک لاکھ ڈالر میں دیا جا رہا ہے۔ عموماً غیر ملکی اتنے مہنگے شکار کا شوق پالتے ہیں۔ ایک ٹیم باقاعدہ مارخور کی نشاندہی کرتی ہے۔ شکار ہونے والے مارخور کا نر اور ادھیڑ عمر ہونا ضروری ہے۔ باقی مار خوروں کو خوف و ہراس سے بچانے کے لئے اسے الگ کر لیا جاتا ہے۔ شکاری حضرات اس کی کھال اور سینگوں کو اپنے ڈرائنگ روم میں سجاتے اور دوستوں کو قابلِ فخر کارنامے سناتے ہیں۔ ہنٹنگ ٹرافی کی 80 فیصد رقم مقامی لوگوں کی صحت و تعلیم اور فلاح و بہبود کے منصوبوں پر خرچ کی جاتی ہے۔ 
محکمہ جنگلات نے مارخور کا غیر قانونی شکار روکنے کے لئے بڑی پلاننگ کی۔ ڈھیر سارے اخراجات کئے۔ جیپوں، گاڑیوں سمیت عملہ تعینات کیا مگر شکاری اپنے سہولت کاروں کے ذریعے من مانی کر گزرتے تھے۔ جب سے ہنٹنگ ٹرافی کی رقم مقامی لوگوں کی آسانی اور ریلیف کے لئے استعمال ہونا شروع ہوئی، لوگوں کو روزگار ملنے لگا ہے۔ یہ لوگ مارخور کے سب سے بڑے محافظ بن گئے۔ اب کسی مقامی بڑے شخص، افسر یا دہاڑی دار کسی کے لئے سہولت کار بنتا ہے تو لوگ اس کے راستے میں حائل ہو جاتے ہیں۔ 
ہنٹنگ ٹرافی رشوت میں بدنام محکموں میں بھی بہترین نتائج دے سکتی ہے۔ ایسے محکموں میں ایماندار افسر ساتھیوں کو بھی سمجھانے سے قاصر رہتے ہیں۔ رشوت کچھ کی عادت بن چکی ہے اور کچھ نہ چاہتے ہوئے بھی اس راہ پر چل نکلتے ہیں۔ ایک محکمہ دو ارب روپے سالانہ قومی خزانے میں جمع کراتا ہے۔ حکومت تین ارب جمع کرانے پر ملازمین کے لئے 50 کروڑ بونس کا اعلان کر دے تو ہر ملازم اپنی آمدنی میں جائز اضافہ کے لئے دوسرے کو ڈنڈی نہیں مارنے دے گا۔ 
اب ایک نظر تلور کے شکار پر بھی مگر اس سے پہلے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے اور ساتھ ہی ہوبارہ فائونڈیشن انٹرنیشنل کی پریس ریلیز پر بھی ڈال لیں۔
لاہور ہائیکورٹ نے تلور اور نایاب مہمان پرندوں کے شکار پر پابندی لگاتے ہوئے شکار کو عدالتی کمیشن کی رپورٹ سے مشروط کر دیا۔ فاضل عدالت نے کہا کہ سروے مکمل ہونے تک کسی نے شکار کرنا ہے تو یورپ یا کسی اورملک چلا جائے۔ چیف جسٹس نے واضح کیا کہ تلور کے شکار کی اجازت عدالتی کمشن کی رپورٹ سے مشروط ہوگی۔ عدالت نے حکومت کو ہر سال تلور کی افزائش سے متعلق سروے کرانے کا حکم دیدیا۔ چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ کمشن دسمبر 2018ء میں تلور کی افزائش سے متعلق رپورٹ مرتب کرے اور سروے میں تلور کی افزائش مقررہ ہدف سے کم ہو تو شکار پر پابندی لگا دی جائے۔تلور کی افزائش مقررہ ہدف سے بڑھ گئی تو رپورٹ کی روشنی میں شکار کی اجازت دیدی جائے۔ یہ خبر 26جنوری کو شائع ہوئی جبکہ 14 جنوری 2018 کو ایک پریس ریلیز میں کہا گیا انٹرنیشنل فنڈ فار ہوبارہ کنزرویشن ابوظہبی اور ہوبارہ فاؤنڈیشن انٹرنیشنل پاکستان نے مشترکہ طور پر 150تلور صحرا چولستان میں آزاد کئے۔ ان کی ابوظہبی میں افزائش کی گئی تھی۔ ان میں سب سے بڑی تعداد مارچ 2015 میں 600 پرندوں کی تھی، فروری 2016 میں 200 پرندے اور مارچ 2017 میں 500 پرندے آزاد کئے گئے۔انٹرنیشنل فنڈ (آئی ایف ایچ سی) کی حالیہ رپورٹ کے مطابق اُن کے افزائشی پروگرام میں 59,000 تلور کی افزائش کی انقلابی کامیابی ہوئی ہے اور ہزاروں پرندے مختلف مقامات پر کئی ممالک بشمول پاکستان میں چھوڑے گئے۔ جب سے افزائشی پروگرام شروع کیا گیا، 206,000 تلور کی افزائش ہوچکی ہے جن میں سے 137,831 پرندے جنگل کی آزاد فضا میں رہا کیے جاچکے ہیں۔آئی ایف ایچ سی  اَب ہر سال 59,000 تلور پیدا کر رہا ہے۔ یہ باور کیا جاتا ہے کہ بہت سے پرندے پاکستانی علاقوں میں رہائش اختیار کرلیں گے۔ پاکستان میں عرب ممالک، ریاستوں کے حکمران شہزادے اور امبر لوگ تلور کے شکار کے لئے پاکستان کا رخ کرتے ہیں۔ تلور کی افزائش پر ابوظہبی کے حکمرانوں کی توجہ ہے۔ ابوظہبی کے پاکستان میں بے شمار فلاحی منصوبے روبہ عمل ہیں۔ ان میں ہسپتال، تعلیمی ادارے، روزگار سکیمیں، پسماندہ علاقوں کی بستیوں کو صاف پانی کی فراہمی، چولستان جہاں انسانوں کے پینے کا پانی ناپید ہے وہاں اونٹ جیسے جانوروں کو فراہمی کے لئے سینکڑوں میل پائپ لائن بچھائی گئی ہے۔ کچھ فلاحی منصوبے دبئی والوں کے بھی ہیں۔ ابوظہبی والوں نے بہاولپور کے قریب لال سہانڑہ رینج میں کالے ہرن کی افزائش کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ چنکارہ ہرن کے لئے رحیم یار خان میں 50 ہزار ایکڑ پر مشتمل ایریا کو باڑ کے ذریعے کور کرکے ہرنوں کی افزائش کے لئے مطلوبہ ماحول فراہم کیا گیا ہے۔ یہ منصوبے گزشتہ سال خود وہاں جا کے دیکھے تھے۔مقامی لوگوں کو ان منصوبوں میں ہزاروں کی تعداد میں روزگار فراہم کیا گیا۔ یہ لوگ اب کسی بھی باقاعدہ محکمے اور ادارے سے بڑھ کر ہرنوں اور تلور کا تحفظ کرتے ہیں۔ تلور سمیت کوئی بھی جانور اگر شکار کی وجہ سے ناپید ہوتا ہے، اس کی نسل کے خاتمے کا اندیشہ ہے تو اس کی کسی کو بھی قطعی اجازت نہیں ہونی چاہئے۔ ابوظہبی اور دبئی کے شاہ اور شہزادے پاکستان کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ عوامی فلاح کے اربوں ڈالر کے منصوبے مکمل کئے اور کئی زیر تکمیل ہیں جبکہ قطر کے شہزادے صرف ’’خط‘‘ پر مراعات حاصل کرتے ہیں دیگر عرب ممالک کے شہزادوں کو بھی صرف شکار سے دلچسپی ہے۔
پاکستان سے ترقی، فلاحی اور خوشحالی کے منصوبے بھارت اپنے ہاں منتقل کرانا چاہتا ہے، جس کی اس نے شیخ زید بن سلطان النہیان کو باقاعدہ پیشکش بھی کی مگر وہ پاکستان کو اپنا وطن کہتے تھے۔ اس پر بھارت نے مایوس ہو کر اپنے گماشتوں کی خدمات حاصل کیں جو عدالتوں کے ذریعے تلور کے شکار پر مستقل پابندی لگوانے کے لئے کوشاں ہیں بھارت کا پیسہ جہاں پہنچتا ہے وہاں بولتا ہے۔