شبِ غم

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع دسمبر 20, 2017 | 15:01 شام

شہنشاہ ایران محمد رضا شاہ پہلوی کا اقتدار سوا نیزے پر تھا۔ اسکے ولی عہد بیٹے رضا پہلوی نے برطانیہ کے دورے پر بکنگھم پیلس میں ٹھہرنے کی خواہش کا اظہار بہ اصرارکیا۔ شاہی روایات،قانون اورپروٹوکول کے مطابق برطانوی شاہی خاندان کے سوا کسی کو شاہی محل میں ٹھہرنے کی اجازت نہیں مگر اُس دور میں ایران جیسی بادش

اہت کو ناراض بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اس کا حل یہ نکالا گیا کہ ملکۂ برطانیہ نے ایران کے ولی عہد کو اپنا منہ بولا بیٹا بنایا جس سے اسے شاہی محل میں ٹھہرنے کی اجازت مل گئی۔ گردش زمانہ اور بے رحمی ٔ افلاک ملاحظہ فرمایئے، شہنشاہ ایران تخت نشینی سے خاک نشین ہوا تو دنیا نے آنکھیں پھیر لیں۔ اسکے جہاز کا رخ برطانیہ عظمیٰ کی طرف ہوا، اسی برطانیہ کی طرف جس شہنشاہ کے ولی عہد بیٹے کے نخرے اٹھانے کیلئے اسے اپنا بیٹا بنا لیا تھا اسی حکومت نے شہنشاہ کا جہاز اپنی سرزمین پر اترنے کی اجازت نہ دی۔ اس کہانی کوسرِ دست یہیں چھوڑتے ہیں۔

اُس دور میں دنیا کی چار طاقتور ترین‘ خوبصورت اور اثر و رسوخ رکھنے والی بیگمات کی بڑی دوستی اور شہرت تھی۔ ان چار کی مختلف ممالک میں محفلیں سجتیں اور ہر چار ایک سے بڑھ کر شمع محفل ہوا کرتی تھی۔ شہنشاہ ایران کی ملکہ فرح دیبا‘ مصر کے صدر انورسادات کی بیگم جیہان سادات‘ پرنس علی خان کی زوجہ یاسمین اور کینیڈا کے وزیراعظم پیئر ٹروڈو کی وائف مارگریٹ ٹروڈو اپنے شوہروں کے اقتدار اور امارت کے بل بوتے پر طاقت کی علامت سمجھی جاتیںاور معاملات پر کنٹرول رکھتی تھیں۔ اس دور میں جانے کیلئے محض مارگریٹ ٹروڈو کی شخصیت کی تھوڑی سی نقاب کشائی کر لیتے ہیں۔

دہائی 70ء کی تھی، کینیڈا اپنے ایک جواں عزم، متحرک، فعال وزیراعظم پئیرایلیٹ ٹروڈو کی وجہ سے خبروں میں رہتا تھا۔ اپنے ملک کیلئے وہ بہت کام کررہے تھے۔ بڑی تبدیلیاں آرہی تھیں۔ شہریوں کی تعلیم، صحت، انشورنس کیلئے بہت سی سہولتیں دی گئیں۔51سالہ کنوارے وزیراعظم ایک 22سالہ دوشیزہ مارگریٹ کی زلفوں کے اسیر ہوگئے۔ پھر صرف کینیڈا ہی نہیں امریکہ سمیت دنیا بھر کے اخبارات نے عمر میں 29سالہ فرق رکھنے والے جوڑے کی تصویریں شائع کیں۔ کینیڈا والے خوش تھے کہ ان کا وزیر اعظم خوبصورت ہے۔ حس مزاح رکھتا ہے۔ حسن کا بھی قدردان ہے۔ ہماری خاتون اوّل حسین بھی ہے، جوان ہے، مصوری کا ذوق اور اداکاری کا شوق رکھتی ہے، لیکن یہ حسینہ عجیب فطرت تھی۔ اسے خاتون اول کی حیثیت سے پروٹوکول، پابندیاں، آداب پسند نہیں آئے۔ جھگڑا رہنے لگا۔ ٹروڈو نے 1968ء میں وزارت عظمیٰ سنبھالی ۔ مارچ 1971ء میں شادی ہوئی۔کینیڈا کے آج کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو اس خوبصورت عالمی اہمیت کے جوڑے کے پہلے صاحبزادے 25دسمبر 1971ء کو پیدا ہوئے۔ مارگریٹ ایک بے چین روح تھی۔ شوہر سے اختلافات کی خبریں آتی رہیں ۔ لوگ اونچے ایوانوں میں آنے کیلئے کیا کچھ نہیں کرتے۔ وہ اونچے ایوانوں سے نکلنے کیلئے بے تاب رہنے لگی۔ بالآخر 1984ء میں باقاعدہ طلاق ہو گئی۔ مارگریٹ نے یہ سب کچھ اپنی کتاب میں لکھا ہے۔

وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو، بیگم نصرت بھٹو نے کینیڈا کا دورہ کیا تھا۔ اسکے حوالے سے مارگریٹ نے اپنی کتاب میں لکھا تھا کہ سرکاری ضیافت میں پھانسی کی سزا گفتگو کا موضوع تھا۔ وزیر اعظم بھٹو ’سزائے موت‘ کی مخالفت کررہے تھے اور کتنے دکھ کی بات ہے کہ انکی زندگی کا انجام اسی سزا سے ہوا۔

پیئرایلیٹ ٹرڈو 2000ء میں چل بسے۔ ٹروڈو کی زندگی کی آخری شب مارگیٹ اپنے بیٹوں کے ہمراہ سابق شوہر کے سرہانے موجود تھیں۔ اس وقت ان کا تاریخی جملہ کینیڈا والے یاد کرتے ہیں: ’’صرف اس لئے کہ شادی کا بندھن ٹوٹ گیا،اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ پیار بھی ختم گیا۔ ‘‘ مارگیٹ ٹروڈو چار کتابوں کی مصنفہ ہیں۔

مارگریٹ اپنے سابق خاوند کی طبعی موت، پھر اپنے ایک صاحبزادے کی حادثاتی موت سے بہت دلبرداشتہ ہوئیں۔ کچھ عرصہ ماہرین نفسیات کے زیر علاج رہیں۔ تازہ کتاب میں ہسپتال کے دنوں کی روداد بھی درج کی ہے۔

اب عمروں کے تفاوت سے جنم لینے والی ایک اور حیران کن کہانی ملاحظہ کیجئے: سراغ رسانوں نے ایسا انکشاف کیاجسے انتہائی شرمناک الزام کہا جارہا ہے۔ وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کے والد پیئر ٹروڈو نے اپنی بیوی مارگریٹ کے ہمراہ کیوبا کے کئی دورے کیے۔ ان میں سے ایک دورے کے دوران مارگریٹ نے پیئر ٹروڈو سے بے وفائی کی اور فیدل کاسترو کے ساتھ تعلق استوار کیا، جس سے جسٹن ٹروڈو پیدا ہوئے۔ ان الزامات میں مزید کہا گیا ہے کہ پیئرٹروڈو اور مارگریٹ کی ازدواجی زندگی تلخیوں سے بھرپور تھی اور اسکی وجہ مارگریٹ کی بار بار کی بے وفائی تھی۔ امریکی سینیٹر ٹیڈ کینیڈی کے ساتھ بھی اس کا افیئر۔ راک بینڈ کے رونی ووڈ کے ساتھ بھی مارگریٹ کے تعلقات کی افواہیں گردش کرتی رہیں۔ انہی افواہوں کی وجہ سے پیئر اور مارگریٹ کی شادی ٹوٹ گئی۔الزامات لگانے والوں نے فیدل کاستروکی جوانی اورجسٹن کی حالیہ تصویریں بھی جاری کیں جن میں حیران کن مشابہت ہے،یہ ٹیکنالوجی کا بھی کمال ہوسکتا ہے،تاہم جسٹن نے ایک موقع پر کاسترو کی تعریفوں کے قلابے ملا دیئے تھے،اسے الزام کے اعتراف سے تعبیرکیا گیا۔

اب بات بھر و ہیں سے شروع کرتے ہیں۔ شہنشاہ ایران کو کہیں پناہ نہیں مل رہی تھی‘ برطانیہ نے جواب دے دیا۔ایسی در بدری دنیا کے مقتدر افراد اور دولت کے انبار لگانے والوں کیلئے عبرت کا سامان لئے ہوئے ہے۔ شہنشاہ ایران ’’محمدرضاشاہ پہلوی‘‘ کو سرطان کی جان لیوا بیماری لگ گئی تھی، اسی بیماری کے دوران اس کو ایران چھوڑ کر فرار ہونا پڑا۔ امریکہ نے ’’شہنشاہ ایران‘‘ کو ایک مختصر عرصہ سے زیادہ پناہ دینے سے انکار کر دیا۔ مصر اور مراکش نے پہلے ہی پناہ دینے معذرت کرلی تھی۔ میکسیکونے اگر چہ پناہ دے دی لیکن اس میں پروٹوکول نہیں تھا بلکہ عام سیاسی پناہ تھی،کچھ عرصہ تک وہ ’’بہاماز‘‘ میں بھی مقیم رہا،شہنشاہ کے پاس دولت تو بے بہا تھی،دنیا میں انکے اثاثوں کی مالیت دس ہزار ملین پائونڈ یعنی ڈیڑھ سو ارب ڈالر سے زیادہ تھی لیکن سکون نہیں تھا،اس نے لوٹی ہوئی دولت واپس کرکے ایران میں آنے کی درخواست کی لیکن انقلابی حکومت نے انکار کر دیا۔ اس موقع پر ملکہ فرح دیبا جو اوجِ ثریا سے زمین پر آ کر ذلت کی پستیوں میں گر چکی تھی‘ نے جیہان سادات سے رابطہ کرکے بُرے وقت میں اچھے وقتوں کی دوستی کے نام پر مدد کی درخواست کی۔ جیہان نے اپنے خاوند سے بات کی۔ جیہان کا مصر کے سیاسی معاملات میں گہرا اثر تھا۔ اتفاقاً عین اس موقع پر شہنشاہ کا صدر انور سادات کو خط ملا جس میں اس نے کہا ’’میں دنیا کا سب سے بڑا بدنصیب اور بھکاری ہوں۔ خدا کے واسطے مجھے مصر میں آنے دو اور میری پہلی بیوی شہزادی فوزیہ کے وطن میں دفن ہونے دو‘‘ اس خط کو پڑ ھ کر ’’صدر انور سادات‘‘ کی آنکھوں میں آنسو آگئے، اس نے یہ درخواست قبول کر لی۔ مصری عوام اس کیخلاف تھے۔ انہوں نے احتجاج شروع کر دئیے۔ مصری صدر نے اس کا حل یہ نکالا کہ اس نے اپنی بیٹی کی شادی’’رضا شاہ پہلوی‘‘ کے بڑے بیٹے محمد رضا پہلوی سے کر دی پھر ’’سمدھی ‘‘ہونے کے ناطے اس کو ’’شہنشاہ ایران ‘‘کے مصر میں آنے کا جواز مل گیا۔یہاں ناموں کی تھوڑی سی وضاحت ضروری ہے۔شہنشاہ ایران کانام محمد رضا شاہ پہلوی،باپ کا نام رضا شاہ پہلوی اور ولی عہد کانام رضا شاہ تھا۔