دہشتگردی،پی ایس ایل۔۔۔قدم بڑھاؤ نجم یار

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع فروری 20, 2017 | 10:01 صبح

 

جنرل راحیل شریف کو آرمی چیف بنایا گیا تو حالات وہی تھے جو آج ہیں۔ دہشتگردی کے پے در پے واقعات ہو رہے تھے۔ پیپلز پارٹی نے سوات آپریشن کرکے شدت پسندوں کو اپنا دشمن بنا لیا تھا۔ 2013ء کے انتخابات میں انہوں نے پیپلز پارٹی کو انتخابی مہم سے آؤٹ کئے رکھا۔ بے نظیر بھٹو کی موت کا صدمہ اوراپنی جان کا خوف پیپلز پارٹی کی قیادت کو دُبکے رہنے پر قائل اور مائل کر گیا۔ مسلم لیگ ن کی حکومت نے شدت پسندوں کے ساتھ مذاکرات کو دہشتگردی کے خاتمے کی کلید سمجھ لیا۔ مذاکرات اور دہشتگردی کی کارروائیاں س

اتھ ساتھ چل رہی تھیں۔ مذاکرات ہی کے دوران 23 فوجیوں کے سر کاٹے گئے۔ اسلام آباد کچہری میں حملے اور فائرنگ میں جج وکلا اور سائلوں کو نشانہ بنایا گیا۔ میجر جنرل ثناء اللہ نیازی کو بارودی سرنگ دھماکے میں اڑا دیا گیا۔کراچی ائرپورٹ پر اٹیک کے بعد جنرل راحیل شریف نے آپریشن ضرب عضب شروع کرکے حکومت کو اطلاع دی‘ جسے حکومت نے ’’اون‘‘ کر لیا۔ آپریشن ضرب عضب میں زبردست کامیابیاں حاصل کی گئیں۔ اسکے چند ماہ بعد اور چند روز قبل تک وزیر داخلہ دیگر وزرا اور لیگی حلقے یہ کہتے تھے کہ ’’ہم اقتدار میں آئے تو روزانہ کی بنیاد پر دھماکے ہوتے تھے اب کئی کئی دن نہیں ہوتے۔‘‘

آج پھر حالات وہی ہیں جو آپریشن ضرب عضب کے آغاز پر تھے۔ لاہور میں دہشتگردوں نے بھیانک کارروائی کی۔ وزیرستان پشاور‘ کوئٹہ،آواران، ڈی جی خان میں حملوں کے بعد کل لال شہباز شریف قلندر کے مزار کو اڑا دیاگیا۔ فوجی اور عسکری قیادت کہتی ہے،یہ دہشتگردوں کیخلاف کارروائیوں کا ردعمل ہے۔ کچھ حلقوں کے خیال میں آج فوجی و عسکری قیادت میں دہشتگردی کیخلاف اس عزم اورارادے کا فقدان ہے جو نئی عسکری سے قبل تھا۔ جنرل قمر باجوہ نے کہا ’’دشمن ایجنسیاں علاقائی امن سے کھیلنا بند کر دیں‘ قوم پرسکون رہے‘ دہشتگردوں سے فوری انتقام لیں گے۔‘‘؎

اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا

جنرل صاحب نے دشمن ایجنسیوں کو وارننگ دی گویا انہوں نے اس پر عمل کر دیا۔قوم کے جگرودل دہشتگردی کی پے در پے وارداتوں سے چھلنی ہیں،اسے سکون کرنے کا مشورہ ؟ جنرل صاحب! حکمرانوں کی طرح محض لفاظی اور بیانات کی ضرورت نہیں ‘ ایکشن سے پتہ چلنا چاہیے۔آج ضرب عضب کی کامیابیاں ریورس ہو رہی ہیں۔لوگ جنرل راحیل کو یاد کر تے ہیں۔ لال شہباز قلندر مزار پر حملے کے بعد افغان بارڈر سیل کر دیا گیا اسکے مثبت نتائج ہونگے مگر دہشتگردی کا خاتمہ نہیں ہو گا۔ سپورٹر سہولت کار یہیں پر ہیں۔ ان پر ہاتھ ڈالنے سے گریز کیا جاتا رہا ہے ۔گریز پالیسی، ختم نہ ہوئی تو دہشتگردی کا خاتمہ کبھی نہیں ہو سکتا‘ کبھی بھی نہیں! لوگ کٹتے رہیں گے‘ مرتے رہیں گے۔ دہشتگردی کا خاتمہ کرنا ہے تو مصلحتوں سے بالا ہونا ہو گا۔سپہ سالار کو جنرل راحیل جیسا بننا ہو گا یا پھر حکومت مولانا فضل الرحمن‘ مولانا سمیع الحق‘ مولانا عبدالعزیز یا سید منور حسن کے سپرد کر دیں۔

لاہور میں قیامت صغریٰ کے موقع رانا ثناء اللہ خان نے کہا تھا ، دھماکہ پی ایس ایل کے لاہور میں فائنل کو رکوانے کیلئے بھارت نے کرایا۔ غیر ملکی ٹیمیں پاکستان آنے سے کتراتی، بلکہ انکاری ہیں۔ آج ملک ایک بار پھر دہشتگردی کی بری طرح لپیٹ میں ہے۔ ایسے میں پی ایس ایل میں غیر ملکی کھلاڑی پاکستان آنے سے خوفزدہ ہو سکتے ہیں۔دشمن نے ہمارے سٹیڈیم بے رونق کر دئیے۔ ان کو آباد کرنے کیلئے ہم نے بطور قوم کسی بھی حد تک جانے کو تیار رہنا ہو گا۔ نجم سیٹھی نے کہا ہے قوم ہمیں مشورہ دے کہ کیا کریں۔ قوم میں ہر طرح کے لوگ شامل ہیں۔ میری جہاں تک اپروچ اور رسائی ہے کسی ایک شخص نے بھی دہشتگردوں کے خوف سے دُبک اور چھپ جانے کی بات نہیں کی۔ ہر کوئی کہہ رہا ہے لاہور میں فائنل ہر صورت کرایا جائے۔ جنرل باجوہ نے ممکنہ حد تک سکیورٹی کی یقین دہانی کرائی ہے۔ میئر کراچی وسیم اختر کی سیاست سے اتفاق نہیں کیا جا سکتاتاہم انہوں نے جرأت مندانہ پیشکش کی۔’’ کراچی میں فائنل کرائیں‘ ہم سکیورٹی دینگے۔ کھیلوں کے میدان آباد کرنے کیلئے یہی جذبہ ہونا چاہئے۔ غیر ملکی کھلاڑی آجائیں تو ویلکم۔فائنل پانچ مارچ کی شام کو ہونا ہے۔ ٹیموں کوایئر پورٹ سے سٹیڈیم لا کر میچ کے بعد اسی سیکورٹی میں امارات کیلئے ایئر پورٹ پہنچا دیا جائے۔ اگر غیر ملکی کھلاڑی نہیں آتے تو پروا نہ کریں۔ ہر ٹیم میں پانچ پانچ غیر ملکی ہیں۔ فائنل میں دس کو پاکستان آنا ہے دس کے دس ’’ڈرو‘‘ نہیں ہونگے۔ نجم سیٹھی اور شہر یار قدم بڑھاؤ پی ایس ایل فائنل لاہور میں کرانے کیلئے قوم آپ کے ساتھ ہے۔

کرکٹ میں آج پھر جوئے کی بازگشت گونج رہی ہے۔ شرجیل اور خالد لطیف ان دی لائن آف فائر ہیں۔ شرجیل کے ایک سال میں دس کروڑ کے کنٹریکٹ تھے۔ وہ مجرم ثابت ہوتاہے ہیںیہ کنٹریکٹ ختم۔یہ شاید ایک گیند پرسال کی کمائی کمانے چلاتھا۔کرکٹ میں کتنا پیسہ ہے اس کا اندازہ پی ایس ایل کی نیلامی سے ہوسکتا ہے۔کرکٹ بورڈ نے دس سال کیلئے پانچ ٹیمیں 93 ملین ڈالر میں فروخت کیں۔ سب سے مہنگی ٹیم کراچی کنگز اے آر وائی نے 26 ملین ڈالر میں خریدی۔ لاہور قلندرز24 ملین ڈالر میں قطر آئل کمپنی نے حاصل کی۔ اس ٹیم کا میڈیا پارٹنر جیو گروپ ہے۔ پشاور زلمی کا خریدار ہائر گروپ، اس ٹیم کی قیمت 16 ملین ڈالر اور میڈیا پارٹنر جنگ گروپ ہے۔ اسلام آباد 15 ملین میں سنگاپور کے ادارے کی ملکیت ہے جس کا میڈیا پارٹنر دنیا گروپ ہے۔ کوئٹہ گلیڈی ایٹر سب سے سستے داموں11 ملین ڈالر میں نیلام ہوئی اسے عمر ایسوسی ایشن نے خریدا اس کا میڈیا پارٹنر پی ٹی وی ہے۔ کراچی کنگز نے گزشتہ روز تک پچھلے ایونٹ کو ملا کر 9 میچ کھیلے اور تین ہی جیت پائی ہے۔ تین میچ جیتنے کی بنا پر کراچی کنگز سیمی فائنل تک پہنچ گئی تھی۔ اب بھی مہنگی ترین ٹیم سب سے پیچھے اور سستی ترین کوئٹہ گلیڈی ایٹر نمبرون کی دوڑ میں شامل ہے۔

کرکٹ میں جوئے کی کہانی بڑی پرانی ہے۔ سلیم ملک پر پابندی لگی‘ وسیم اکرم پر بورڈکے عہدوں کے در بند کرنے کا جسٹس قیوم نے حکم دیا تھا۔ کرکٹ میں جوئے کا خاتمہ پہلا کیس سامنے آنے پر سخت فیصلہ لینے سے ہو سکتا تھا۔ ایسا ہوتا تو محمد آصف‘ سلمان اور محمد عامر کو جواریوں سے بات کرنے کی جرأت نہ ہوتی۔ عامر کو راندہ ٔدرگاہ رکھا جاتاتو آج کا ا سکینڈل کھڑا نہ ہوتا ،کھلاڑیوں کا مستقبل تاریک ہوتا اور نہ ہی پاکستان کی بدنامی ہوتی۔ کرکٹ اور ٹیم کو جوئے کی آفت اور عفریت سے محفوظ رکھنے کیلئے ضروری ہے کہ بورڈ اور حکومت زیرو ٹالرنس کا مظاہرہ کریں۔ ملزموں کو صفائی کا پورا موقع دیا جائے جرم ثابت ہونے پر انکے اوپر کرکٹ کے دروازے تا حیات بند کر دئیے جائیں۔ زندگی کے کسی بھی مرحلے پر اور حیثیت میں جو کھلاڑی اور عہدیدار جوئے میں ملوث رہا ہے اس لعنت کو کھیل سے دور رکھا جائے۔