کرنل امجد‘ ایم اے صوفی.... آسماں کیسے کیسے

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع جولائی 09, 2017 | 09:21 صبح

 

بیس جون کی شام ابھی شب میں ڈھل رہی تھی۔ سید مواحد حسین کا فون آیا۔ وہ نوائے وقت میں اشاعت کیلئے کالم بذریعہ ای میل بھجوا کر مجھے فون پر آگاہ کر دیتے ہیں۔ وہ منگل کو عموماً کالم ای میل کرتے ہیں جو جمعرات کو شائع ہوتا ہے۔ مواحد شاہ نوائے وقت کے واحد کالم نگار ہیں جن کا انگلش میں کالم اردو کالموں کےساتھ چھپتا ہے۔ میں کال سننے سے قبل نمبر دیکھ کر یہی سمجھا کہ وہ کالم کے حواے سے بات کرینگے مگر انہوں نے یہ کہتے ہوئے افسوسناک اطلاع دی کہ ”بڑے شاہ جی اب ہم میں نہیں رہے“۔ اس

کے ساتھ ہی انہوں نے اپنے والد محترم کرنل امجد حسین شاہ صاحب کے بارے میں نیوز میٹر بھی ای میل کر دیا جو میں نے نوائے وقت کے متعلقہ شعبوں کو فارورڈ کر دیا۔کرنل امجد حسین نے بھرپور زندگی گزاری۔ ان کی نوے سال سے زائد عمر میں بھی صحت قابلِ رشک تھی۔ ایک موقع پر ایوان کارکنان تحریک پاکستان میں مجید نظامی صاحب کےلئے کسی نے درازی عمر کی دعا کی تو نظامی صاحب نے کہا تھا کہ اللہ انہیں کرنل امجد حسین کی طرح صحت کے ساتھ زندگی عطا فرمائے۔

کرنل امجد حسین کی حمید نظامی مرحوم کے ساتھ گہری دوستی اور نظریہ پاکستان کے ساتھ اٹل وابستگی تھی سید امجد حسین شاہ 1942ءکو فوج میں بھرتی ہو کر ٹریننگ کیلئے چلے گئے تو حمید نظامی مرحوم نے ہفتہ بھر اپنے دوست کی جدائی میں ڈھنگ سے کھانا نہیں کھایا۔ یہ حقیقت حمید نظامی صاحب نے کرنل صاحب سے بیان کی جس کے راوی مواحد حسین شاہ ہیں۔

کرنل اکرام اللہ‘ امجد حسین کے ہم عصروں میں سے ہیں۔ ان کی بھی امجد شاہ کی طرح نظریہ پاکستان سے گہری وابستگی اور نظامی برادران سے اٹوٹ دوستی رہی۔ وہ کرنل امجد حسین صاحب کے بارے میں رقمطرازہیں۔

”1937ء میں جب قائد اعظم لاہور تشریف لائے تو نوجوان امجد حسین سید کی عمر 17 برس تھی انہوں نے بیرسٹر محمد علی جناح سے ملاقات کا ارادہ کیا‘ یہ ملاقات آسان نہ تھی اس کا ذکر انہوں نے مجھ سے کئی بار کیا اور برادرم ڈاکٹر محمد اجمل نیازی نے اپنی خوبصورت کتاب ”شناسان حمید نظامی سے ملاقاتیں“ کے صفحہ نمبر 62 اور 63 میں نہایت تفصیل سے بیان کیا ہے کہ کس طرح بیرسٹر محمد علی جناح کے پرسنل اسسٹنٹ مسٹر لوگو (Mr. LOGO)کے انکار کے باوجود نوجوان امجد حسین شاہ اپنے اصرار پر قائم رہا اور بالآخر قائد اعظم سے ملاقات میں اسی روز کامیابی حاصل کر لی۔

اسی ملاقات میں سید امجد حسین شاہ نے قائد اعظم سے درخواست کی کہ وہ اسلامیہ کالج لاہور کے طلباءسے خطاب فرمائیں جس پر بیرسٹر جناح نے پوچھا کہ کیا ان کے پاس کالج کے پرنسپل کی طرف سے ایسے دعوت نامہ کی کوئی اجازت یا اتھارٹی ہے اور جناح صاحب نے نوجوان امجد سید سے پرنسپل سے باضابطہ دعوت نامہ حاصل کرنے کا حکم دیکر فارغ کر دیا۔ جب کالج پہنچ کر پرنسپل سے اس بارے میں عرض کی تو پرنسپل ڈاکٹر بی اے قریشی نے پھیکا پھیکا جواب دیا کہ آپ لوگ کالج میں پڑھنے کیلئے آئے ہیں یا سیاست کرنے۔ اس وقت حمید نظامی بھی نوجوان امجد شاہ کے ساتھ تھے۔ دوسرے دن پرنسپل نے ان دونوں کو یہ کہہ کر کالج سے خارج کر دیا کہ یہ لڑکے کالج کے ماحول کو خراب کر رہے ہیں۔ اس پر مولانا عبد الستار خان نیازی کے مشورہ پر کالج کے لڑکوں نے 10 روز تک احتجاج کیا جس کے نتیجہ میں انجمن حمایت اسلام کی سفارش پر دوبارہ کالج میں داخلہ دیدیا گیا۔

اس سارے واقعہ کی خبر علامہ اقبال اور بیرسٹر محمد علی جناح تک بھی پہنچی اور پنجاب مسلم لیگ کے قائدین نے امجد حسین شاہ اور حمید نظامی کے ولولہ اور جذبہ کو بہت سراہا۔ اسکے نتیجہ میں امجد حسین سید اور حمید نظامی کو لکھنو¿ میں 1937ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں شرکت کی دعوت دی گئی اور ریلوے کے لاہور سے لکھنو¿ اور واپسی کے ٹکٹ بھی مہیا کئے گئے۔ لکھنو¿ پہنچنے پر آل انڈیا مسلم لیگ کے سیکرٹری جنرل نوابزادہ لیاقت علی خان نے پنجاب سے آئے ہو ئے ان دونوں نوجوان لڑکوں سے ملاقات کی اور اجلاس میں شرکت کی دعوت دی۔ اتنی چھوٹی عمر میں اتنی بڑی عزت بہت بڑے اعزاز کی بات ہے۔“

کرنل امجد حسین 20 جون کو خالق حقیقی سے جا ملے جبکہ ڈاکٹر ایم اے صوفی اس سے دس روز قبل دارِ فانی سے کوچ کر گئے تھے۔ جناب شاہد رشید بتا رہے تھے کہ صوفی ان کی قوم یا ذات نہیں بلکہ جوانی میں انہوں نے کبھی خشخشی داڑھی رکھی تھی۔ اس وجہ سے لوگ ان کو صوفی صاحب کہتے تھے جسے انہوں نے اپنے نام کا لاحقہ بنا لیا۔ ان کا اصل نام محمد اسلم تھا اور وہ ایم اے صوفی کے نام سے مشہور رہے۔

مجاہد حسین سید‘ سابق معاون خصوصی وزیراعلیٰ پنجاب، اٹارنی بار ایٹ لاءسپریم کورٹ واشنگٹن ڈی سی مواحد حسین شاہ‘ چیئرمین ڈیفنس کمیٹی اینڈ چیئرمین سی پیک پارلیمنٹری کمیٹی سینیٹر مشاہد حسین سید‘ کنٹری ڈائریکٹر ورلڈ بنک ٹو واشنگٹن ڈی سی تحسین سیدکرنل صاحب کے بیٹے ہیں۔احمر بلال صوفی اورعامرکمال صوفی،ایم اے صوفی کے فرزند ہیں۔یہ لوگ معاشرے میں اعلیٰ مقام رکھتے ہیں ان کی تعلیم کے ساتھ تربیت بھی ایسی ہوئی کہ یہ معاشرے کے کارآمد افراد ٹھہرے اور ملک وقوم کی نیک نامی کا باعث ہیں۔

مشاہد حسین نے پاکستان کی سیاست میں بھی بڑا نام کمایا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ میاں نوازشریف کو جرنیلوں کے کڑاکے نکالنے کے مشورے دیتے تھے مگر جرنیلوں نے میاں صاحب کا کڑاکا نکال دیا۔ میاں صاحب نے جس طرح مشرف کا کڑاکا نکالنے کی کوشش کی۔ ایسا مشورہ مشاہد حسین جیسا دانشور نہیں دے سکتا۔ یہ انکی اپنی خوابیدہ سوچ ہو سکتی ہے۔ مواحد حسین بھی صوبائی وزیر رہے مگر مواحد اور مشاہد کے دامن پر بے ضابطگی تک کا بھی کوئی داغ نہیں ہے۔ جبکہ پاکستان کی حکمران اشرافیہ شاید ہی کسی الزام سے مبرا ہو۔ آج پاناما پاناما ہو رہی ہے۔ کل پرسوں جے آئی ٹی اپنی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرا دیگی۔ اس رپورٹ کے تناظر میں جنازہ اٹھنا یقینی ہے۔ کرپشن کا جنازہ اٹھے گا یا انصاف کا۔ آج ہی میجر نذیر احمد فاروق بڑے میاں صاحب کے حوالے سے لکھی گئی کتاب ”غدار کون“ کے صفحہ 23 اور 24 پر درج واقعہ سنا رہے تھے۔ اس کا خلاصہ کچھ یوں ہے کہ ” ہم ابا جی کے ساتھ اتوار کے روز تینوں بھائی کھیلا کرتے تھے وہ چوّنی اور اٹھنی کا سکہ مٹھی میں بند کر لیتے‘ ہم باری باری مٹھی کھولنے کی کوشش میں پورا زور لگا دیتے تھے۔ میں عموماً کامیاب ہو جاتا۔ شاید وہ میری حوصلہ افزائی کیلئے مٹھی ذرا آسانی سے کھول دیتے تھے۔ یہ بڑا دلچسپ کھیل تھا شاید جس کیلئے آسانی سے مٹھی کھلتی تھی اس نے قومی خزانے کو بھی مٹھی سمجھ لیا۔