مس منٹ… مس مینجمنٹ

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع اکتوبر 22, 2017 | 18:52 شام

آج بھی دنیا کی سب سے بڑی بادشاہت برطانیہ عظمیٰ ہے۔ ملکہ الزبتھ اس حوالے سے دنیا کی سب سے بڑی ملکہ ہیں کینیڈا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ سمیت ملکہ الزبتھ کو 12ممالک اپنی ملکہ تسلیم کرتے ہیں۔ حیران کن امر یہ ہے کہ ملکہ برطانیہ کے دفتر میں ملازم خاص کو بلانے کیلئے بیل نہیں ہے، پھر وہ اپنے ملازم، ملازمہ یاچپڑاسی کو کسی بھی کام کے سلسلے میں کیسے طلب کرتی ہیں؟ دولت مشترکہ 16ممالک سمیت متعدد دیگر ممالک کی ملکہ اور برطانیہ جیسے ملک کے امور دیکھنے کیلئے ملکہ کو بار بار ملازمین کو طلب کرنے کی ضرورت ہوتی

ہے۔ ملکہ اپنے کام میں مصروف ہوتی ہیں۔ انکے آفس کے دروازے پر سمارٹ اور خاص لباس میں ملبوس لڑکی بیٹھی ہوتی ہے جو ہر تین منٹ بعد اپنی کرسی سے اٹھتی ہے ملکہ کے سامنے جا کھڑی ہوتی ہے کچھ بھی بولے بغیر تنے ہوئے جسم کے ساتھ اپنا سر تھوڑا سا خم کرتی ہے ،اس دوران ملکہ نے کچھ کہنا ہو تو کہہ دیتی ہیں ورنہ چند ثانیوں بعد دبے اور الٹے پائوں یہ لڑکی واپس آکر اپنی نشست پر بیٹھ جاتی ہے۔ اسے مس منٹ کہتے ہیں ۔

مس منٹ شاید ہی دنیا کے کسی آفس میں ہو البتہ منٹو اور گھنٹو ضرور ہوتے ہیں۔ بعض ’’ماڑی نیت‘‘ والوں نے ایک ہی شخص کا نام اس کے فرائض منصبی کے مطابق رکھا ہوتا ہے۔ یہ بادشاہوں کے آفس میں نہیں عموماً پبلک ڈیلنگ کے آفس میں ہوتے ہیں ۔کوئی مہمان آ گیا، صاحب اسے چائے وغیرہ پلانا چاہتا ہے تو بیل دیگا اور آنیوالے سے کہتا ہے۔ منٹو! صاحب کی کوئی خدمت تواضع کرو تو وہ منٹوں میں چائے وغیرہ لے آتا ہے۔ جسے ٹرخانا ہو تو بیل دے گا اور وہی ملازم حاضر ہو گا اسے کہے گا گھنٹو! صاحب کی خدمت تواضع کر و۔ یہ سن کر گھنٹو گیا تو گھنٹوں واپس نہیں آتا۔

ہم کبھی آبادی کے لحاظ سے مسلم دنیا کا سب سے بڑا ملک ہوا کرتے تھے مگر دو حصوں پر مشتمل ملک کو صرف بیس بائیس سال ہی ایک چھتری تلے رکھنے میں مینج کر سکے، مس مینجمنٹ کے باعث اور دشمن کی سازشوں کے سبب پاکستان ٹوٹ گیا۔ اس کے بعدجو پاکستان بچا اس کو مینج کرنے کی کوشش کی۔ نااہل قیادت اور کمزور دفاع کی وجہ سے پاکستان ٹوٹا تھا۔ دفاع کے حوالے سے تو ہم نے ایٹم بنا کر دفاع کو مضبوط کر لیا مگر اہل قیادت اور سٹیٹسمین شخصیت سامنے لانے کا کوئی فارمولا تیار نہ کر سکے۔ کئی دہائیوں سے بڑی اور چھوٹی برائی کے چکر میں سرگرداں ہیں۔ کل تک دوبرائیوں میں سے چھوٹی برائی کو قبول کرنے کا پرچار ہوتا تھا آج تین ’’برائیاں‘‘ سامنے ہیں۔ ان برائیوں کی گیٹگرائزیشن پر قوم متفق نہیں ہے تینوں برائیاں عوام کے اندر مقبولیت کی دعویداراور خود عوامی طاقت کا منبع قرار دیتی ہیں مگر اصل طاقت پاکستان میں فوج کو مانا جاتا ہے جس کا کوئی سر پھرا جرنیل کا اپنی قوت کا لوہا منوا لیتا ہے اور خود کو چھوٹی برائی سمجھنا تو دور کی بات تمام برائیوں سے مبرا اور اہلیت و قابلیت کا آسمان باور کراتا ہے حالانکہ اس کا پہلا قدم ہی جمہوریت پر شب خون اور ایک سسٹم کا قتل ہوتا ہے۔ وہ زمام اقتدار سنبھاتے ہی جو دعوے اور وعدے کرتا ہے ان کو کبھی مینج نہیں کر سکتا۔ اپنی مس مینجمنٹ کی وجہ سے رہ بھی جائے جلد ان لوگوں کے دل سے اتر جاتا ہے جنہوں نے اس کی آئین شکنی پر واہ واہ کیا ہوتا ہے۔ پاکستان آج بھی ایٹمی قوت ہونے کے حوالے سے دنیا میں جانا اور مسلم ممالک میں خصوصی طور پر مانا اور پہچانا جاتا ہے۔ پاکستان آج بھی اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی قوت ہے۔ کئی مسلم ممالک پاکستان کو اسلام کا قلعہ قرار دیتے ہیں جس پر ہمارا سر فخر سے بلند ہو جاتا ہے۔ جہاںبانی کا تصور اور تاثر پورے جسم میں شادمانی اور سرشاری کی لہر دوڑا دیتا ہے …؎

رہنے کو گھر نہیں سارا جہاں ہمارا

وسائل کو مینج نہیں کیا جاتا۔ ذاتی و قومی زندگی میں ادھار کو ترقی و خوشحالی کا پُر فریب زینہ سمجھ لیا ہے …؎

ادھار کی پیتے تھے مے اور کہتے تھے

رنگ دلانے کی ہماری فاقہ مستی ایک

فاقتہ مستی کبھی رنگ نہیں لا سکتی۔ پر نور زندگی کو بے رنگ اور بے ڈھنگ ضرور کر دیتی ہے۔ اور پھر مس مینجمنٹ اوپر سے نیچے تک اور کہیں نظر آتی ہے۔ اپنے مفادات کے لئے مس مینجمنٹ ہی گھر مینجمنٹ قرار دے لیتے ہیں

خود کو بدلتے نہیں قرآں کو بدل لیتے ہیں

ایک واقف کار نے جنرل سٹور خریدا پہلی ترجیح یقیناً کمائی ہے مگر پیسہ کو سب کچھ نہیں سمجھتے، خود بڑے انجینئر ہیں نیت تھی کہ چار پانچ لوگوں کا روزگار لگے گا اور اپنی حد تک عام آدمی تو چینی ممکن ہے بہتر خدمت دے سکیں اس کیلئے دالوں، گھی اور آٹے جیسی بنیادی ضروریات کی اشیاء نہ مارجن نہ ہونے کے برابر رکھا۔ سٹور نیا خریدا تھا قانون نافذ کرنیوالے اداروں کی قانونی منہ زوریوں سے واقفیت نہیں تھی ایک روز تھانیدار صاحب تشریف لائے انہوں نے کہا آپ کے خلاف دال مہنگی بیچنے کی ایف آئی آر ہے۔ دکان بند کریں اور تھانے چلیں نوجوان نے معاملے کی حقیقت جاننے کی کوشش کی۔ معلوم ہوا کہ دو روز قبل کسی محکمے کے اہلکار نے دال چنے کا ریٹ معلوم کیا، سٹور کے ملازم نے جو نرخ بتائے وہ سرکاری نرخنامے سے کم تھے اس پر اہلکار نے کہا کہ جو سب سے معیاری ہے کلو کی پیکنگ والی اس کی قیمت تو زیادہ ہونی ہی تھی۔ اہلکار نے ملازم کا نام پوچھا اور چالان کاٹ کر تھانے اطلاع دیدی۔ اہلکار نے ملازم سے دال کا ریٹ معلوم کرنے سے قبل کوڈ میں منتھلی کی بات کی تھی۔ اس کوڈ سے ملازم اور نئی انتظامیہ واقف نہ تھی۔ اب پولیس والا سامنے کھڑا تھا۔ اس نے خود ہی مشورہ دیا کہ پانچ ہزار دیں میں معاملہ سنبھال لوں گا۔ بات اڑھائی ہزار میں مک گئی مگر تیسرے روز اس تھانے سے اہلکار نے آکر بتایا کہ آپ دو روز تک تھانے نہیں آئے اس لئے کل ایف آئی آر کٹ گئی ہے۔ اب تھانے چلیں۔ ملازم اور مالک کو تھانے جانا پڑا۔ جاتے ہی منشی نے دو سو روپیہ طلب کیا۔ دوسرے تھانے لے جایا گیا جہاں سے کچہری جانا تھا۔ ڈیڑھ سو روپیہ جہاں دیا۔ اس تھانے میں کئی سوالات پر مبنی ایک فارم دیا گیا جس میں سونے کا دانت لگا‘ چاندی کا دانت ہے۔ بینائی درست ہے۔ لنگڑا پن تو نہیں جیسے سوالات تھے۔ اس کے بعد کچہری لے جایا گیا جہاں سے ضمانت ہونی تھی۔ اس روز کل ’’مجرم‘‘ 14 تھے۔ ہر ایک سے پانچ سو روپے فارم پُر کرنے‘ ہزار روپیہ وکیل کیلئے لیا گیا۔ عدالت کا منظر کچھ یوں تھا۔ اے ایس آئی وردی میں ملبوس‘ مجرم بغیر ہتھکڑیوں کے‘ کورٹ کے اہلکار نے ضمانت کے کاغذوں پر اکوپیڈ کا ٹھپہ لگا دیا۔ اس ٹھپہ لگوائی کے دو سو روپے ہدیہ تھا۔ وکیل صاحب کے بولنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ حج اللہ کا ایک صفاتی نام بھی ہے۔ جج صاحب کوئی مافوق الفطرت نظر آئے۔ انہیں تنگی ٔ وقت کا ادراک اور ملزموں کے قیمتی وقت کا احساس ہے۔ موبائل پر زبان اور ضمانت کے کے کاغذوں پر برق رفتاری سے حکم چل رہا ہے۔اچھا شادی پر اور کون آرہا ہے… ان مجرموں میں ایک کا جرم روٹی کے وزن میں کمی تھی۔ سرکاری طورپر وزن 110 گرام ہونا چاہئے۔ اس مجرم کی روٹی کا وزن 109 گرام تھا۔ دکانوں پر باٹ چیک کرنے والے آتے ہیں۔ ایل ڈی اے کا عملہ اپنا حصہ وصول کرتا ہے اور بھی کئی محکمے اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہیں۔ تفصیلات کسی بھی دکاندار سے مل سکتی ہیں۔ اے ایس آئی نے آخر میں سب کو باور کرایا کہ آپ میرے لئے معزز شہری ہیں۔ آپ کے ساتھ عزت و آبرو سے پیش آیا ہوں۔ عدالت میں ہتھکڑی لگا کر پیش کرنے کا حکم ہے۔ میں نے آپ کا احترام کیا۔ آخر میں عزت و احترام پانے پر پانچ سو مرشد چن ماہی کو بھی دینا پڑے۔ یہ سب کچھ یقینا ناپسندہ بلکہ بدبودار ہے مگر یہ ایک سلسلہ بن چکا ہے۔ چین بن گئی ہے جس میں کوئی بھی انپڑھ اور جاہل نہیں مگر کسی بھی طرح جیب گرم کرنے کا خبط ہے۔ بہرحال ان لوگوں کی شیطانی ہی سہی ذہانت عیول  ویسڈم  مسلمہ ہے جو ایک سلسلہ مینج کر لیا۔ بنیادی طورپر یہ سب ذاتی وسائل بڑھانے کیلئے ہی ہوتا ہے۔ ایسی کسی ٹیم کو وسائل دیکر سسٹم درست کرنے کیلئے خدمات حاصل کی جا سکتی ہیں مگر حکومتی کارسازوں کو تو وسائل کی کمی نہیں۔ ان کی جائز مراعات سے گھر بار چل سکتا ہے مگر پیٹ ہے کہ دولت جائیداد سے بھرتا ہی نہیں۔ ان کا پیٹ بھی کیا پیٹ ہے جو قبر کی مٹی سے ہی بھر سکے گا بشرطیکہ قبر میسر آئی۔

ملکی سطح پر وسائل کو مینج کر لیا جائے تو بلاشبہ ہم ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہو سکتے ہیں، مگر ہمارے حکومتی کار سازوں سے تو لوڈشیڈنگ مینج نہیں رہی ۔یہ بھی نیتوں پر منحصر ہے۔ اپنی جائیدادیں، آف شور کمپنیاں بیرون ممالک محلات، پلازے حتیٰ کہ اپنی ایئر لائنز تو مینج ہو سکتی ہیں۔ ملکی ادارے کیوں نہیں؟ یہ سب یہی لوگ کر دیں تو کیا کہنے ورنہ قوم سٹیٹسمین کی آمد کی خواہش کرنے میں حق بجانب کیوں نہیں ہوگی۔