ٹرمپ کارڈ" کے دنیا پر اثرات (حصہ اول)

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع جنوری 21, 2017 | 13:05 شام

تحریر: رائے صابر حسین

اپنی زندگیوں میں انقلاب لانے کا فارمولا خالق کائنات نے ہمیں بتا دیا ہے:"بے شک اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا، جب تک وہ خود اپنے آپ کو نہ بدل ڈالے"۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے متحدہ ریاست ہائے امریکہ کے پنتالیسویں صدر کی حیثیت سے عہدے کا حلف اٹھا لیا ہے اور اپنے پہلے ہی بیان میں اعلان کیا ہے کہ وہ "اسلامی دہشتگردی" کا نام و نشان مٹا دیں گے۔ اِس سے قبل انتخابی مہم کے دوران بھی وہ مسلمانوں،امریکہ میں تارکین وطن اور الومناتیز کیخلاف بھرپور اقدامات کی &

quot;نوید" سناتے رہے ہیں۔ پہلی بار کسی امریکی صدر کے حلف اٹھانے کے دن احتجاج کیا گیا۔ 
کیا ڈونلڈ ٹرمپ اپنے اعلانات پر عملدرآمد کو یقینی بنا سکیں گے؟کیا امریکہ میں تارکین وطن اور مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ ہو جائے گا؟ کہا جا رہا ہے کہ کٹر عیسائیوں نے انہیں جتوایا ہے تو کیا وہ الومینائی تنظیم کے پیروکاروں کیخلاف کارروائی کریں گے؟ بزنس مین ڈونلڈ ٹرمپ کے دور حکومت میں امریکی معیشت بہتر ہوگی یا مزید زوال پذیر؟ ڈونلڈ ٹرمپ پروفیشنل سیاستدان نہیں، اب امریکہ کی خارجہ پالیسی کیا ہو گی اور ٹرمپ کن امور پر اپنی توجہ زیادہ مرکوز کریں گے؟ کیا وہ امریکہ کیلئے گوربا چوف ثابت ہوں گے؟
ایسے ہی کتنے سوالات کے جوابات کی تلاش میں یونیفائیڈ میڈیا کلب نے لاہور ایوان صنعت و تجارت میں سیاستدان اور امریکہ میں سابق سفیر سیدہ عابدہ حسین کے ساتھ ایک نشست کا اہتمام کیا جس میں دنیا نیوز کے ایگزیکٹو گروپ ایڈیٹر سلمان غنی اور پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد بھی شریک مقررین تھے۔ ( بلاشبہ میڈیا کلب کے صدر محمد حسان اور اُن کی ٹیم بروقت اور اعلیٰ نشست کے انعقاد پر مبارکباد کی مستحق ہے)۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی شخصیت،عادات،بیانات اور متوقع اقدامات پر بہت سے تجزیہ کاروں نے روشنی ڈالی ہے، مگر ہم یہاں سیدہ عابدہ حسین جو کہ بہت منجھی ہوئی سیاستدان ہیں اور حالات حاضرہ پر گہری نظر رکھتی ہیں، کے احساسات کا ذکر کرتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں: ڈونلڈ ٹرمپ کی ترجیحات میں امریکی صورتحال غالب رہے گی، دنیا کے معاملات نہیں۔ امریکی صدر مضبوط ہیں لیکن اُنکے ادارے امریکی صدر سے کہیں زیادہ مضبوط ہیں۔ امریکہ میں اقلیتوں کے خلاف کسی بڑے کریک ڈاﺅن کا امکان نہیں۔ اِسی طرح اُن کے مواخذہ کا بھی امکان نہیں۔ سابق سفیر پاکستان کا کہنا تھا کہ ہمیں نئے امریکی صدر یا امریکہ سے تعلقات کے بجائے اپنی پالیسی یوریشیا میس (euro asia mass)کے پیش نظر بنانا چاہیے۔ہم ایران اور ترکی (سعودی عرب سے کیوں نہیں ؟) سے تعلقات استوار کر کے عالم اسلام میں طاقتور اور روس اور چین سے تعلقات مستحکم کر کے خطہ میں مضبوط ہو سکتے ہیں۔ آج کا روس افغانستان میں ہمارے کردار کو نظرانداز کرتے ہوئے سی پیک منصوبہ میں شمولیت چاہتا ہے، یہ بہت بڑی پیشرفت ہے۔ ہمیں امریکہ سے امداد نہیں،سرمایہ کاری میں مدد لینا چاہیے۔ امریکی صدر صرف تاریخ میں اپنا نام درج کرانے کیلئے پاکستان اور بھارت کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرنے پر تیار ہو سکتے ہیں۔

سلمان غنی نے کہا کہ پاکستان اب 71ء والا پاکستان نہیں، ہم نیوکلئیر پاور ہیں،ہمیں خودانحصاری کے تحت پالیسیاں تشکیل دینا ہوں گی۔ پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد نے بتایا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے برسراقتدار آنے  سے امریکی معیشت کو کوئی خطرہ نہیں، اندرونی طور پر امریکہ مضبوط ہوگا۔
تمام تجزیہ کار اور تبصرہ نگار اِس بات پر متفق ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت سے پوری دنیا پر نافذ امریکی تسلط کم ہو گا اور دنیا کو آزادی کا سانس لینا نصیب ہوگا۔ وطن عزیز کی سیاسی قیادت کیلئے یہ سنہری موقع ہے کہ وہ امریکی چنگل سے باہر نکل آئے۔ اللہ نے سی پیک پراجیکٹ کی صورت میں ہمیں سنبھلنے کا ایک اور موقع عطا فرمایا ہے، یقیناً رب العزت ہم سے مایوس نہیں۔
عالم اسلام کے تناظر میں پاکستان کو ثالثی کا کردار ادا کرنا چاہیے، فی الوقت ایسا ممکن نہ ہو تو کم از کم نیوٹرل ضرور رہیں۔ ہمارا شاندار ماضی اِس روایت کا شاہد ہے،، پاکستان کو ایران اور سعودی عرب کو ایک پلیٹ فارم پر لانا ہوگا۔ اِس سلسلے میں چین اور روس ہمارے بہترین معاونین ثابت ہو سکتے ہیں۔ ہم دونوں برادر اسلامی ممالک میں سی کسی ایک کو بھی کھونے کی پوزیشن میں نہیں۔ ہماری خوش بختی ہے کہ دونوں ممالک سی پیک منصوبہ میں شمولیت کے متمنی ہیں، اگر اسلامی افواج کے اتحاد میں ایران شامل ہو تو اُس کی قیادت بھی پاکستان کو مل سکتی ہے۔روس اور برطانیہ بھی سی پیک منصوبہ کا حصہ بننے کے خواہشمند ہیں، ہمیں یہ موقع ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہیے بلکہ بزنس مین ڈونلڈ ٹرمپ کو بھی اِس منصوبہ میں سرمایہ کاری کی دعوت دینا چاہیے۔

(جاری ہے)