خطیب پاکستان مولانا محمد شفیع اوکاڑوی عظیم عالم دین

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع فروری 04, 2017 | 18:42 شام

تحریر : میاں آصف علی

2فروری مولانا محمد شفیع اوکاڑیؒ کا یوم ولادت ہے سوچتا ہوں تو حیران ہو جاتا ہوں کہ برصغیر کا خطہ علمی طور پر کس قدر زرخیز ہے کہ یہاں ایک سے بڑھ کر ایک علمی ہیرا چمکا اور ہیرا بھی ایسا کہ جس کا بدل پوری دنیا میں نہ مل پائے مولانا محمد شفیع اوکاڑوی مسلم علماء کی کہکشاں میں شامل ایک روشن ستارے ہیں جن کے دنیا سے جانے کے بعد بھی ان کا نام ان کی علمی خدمات کی بدولت ذندہ رہتا ہے مولانا محمد شفیع اوکاڑوی 2فروری 1929 کو کھیم کرن مشرقی

پنجاب میں پیدا ہوئےشیخ المشائخ پیر میاں غلام اللہ شرقپوری المعروف ثانی صاحب نے حاجی میاں کرم الہٰی کومولانا محمد شفیع اوکاڑوی کی ولادت سے قبل ہی ان کے فضل و کمال کی بشارت دے دی تھی ۔

مولانا محمد شفیع اوکاڑوی 1947 میں ہجرت کرکے اوکاڑہ آئے مولانا نے قیام پاکستان سے قبل مڈل تک تعلیم حاصل کی تھی اس دور میں مڈل تک تعلیم حاصل کرنا بہت بڑی بات سمجھا جاتا تھا آپ نے قرآن پاک حفظ کیا اور دینی تعلیم  اس دور کے اکابر علماء کرام سے حاصل کی جن میں  دارالعلوم اشرف المدارس  اوکاڑہ کے شیخ الحدیث و التفسیر شیخ القرآن مولانا غلام علی اشرفی اوکاڑویؒ اور مدرسہ عربیہ اسلامیہ انوارالعلوم ملتان کے شیخ الحدیث والتفسیر غزالی زماں رازی  دَوراں مولانا سید احمد سعید صاحب کاظمی ؒ شامل تھے  ان جیسے جید اساتذہ سے تمام متدادل دِینی علوم پڑھے اور درسِ نظامی و دورۂ حدیث کی تکمیل پر اسناد حاصل کیں علوم دینیہ کی تلعیم حاصل کرنے کے بعد ساہیوال کی  جامع مسجد مہاجرین میں نماز جمعہ کی خطابت شروع کی مولانا محمد شفیع اوکاڑوی برلا ہائی سکول اوکاڑہ میں اسلامیات کے استاد کی خدمات بھی سرانجام دیتے رہے شیخ المشائخ پیر میاں غلام اللہ شرقپوری المعروف ثانی صاحبؒ کے دست حق پرست پر بعیت کی 1952ء میں جب مفتی اعظم پاکستان علامہ ابولالحسنات قادریؒ کی سربراہی میں تمام مسالک نے متحدہ تحریک ختم نبوت چلائی تو مولانا محمد شفیع اوکاڑویؒ نے بھی اس میں  بھرپور حصّہ لیا ۔

تحریک میں بھرپور شرکت کی بناء پر آپ کو بھی گرفتار کر لیا گیا آپ 10 ماہ منٹگمری جیل میں رہے ۔ اسی دوران مولانا محمد شفیع اوکاڑویؒ کے دو فرزند3سالہ تنویر احمد اور2سالہ  منیر احمد انتقال کرگئے  جس پر کچھ با اثر لوگوں نے ڈپٹی کمشنر ساہیوال سے مل کر سفارش کی ۔ ڈپٹی کمشنر نے جیل کے دورے کے دوران آپؒ  سے ملاقات کی اور کہا ’’ بچوں کی وفات کی وجہ سے آپ کے گھر کے حالات ٹھیک نہیں ہیں آپ کے لئے بہت سی سفارشیں ہیں ۔آپؒ معافی نامے پر دستخط کردیں  آپ کا معافی نامہ عوام سے پوشیدہ رکھا جائے گا اور آج ہی آپ کو رہا کردیا جائے گا مولانا محمد شفیع اوکاڑویؒ نے جواب دیا کہ مَیں نے عزت و ناموسِ مصطفی کے لئے کام کیا ہے اور میرا عقیدہ ہے کہ حضورِ اکرم آخری نبی ہیں ، لہذا معافی مانگنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا  بچے اللہ کو پیارے ہوگئے ، میری جان بھی چلی جائے تب بھی اپنے عقیدے پر قائم رہوں گا اور معافی نہیں مانگوں اس سخت جواب کی پاداش میں  مزید سختی کی گئی ، دفعہ 3 میں نظر بند کردیا گیا اور ملاقات پر بھی پابندی لگا دی گئی1955ء میں مولانا محمد شفیع اوکاڑویؒ کراچی آئے ۔ کراچی کی سب سے بڑی مرکزی میمن مسجد (بولٹن مارکیٹ ) کےخطیب و امام مقرر ہوئے ، میمن مسجد کی امامت و خطابت کے بعد تقریباً تین برس جامع مسجد عیدگاہ میدان اور سَوا دو سال جامع مسجد آرام باغ اور بارہ برس نور مسجد نزد جوبلی مارکٹ میں خطابت کے فرائض انجام دیتے رہے اور نماز جمعہ پڑھاتے رہے  ہر مقام پر زبردست اجتماع ہوتا ۔ ان تمام مساجد میں تفسیرِ قرآن کا درس دیتے رہے اور تقریباً 29 برس میں نو پاروں کی تفسیر بیان کی  1964ء میں  پی ای سی ایچ سوسائٹی میں مسجد غوثیہ ٹرسٹ سے ملحق ایک دِینی درس گاہ قائم کی جس کا نام دارالعلوم حنفیہ غوثیہ ہے ، گل زار حبیب  ٹرسٹ بھی قائم کیا16اکتوبر1962ء کو  کراچی کے علاقہ کھڈا مارکیٹ میں ایک سازش کے تحت اختلافِ عقائد کی بنا پر کچھ لوگوں نے محض تعصب کا شکار ہوکر دَورانِ تقریر مولانامحمد شفیع اوکاڑویؒ پر چُھریوں اور چاقوؤں سے شدید قاتلانہ حملہ کِیا جس سے آپ کی گردن ، کندھے ، سَر اور پُشت پر پانچ نہایت گہرے زخم آئےلیکن آپؒ نے عفو درگزر کا عظیم مظاہرہ کیا اور حملہ آوروں کے خلاف مقدمے کی پیروی تک نہ اس شدید حملے سے آپ کا جانبر ہونا بھی ایک معجزہ ہی تھاستمبر1965 کی  پاک بھارت جنگ کے موقع پر آپؒ نے قومی دفاعی فنڈ میں ہزاروں روپے دیئے اور اپنی تقاریر کے اجتماعات میں لاکھوں روپے کا سامان جو لباس اور اشیائے خورد و نوش پر مشتمل تھا ، جمع کیا اور ہزاروں روپے نقدی سمیت علمائے کرام کے ایک وفد کے ساتھ آزاد کشمیر گئےآزاد کشمیر کے 22 مقامات کے علاوہ  سیالکوٹ ، چھمب جوڑیاں لاہور ، واہگہ اور کھیم کرن کے متعدد محاذوں پر جاکر فوجیوں میں جہاد کی اہمیت اور مجاہد کی عظمت و شان اور فی سبیل اللّٰہ جہاد کے موضوع پر وَلوَلہ انگیز تقاریر کیں  آپؒ1970ء میں جمعیت علماء پاکستان کے ٹکٹ پر کراچی سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے قیام پاکستان سے تادم آخرمحمد شفیع اوکاڑوی ، ایک مخلص اور محبِ وطن پاکستانی اور سچے پکّے مسلمان ہونے کا بھرپور مظاہرہ کرتے رہے ہیں ۔ ان کی شخصیت ملک بھر میں بالخصوص اور دنیا بھر میں بالعموم محبوب و محترم اور مقبول و ممتاز رہی جنرل ر محمد ضیاء الحق کی قائم کردہ مجلسِ شوریٰ کے رکن رہے اور قوانینِ اسلامی کے ترتیب و تشکیل اور نفاذ کے لئے خدمات سر انجام دیں  اپنی وفات سے چند ماہ قبل مرکزی محکمہ اوقاف پاکستان کے نگرانِ اعلی اور یونیورسٹی گرانٹس کمِشن کے رُکن رہے آپؒ نےاتحاد بین المسلمین کے لئے ملک بھر میں نمایاں خدمات انجام دیں قومی دفاعی فنڈ ، افغان مجاہدین ، سیلاب زدگان اور ہر ناگہانی سانحے سے متاثر ہونے والے افراد کی امداد میں ہمیشہ بڑھ چڑھ کر حصّہ لیتے رہے ۔

محمد شفیع اوکاڑوی نے کراچی کے علاقے ’’ گولی مار ‘‘ کا نام ’’ گُل بہار ‘‘ اور ’’ رام باغ ‘‘ کا نام ’’ آرام باغ ‘‘ تجویز رکھوایا   16  مرتبہ حج اور عمرہ کیامسلسل 40 سال تک ہر شب مولانا محمد شفیع اوکاڑویؒ مذہبی تقاریر فرماتے رہے ہیں  مولانا محمد شفیع اوکاڑویؒ کی علمی استعداد ،حُسنِ بیان ، خوش الحانی اور شانِ خطابت نہایت منفرد اور ہر دل عزیز تھی ۔ ہر تقریر میں ہزاروں ، لاکھوں افراد کے اجتماعات ہوتے تھے ۔ ماہِ محرم کی شبِ عاشورہ میں ملک کا سب سے بڑا مذہبی اجتماع ، مولانا محمد شفیع اوکاڑویؒ کے خطاب کی مجلس کا ہوتا تھا ۔ تقریبا پورے ملک میں آپؒ نے تقاریر کیں دِین و مسلک کی تبلیغ کے لئے  شرقِ اوسط ، خلیج کی ریاستوں ، بھارت ، فلسطین ، جنوبی افریکا ، ماریشس اور دوسرے کئی ممالک کے دورے بھی کیے آپ نے 24کتابیں لکھیں فتووں کے رسالہ اس کے علاوہ ہیں 3 ہزار سے زائد ا فراد کو مولانا محمد شفیع اوکاڑویؒ نے مسلمان کیا  اور لاکھوں افراد کے عقائد و اعمال کی اصلاح ہوئی انہیں طریقت کے چاروں سلاسل میںکئٰ  مشائخ سے اجازت و خلافت حاصل تھی دنیا بھر میں آپ کے مریدین پھیلے ہوئے ہیں جن کی تعداد ہزاروں میں ہے مولانا محمد شفیع اوکاڑویؒ نے جنوبی افریقہ میں انجمن اہلِ سنّت و جماعت قائم کیپاکستان میں سُنی تبلیغی مشن ، انجمن محبانِ صحابہ و اہلِ بیت ، تنظیم ائمہ و خطبا مساجد اہلِ سنّت سمیت  کئی  ادارے قائم کئے  40سالہ تبلیغٰی ذندگی میں سینکڑوں موضوعات پر18 ہزار سے زائد خطابات کیے1973ء میں آخری بیرونِ ملک سفر ، بھارت کے لئے کیا ۔ اپنے دَورے میں بمبئی ، اجمیر، دہلی اور بریلی شریف گئےآپؒ 1974ء میں عارضہ قلب میں مبتلا ہوئے  1975ء میں دوران سفر دوسری مرتبہ دل کا دَورہ پڑا ، اسی حالت میں کراچی آئے اور تقریباً 6 ہفتے اسپتال میں زیرِ علاج رہے ۔ ۔ مارچ 1984ء میں شرقپور شریفگئے  اور اپنے پیرو مرشد کی درگاہ پر حاضری دی جو وہاں ان کی آخری حاضری ثابت ہوئی ۔مولانا محمد شفیع اوکاڑویؒ نے20اپریل 1984ء کو آخری خطاب جامع مسجد گُلزارِ حبیب میں نمازِ جمعہ کے اجتماع سے کیا  اسی شب تیسری بار دل کا شدید دَورہ پڑا اور آپؒ 3دن بعد منگل، 21 رجب المرجب 1404 ھ بمطابق 24 اپریل 1984ء کی صبح 55 برس کی عمر میں اذانِ فجر کے بعد دُرود و سلام پڑھتے ہوئے خالقِ حقیقی سے جاملے 25اپریل کو نشتر پارک  کراچی میں غزالی ء زماں رازی ء دوراں  علامہ سید احمد سعید کاظمی نے نماز جنازہ پڑھائی جس میں لاکھوں عاشقان رسول شریک ہوئے