ایک عہد ساز شخصیت کا سانحہ ارتحال

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع جنوری 27, 2017 | 19:06 شام

گھر میں سبھی لوگ بڑے جوش و خروش سے جمعہ کی نماز کی تیاری کررہے تھے، میں بہت حیران تھا کہ آخر ماجرا کیا ہے؟ اپنے تجسس کے ہاتھوں مجبور ہوکر بالآخر ماموں سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ گاﺅں کی قریبی بستی الہ آباد سے مفتی یونس صاحب جمعہ پڑھانے آرہے ہیں۔ الہ آباد ہمارے گاﺅں کے پاس ہی ایک چھوٹاساگاﺅں ہے جو کبھی یونین کونسل کا مرکز ہوا کرتا تھا۔ ماموں کی یہ بات سن کر مجھ پر حیرت کے پہاڑ ٹوٹ پڑے کیونکہ آج تک مجھے صرف اتنا ہی پتہ تھا کہ ہمارے آس پاس جانگلی لوگ ہی رہتے ہیں جو صرف کھیتوں میں کام کرت

ے ہیں جبکہ ان کا تعلیم سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔ علاقے کے لوگوں کی ایسی تصویر میں سے ایک مفتی کا ابھرنا واقعی بہت ہی حیرتناک بات تھی۔ اپنی سوچوں میں مَیں نے مفتی صاحب کے متعدد نقشے بنائے اور محلے کی مسجد جاپہنچا ۔ مسجد میں جاکر دیکھا کہ ایک وجیہہ شخص منبر سنبھالے بیٹھا ہے جس کے ماتھے پر کثرت سجود کے باعث مہراب بنی ہوئی ہے اور بات اتنے مدلل انداز میں کرتا ہے کہ سامعین نہ صرف بات کو بخوبی سمجھ لیتے ہیں بلکہ سننے والا اختلاف بھی نہیں کرپاتا ۔ ہم نے ہمیشہ ہی اپنی مساجد میں نیم خواندہ قسم کے حفاظ کرام دیکھے ہیں جن کا قرآن پاک کا تلفظ بھی درست نہیں ہوتا لیکن مفتی صاحب کے پیچھے جمعہ کی نماز ادا کرکے ایک نئے جہان سے روشناس ہوئے اور پتا لگاکہ دنیا میں صاحب علم افراد کی کوئی کمی نہیں۔ اس کے بعد مفتی یونس صاحب نے گاﺅں کی مختلف مساجد میں چند جمعے پڑھائے اور پھر غائب ہوگئے۔ تحقیق پر معلوم ہوا کہ وہ نواب شاہ سندھ میں حدیث کے استاد ہیں اور واپس وہیں چلے گئے ہیں۔ 
وقت کے ساتھ اور بہت سی باتوں کی طرح مفتی صاحب بھی ذہن سے محو ہوگئے لیکن 2006-7ءمیں ان سے دوبارہ ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا جو اُن کے جہان فانی سے کوچ کرنے تک جاری رہا۔ پہلے جب وہ گاﺅں میں جمعہ پڑھانے آتے تھے تو ان سے صرف سلام دعا تک کا ہی تعلق تھا لیکن ایک دن اپنے ماموں کے ساتھ ان کے ڈیرے پر گیا تو دیکھا کہ وہ اپنے بھائیوں اور کزنز کے ساتھ بیڈمنٹن کھیل رہے ہیں، یہ ملاقات تفصیلی ہوئی اور علاقے میں مدرسہ بنانے کے حوالے سے لائحہ عمل پر بھی غور ہوا۔
ماموں مشتاق پر پہلے مدرسہ بنانے کی دھن سوار تھی اور اب وہ مدرسہ چلانے کیلئے فکر مند رہتے ہیں۔ ان دنوں میں گیارہویں جماعت میں پڑھتا تھا۔ کالج سے آنے کے بعد ماموں مشتاق کے ساتھ موٹرسائیکل پر پورا علاقہ گھومتا تھا، کبھی کوئی تبلیغی جماعت آئی ہوئی ہے تو اس کی نصرت کیلئے جارہے ہیں تو کسی دن علاقے میں ساتھیوں سے ملاقاتیں ہورہی ہیں لیکن جس دن مدرسہ کا سنگ بنیاد رکھا گیا تھا اس کے بعد ہم دونون ہی جب بھی وقت ملتا تو مفتی صاحب کے ڈیرے پر پہنچ جاتے۔ ماموں مشتاق مجھے کہتے تھے کہ ”یار! مفتی صاحب کو قابو کرنا ہے اور واپس نواب شاہ نہیں جانے دینا“ لیکن مفتی صاحب تو خود ہی اپنے علاقے میں علم کی شمع روشن کرنے کی تڑپ لیے ہوئے تھے اور نواب شاہ سے کشتیاں جلا کر آئے تھے۔ انہوں نے چاردیواری اور ایک کمرہ مکمل ہوتے ہی مدرسے کا انتظام خود سنبھال لیا اور تدریس کا سلسلہ شروع کردیا۔ یہ ایسے ہی تھا کہ ایک یونیورسٹی کا پی ایچ ڈی پروفیسر پرائمری سکول کے بچوں کو پڑھائے لیکن مفتی صاحب نے اس کام میں کبھی اپنی توہین نہ سمجھی اور تادم مرگ بچوں کو پڑھاتے رہے۔
چند ماہ پہلے مفتی صاحب نماز کیلئے وضو کرکے اپنے کمرے میں داخل ہوئے تو وہیں پر گر پڑے ، شاگردوں نے اٹھایا تو نچلا دھڑ مفلوج ہو چکا تھا۔ کچھ روز تو دیسی علاج چلتا رہا لیکن جب معاملہ سمجھ میں نہ آیا تو لاہور کے گھرکی ہسپتال میں ڈاکٹر عامر عزیز سے مشورہ کیا جنہوں نے فوری طور پر ریڑھ کی ہڈی کا آپریشن کرنے کی تجویز دی ۔ آپریشن کرا لیا گیا لیکن مفتی صاحب کی طبیعت نہ سنبھلی اور بالآخر ان کیلئے یہی مرض جان لیوا ثابت ہوا ۔ بیماری کے بعد ان میں اٹھنے کی سکت بھی نہیں تھی لیکن جس دن ان کا انتقال ہوا اس دن بھی وہ بچوں کو قرآن پاک پڑھارہے تھے۔ عالِم کی موت پورے عالَم کی موت ہوتی ہے یہ بات سنی تو بہت تھی لیکن اس کی حقیقت مفتی صاحب کے جنازہ پر عیاں ہوئی جب سینکڑوں اجنبی چہروں کو آنسو بہاتے اور مدرسے کے بچوں کو بلکتا دیکھا۔