وہ رونے پر کیوں مجبور ہو گیا تھا۔۔۔۔۔۔؟

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع جنوری 24, 2017 | 15:20 شام

ایک ٹرین اپنے سفر پر رواں دواں تھی۔ اُسی ٹرین کے ایک ڈبے میں سوار سبھی مسافر ادب و تہذیب سے اپنی اپنی سیٹوں پر بیٹھے ہوئے تھے۔ کچھ سو رہے تھے، کچھ اخبار و رسائل کا مطالعہ کر رہے تھے اور کچھ باہر کے حسین مناظر کی آمد و رفت میں کہیں دور سوچوں میں گم تھے۔
 سفر بہت آرام سے گزر رہا تھا، کہ یکدم ٹرین ایک اسٹیشن پر رکی۔ ایک آدمی اپنے دو چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ اُسی ڈبے میں سوار ہوا۔ وہ دونوں بچے شرارتیں اور اٹھکیلیاں کرتے ڈبے میں سوار ہوئے، اور آتے ہی پورے ڈبے کے پُر سکون ماحول کو تہہ و

بالا کر دیا۔ لیکن اُن کا باپ ٹرین میں سوار ہوتے ہی اُن کی اِن شرارتوں سے بے خبر ایک الگ خالی سیٹ پر ٹیک لگا کر سو گیا۔
 پہلے پہل تو باقی مسافر اُنہیں بچے سمجھ کر اُن کی شرارتوں سے محظوظ ہوتے رہے۔ لیکن جب اُن بچوں کی شرارتیں بدتمیزیوں میں بدلنے لگیں تو سبھی بہت غصے میں آگئے۔ ہر کوئی دل ہی دل میں اُن کے باپ کو بُرا بھلا کہنے لگا کہ "کیسا باپ ہے بچوں کی ذرا بھی فکر نہیں ہے۔۔۔!"
 بچوں کی شرارتوں سے تنگ آ کر دو تین مسافر ڈبے کے کونے میں ایک سیٹ پر ٹیک لگا کر سوئے اُن بچوں کے باپ کے پاس گئے اور اُس کا کاندھا ہلا کر اُسے اُٹھانے کی کوشش کی۔ لیکن وہ کچھ زیادہ ہی تھکا ہوا تھا، ذرا سی آنکھیں کھولیں، سب پر نظر دوڑائی اور دوسری طرف منہ کر کے پھر سو گیا۔
 آخر ایک صاحب نے زبردستی اُسے پکڑ کے سیدھا کیا اور غصے میں بولے "یہ تمہارے بچے ہیں یا کوئی طوفان، جب سے سوار ہوئے ہیں، ہم سب کا جینا حرام کر دیا ہے، اور تمہیں ذرا بھی فکر نہیں ہے، آرام سے سو رہے ہو۔۔!" وہ صاحب بولتے گئے اور یہ شخص، بچوں کا باپ پتھرائی ہوئی سرخ آنکھوں سے سب کو دیکھتا رہا۔
 جب وہ صاحب خاموش ہوئے تو یہ شخص غم سے ڈوبی ہوئی آواز میں بولا "بھائیو! میں آپ سب سے بہت معذرت چاہتا ہوں کہ میرے بچوں کی وجہ سے آپ کو تکلیف ہو رہی ہے اور آپکے سفر کا سکون خراب ہو گیا ہے۔۔۔!"
 اِس شخص نے آستینوں سے اپنے آنسو پونچھے اور دوبارہ بولا، "میں پچھلے تین دن سے لگاتار جاگ رہا ہوں۔ اِن بچوں کی ماں ہسپتال میں داخل تھی، آج صبح ہی اُس کا انتقال ہوگیا ہے، میں ابھی ابھی اُس کا کفن دفن کر کے اپنے آبائی گاؤں واپس جا رہا ہوں۔۔۔!!"
 پھر یہ شخص اپنے آنسوؤں کو ضبط کرتے ہوئے بولا، "اِن معصوموں کو تو پتہ بھی نہیں ہے کہ اُن کی ماں اب اِس دنیا میں نہیں ہے۔ صبح سے لے کر اب تک یہ کئی بار اپنی ماں کے بارے میں پوچھ چکے ہیں۔ اور میں جھوٹ پہ جھوٹ بولتا آ رہا ہوں کہ، آپ کی ماں ٹھیک ہو جائے گی، اور یہ بچے اِسی خوشی میں خوش ہیں کہ اُن کی ماں ٹھیک ہو جائے گی، اور میں اندر ہی اندر گھٹتا جا رہا ہوں کہ انہیں کیسے بتاؤں کہ اب اِن کی ماں اِس دنیا میں نہیں رہی، اب وہ کبھی لوٹ کے واپس نہیں آئے گی۔۔!"
 پھر اِس نے سب پر ایک طائرانہ نظر ڈالی اور بولا، "اگر اب بھی آپ کو لگتا ہے کہ یہ بچے آپ کا سکون تباہ کر رہے ہیں، اور مجھے اِن کی فکر نہیں ہے، تو جو آپ کے جی میں آتا ہے کرئیے۔۔!"
 دوستو! کبھی بھی کسی خاموش، کمزور اور بے بس انسان کے بارے میں بُرا نہ سوچو۔ کیونکہ اُس کے دل میں دُکھوں اور غموں کے طوفان کیا تباہی مچا چکے ہیں یہ کوئی نہیں جانتا۔ کہیں ایسا نہ ہو آپ کی کوئی سخت بات اُس کے زخمی دل کے زخم پھر ہرے کر دے اور وہ رونے پر مجبور ہو جائے

نوٹ:اگر آپ بھی اپنا کوئی کالم،فیچر یا افسانہ ہماری ویب سائٹ پر چلوانا چاہتے ہیں تو اس ای ڈی پر میل کریں۔ای میل آئی ڈی ہے۔۔۔۔

bintehawa727@gmail.com

ہم آپ کے تعاون کے شکر گزار ہوں گے۔