سرل بی بی سی اور میراثی۔۔۔بی بی سی نے کس کی زبان بولی؟

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع اکتوبر 13, 2016 | 04:49 صبح

لندن(ویب رپورٹ)
 سِرل انگریزی میڈیم نوجوان ہے اُس نے شاید جنگل میں شیر اور بندر والا لطیفہ بھی نہیں سُنا ہو گا
پہلی تردید کہتی ہے سِرل المائڈہ مبالغہ آرائی سے کام لے رہا ہے۔ آدھا سچ آدھا جھوٹ لِکھ رہا ہے دوسری تردید کہتی ہے فسانہ طرازی کر رہا ہے۔دونوں تردیدیں بھی چھپ جاتی ہیں۔
کوئی عام حکومت ہوتی اور اُس کے سر پر کوئی عام فوج ڈنڈہ لے کر بیٹھی ہوتی تو اِس سے تسلی ہو جاتی لیکن چونکہ اِس قوم ہاشمی کی ترکیب خاص ہے تو پیر کا دِن آتا ہے اور یہ وہ دِن ہے جب میرے جیسا سُست الوجود آدمی بھی سوچتا ہے کہ زندگی میں جو اہم ہے پہلے وہ کر لوں پیر کے دِن صبح کو پاکستان کے تیسری دفعہ بننے والے وزیراعظم ، ایک ایسی فوج کے سربراہ جو نصف درجن محاذوں پر لڑ رہی ہے ، دُنیا کی حساس ترین انٹیلی جنس ایجنسی کے سربراہ اور اُن کے حواری مِل کر بیٹھتے ہیں اور یک آواز ہو کر پوچھتے ہیں یہ سِرل کون ہے؟
جو بھی ہے قومی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ یہی ہے۔
جو لوگ سِرل سے نہیں ملے اور صرف پڑھتے ہیں، اُنہیں یہ خوش فہمی رہتی ہے کہ شاید کوئی خوبرو انگریز عورت ہے جِسے پاکستان میں کچھ ضرورت سے زیادہ دِلچسپی ہے۔ جب مِلتے ہیں تو قدرے مایوس ہوتے ہیں کہ یہ تو کراچی کا لونڈا ہے جِس کی انگریزی اور سیاسی بصیرت اِسلام آباد کے زیادہ تر بابوو¿ں سے بہتر ہے۔ میں بہت سے ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو اتوار کو ڈان اخبار صِرف سِرل کا کالم پڑھنے کے لیے خریدتے ہیں۔
تو کراچی سے اِسلام آباد آئے اِس مقبول سیاسی مبصر نے ایسا کیا لِکھا کہ اپنی رپورٹ فائل کر کے سویا اور صبح اُٹھا تو اپنے آپ کو قومی سلامتی کا سب سے بڑا مسئلہ بنا پایا۔اِس راز کا سراغ لگانے کے لیے رپورٹ کو دوبارہ پڑھتے ہیں۔
کِسی وزیراعظم اور وزیراعلی کی یہ جرات کہ ہمیں بتائے کہ ہم نے کیا کرنا ہے؟
خبر کے مطابق شریف بھائیوں نے ملک کے انتہائی حساس ادارے کے حساس تر سربراہ سے کہا اور اپنے خارجہ سیکرٹری سے کہلوایا کہ ہماری حرکتوں کی وجہ سے دُنیا میں کوئی ہمارا اعتبار نہیں کرتا۔ حساس ادارے کے سربراہ نے بات سُنی اور کسی حد تک اتفاق بھی کیا اور پھر یہ بات اخبار میں چھپ گئی۔کِسی وزیراعظم اور وزیراعلی کی یہ جرات کہ ہمیں بتائے کہ ہم نے کیا کرنا ہے؟ اور پھر یہ بات اخبار کے ذریعے پھیل بھی جائے۔
گاو¿ں کا چودھری کبھی کبھی اپنے منشی یا کِسی بگڑے ہوئے تھانیدار کے ہاتھوں وقتی بے عزتی برداشت کر لیتا ہے لیکن اگر کوئی میراثی اِس بے عزتی کا قصہ گاو¿ں والوں کو سُنا دے تو جوتے اُسی کو پڑتے ہیں۔
سِرل انگریزی میڈیم نوجوان ہے۔ اُس نے شاید جنگل میں شیر اور بندر والا لطیفہ بھی نہیں سُنا ہو گا جس میں بندر شیر کے کردار کے بارے میں افواہیں پھیلا کر قومی سلامتی لے لیے خطرہ بن جاتا ہے۔
رپورٹ میں دوسری بات جو انتہائی حساس ہے وہ یہ کہ سویلین حکمرانوں نے حساس ادارے کے سربراہ سے کہا کہ آپ لوگ ہمیں حافظ سعید اور مولانا مسعود اظہر جیسے لوگوں کے خلاف ایکشن نہیں لینے دیتے۔
یہ دونوں حضرات ہمارے قومی اثاثے ہیں۔ خدا جانے ہمارے حساس ادارے اِن کے معاملے میں اور زیادہ حساس کیوں ہو جاتے ہیں۔ اُن کے درمیان کچھ ایسا رشتہ ہے جیسا پرانی شادیوں میں ہوتا تھا جہاں بیوی اگر شوہر کا نام لے لے تو نکاح ٹوٹ جاتا تھا۔ سِرل کو بھی پوری قوم کی طرح اِس رشتے کا احترام ہے تو اُس نے بھی رپورٹ میں نام لیا تو اِس لیے کہ میٹنگ میں یہ نام لیے گئے۔
شیخوپورہ کے سیاستدان کو یہ نہیں پتہ کہ مرید کے میں پاکستان کے مجاہدوں کا ڈیرہ ہے۔تھوڑی دیر کے لیے سِرل کو بھول جائیں اور ایک اور نام لیں، رانا افضل۔ یہ صاحب اِتنے معصوم ایم این اے ہیں کہ فرماتے ہیں کہ مجھے کشمیر کا کیس لڑنے پیرس بھیجا گیا تو اُنہوں نے میری بات بھی نہیں سُنی، حافظ سعید حافظ سعید کرتے رہے۔ میں نے پوری زندگی کبھی یہ نام ہی نہیں سُنا تھا اور یہ حافظ صاحب کون سے انڈے دیتے ہیں کہ ہم نے اِنہیں رکھا ہوا ہے۔ ایسی بدزبانی اور ایسی معصومیت کہ شیخوپورہ کے سیاستدان کو یہ نہیں پتہ کہ مرید کے میں پاکستان کے مجاہدوں کا ڈیرہ ہے۔شریف بھائیوں کو چاہیے کہ وہ اپنے حواریوں کی تعلیم کے لیے انھیں پیرس یا نیویارک بھیجنے کی بجائے اپنے ہی ملک کے دوسرے حصوں یعنی کوئٹہ، خضدار، حیدرآباد یا کم از کم لاہور سے نزدیک اوکاڑہ ہی بھیج دیں تا کہ خلق خدا اُن کو بتا سکے کہ کون کیسے کیسے انڈے اور بچے دیتا ہے۔باقی رہا ڈان اور سِرل کا معاملہ تو یاد رکھیں صدر زرداری کے دور حکومت میں یہ خبریں چھپتی تھیں یا چھپوائی جاتی تھیں کہ وہ اپنی سلامتی کے لیے روز کالے بکرے کا صدقہ دیتے ہیں۔ نوازشریف کے دورِ حکومت میں بھی ہر روز یہ خبر چھپوائی جاتی ہے کہ کِس طرح اُن کی حکومت کی فوج سے ڈانٹ ڈپٹ ہوتی رہتی ہے۔ ہو سکتا ہے اُن پر بھی اِس ہفتے یہ وقت آ گیا ہو کہ کِسی کو بًلی چڑھائے بغیر جان نہیں چھوٹے گی۔ لیکن اِس مقصد کے لیے صحافیوں کی طرف نہ دیکھیں۔ کم از کم اِس معاملے پر صحافی برادری متفق ہے کہ سِرل پر حملہ صحافت پر ہی حملہ نہیں بلکہ کامن سنس پر حملہ ہے۔ عباس ناصر سے لے کر انصار عباسی تک ایسے ایسے بزرگ صحافی جو اِس بات پر بھی متفق نہ ہوں کہ ابھی دِن ہے یا رات، سِرل اور ڈان کے ساتھ کھڑے ہیں۔اگر نوازشریف کو اپنی حکومت بچانے کے لیے کسی صدقے کے جانور کی ضرورت ہے تو اپنے اصطبل میں ڈھونڈیں یا بپھرے ہوئے حساس ادارے کو ٹھنڈا کریں ، صحافیوں کو اپنا کام کرنے دیں۔سرل المائڈا کی خبر کی تین مرتبہ حکومتی تردید کے بعد ان کا نام ای سی ایل میں ڈال دیا گیا۔پاکستان کی وزارت داخلہ کے حکام کا کہنا ہے کہ مقامی انگریزی اخبار کے صحافی سرل المائڈا کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں اس لیے شامل کیا گیا ہے کہ اس خبر کے بعد جب اس معاملے کی تحقیقات کا اعلان کیا گیا تھا تو مذکورہ صحافی نے اگلے روز ہی دبئی جانے کے لیے سیٹ بک کروائی تھی۔ وزارت داخلہ کے حکام کے مطابق جب تک اس متنازع خبر پر تحقیقات مکمل نہیں ہو جاتی اس وقت تک کسی نام ای سی ایل سے نکالنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
خیال رہے کہ سرل نے جب اپنا نام ای سی ایل میں ڈالنے کے حوالے سے ٹویٹ کی تھی تو اس وقت انھوں نے یہ بھی لکھا تھا کہ ان کا بیرون ملک جانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا لیکن اس سے پہلے لکھا تھا کہ ان کا باہر جانے کا پلان کئی ماہ پہلے سے تھا۔وزارت داخلہ کے حکام کا کہنا ہے کہ اس خبر سے متعلق تحقیقات مکمل ہونے میں دو سے تین روز لگیں گے۔واضح رہے کہ سرل المائڈانے سات اکتوبر کو خبر دی تھی کہ ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس میں کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائی کرنے سے متعلق سویلین اور فوجی قیادت کے درمیان اختلافات سامنے آئے تھے۔اس خبر کی اگرچہ سویلین اور عسکری قیادت کی طرف سے تردید کی گئی تھی تاہم وزیر اعظم کی سربراہی میں ہونے والے ایک سطح کے اجلاس میں ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کا حکم دیا گیا تھا۔ڈان اخبار نے اس پر ردِعمل میں لکھا تھا کہ اس کی خبر، 'جسے ایوانِ وزیرِ اعظم نے من گھڑت قرار دیا ہے، اس کی متعدد بار تصدیق کی گئی تھی اور اس کے حقائق ہر طرح سے پرکھے گئے تھے،' اور یہ کہ 'ایک سے زیادہ ذرائع نے اس خبر کی تصدیق کی تھی۔