حضرت داتا گنج بخش علی ہجویریؒ کی زندگی کے چند روشن واقعات

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع نومبر 10, 2017 | 08:43 صبح

حضرت داتا گنج بخش علی ہجویریؒ کی ولادت باسعادت افغانستان کے معروف شہر غزنی میں 400ھ کو ہوئی۔آپؒ نیک اور شرافت کے پیکرسادات خاندان کے چشم وچراغ تھے۔آپؒ کا اسم شریف ”علی“ کنیت”ابُوالحسن“اور لقب داتا گنج بخش ہے۔
شہر غزنی کے محلہ جلاب میں آپؒ کے ددھیال کا گھر تھا جبکہ آپؒ کے ننھیال کا گھر محلہ ہجویر میں تھا۔اور اسی نسبت سے آپؒ ہجویری اور جلابی کہلاتے تھے۔آپؒ نے چار برس کی عمر میں اپنے والدِ محترم حضرت عثمان بن علیؒ سے قرآن پاک کی تعلیم حاصل کی۔آپؒ غیر معمولی ذہانت ک

ے مالک تھے اور تھوڑے ہی عرصہ میں قرآن مجید پڑھنے کی سعادت حاصل کرلی تھی۔اس کے بعد آپؒ نے عربی اور فارسی اور دیگر علوم کے حصول کیلئے سفر کی صعوبتیں نہایت خندہ پیشانی سے برداشت کیںاور شام،عراق،بغداد شریف، مدائن، فارس،کوہستان،آزربائیجان،طربستان،خوزستان اور خراسان وغیرہ کے مشہور جید اور معتبر علماءفضلاءسے شرفِ تلمذ حاصل کیا۔آپؒ نے جن اساتذہءکرام سے اکتسابِ فیض کیا اُن کے اسمائے گرامی تاریخ میں یوں ملتے ہیں۔
ابو الفضل محمد بن الحسن الختلی،شیخ ابو القاسم عبداللہ الکریم بن ہوازن القشیری،امام ابو العباس بن محمد اشقانی،شیخ ابو سعید ابو الخیر،خواجہ احمد مظفربن احمد حمدان،ابو العباس احمد بن محمد قصاب،ابو جعفر بن محمد بن صباح صدلانی باب فرغانی،حضرت ابو عبداللہ بن علی الداغستانی،حضرت شیخ ابو القاسم بن علی بن عبداللہ گرگانی کے نام قابلِ ذکر ہیں۔آخر الذکر شیخ ابو قاسم گرگانی کاشمار آپؒ کے استادوںمیں سب سے پہلے نمبر ہوتاہے ۔جن سے آپؒ نے درسی علوم حاصل کرتے ہوئے سب سے زیادہ استفادہ کیا۔آپؒ خود ”کشف الاسرار“میں شیخ ابو القاسم گرگانی کو اپنا علمِ دین کا استاد لکھتے ہوئے فرماتے ہیں کہ”میرے علمِ دین کے استاد فرمایا کرتے تھے ،فقر میں رضا جوئی مرشد سے بڑھ کر اور کوئی چیز نہیں ہے،پس فقیرکو چاہیے کہ مرشد ہی کی حضوری رکھے یعنی تصور میں ہر وقت اپنے مرشد کو اپنے پاس ہی سمجھے۔آگے مرشد کی تعریف کے ضمن میں بتایا کہ ا سے کس قسم کا ہونا چاہیے،ایسا نہ ہو کہ مرشد خود بھی ڈوبا ہوا ہو، اور مرید کو بھی ساتھ لے ڈوبے۔“ 
اس حوالہ سے حضرت خواجہ شاہ محمد سلیمان تونسویؒ کے آستانہءعالیہ سے فیض یافتہ ابومختار حضرت خواجہ صوفی جمال الدین چشتی تونسویؒ(دیپال پور)اپنی مجالس میں اکثر فرمایا کرتے تھے کہ” بیعت ہونا کوئی بچوں کا کھیل نہیں،اس لیے خوب جانچ پڑتال کرتے ہوئے سرکارِ دوعالم کی شریعتِ مطہرہ کی مکمل پابندی کرنے والے شیخ کے ہاتھ پر بیعت کرنی چاہیے۔اور ساتھ رحمتِ عالم کایہ فرمانِ مقدس سنایا کرتے تھے کہ” (مفہوم)اگر ایک شخص جائے نماز پہ بیٹھا ہوا،ہوا میں بھی اُڑتا ہوا نظر آئے،مگر وہ شخص شریعتِ مطہرہ کا پابند نہ ہو ،اور اس کا پاﺅں جادہءشریعت سے باہر ہو ،تو سمجھوکہ وہ جادو گر ہے،اُس پہ کچھ اعتبار نہیں۔“
حضرت داتا گنج بخش علی ہجویریؒنے سلسلہ جنیدیہ میںحضرت شیخ ابو الفضل ختلیؒ کے دستِ شفقت پر بیعت فرمائی۔جواپنے زمانے کے جلیل القدر،قرآن وحدیث کے اعلیٰ پائے کے عالم،زہد وتقویٰ ،متقی وپرہیزگاراور کشف وکرامات میں اپنی مثال آپ بزرگ تھے۔حضرت داتا گنج بخش علی ہجویریؒاپنی شہرہ آفاق تصنیف”کشف المحجوب“ جس کے بارے میں حضرت بابا فرید الدین گنجِ شکرؒ کے خاص منظورِ نظر،اور سلسلہ چشتیہ کے عظیم بزرگ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاءؒفرماتے ہیں کہ”جس کا کوئی مرشد نہ ہو اُسے اِس کتاب (کشف المحجوب)کے مطالعہ کی برکت سے مرشد مل جائے گا۔“میں رقم طراز ہیں کہ
”ایک مرتبہ میں آپؒ کو وضو کرارہا تھا ،معاََ میرے دل میں خیال پیدا ہوا کہ جب تمام امور تقدیر اور قسمت سے وابستہ ہوتے ہیں،توپھر آزاد لوگوں کو پیروں اور فقیروں کا غلام کس لیے بنایا جاتا ہے۔کیا کرامات کی امیدپر،میں ابھی یہ سوچ ہی رہا تھا کچھ کہنے نہیں پایا تھا کہ مرشد(حضرت شیخ ابو الفضل ختلیؒ )نے اپنے کشف سے جان لیا ،فرمانے لگے بیٹا جو بات تیرے دل میں پیدا ہوئی ہے مجھے معلوم ہوگئی ہے۔جب اللہ تعالیٰ کسی کو تاج وتخت دینا چاہتا ہے تو اسے توبہ کی توفیق عطا فرماتا دیتا ہے اور وہ ایک مہربان دوست کی خدمت کرنے لگتا ہے۔اسی خدمت کے نتیجے میں اس کی کرامت کا اظہار ہوتا ہے۔“
حضرت داتا گنج بخش علی ہجویریؒ ایک اور جگہ فرماتے ہیں کہ”ایک دفعہ میں اپنے پیر ومرشدحضرت شیخ ابو الفضل ختلیؒ کے ساتھ بیت الجن سے دمشق کاسفر کررہا تھا ،کہ راستے میں بارش ہو گئی،جس کی وجہ سے بہت زیادہ کیچڑ ہوگیا اور ہم بہت ہی مشکل سے چل رہے تھے کہ اچانک میری نظر پیرومرشد پر پڑی،تو کیا دیکھتا ہوں کہ اُن کا زیبِ تن کیا ہوا لباس بھی بالکل خشک ہے اور پاﺅںمبارک پر بھی کیچڑ کا کوئی نشان نظرنہ آیا۔مجھے بڑی حیرت ہوئی،دریافت کیا تو آپؒ نے ارشاد فرمایا کہ، ہاں جب سے میں نے پروردگارِ عالم پر توکل کرتے ہوئے ہر قسم کے وہم وشبہ کو خود سے دور کردیا ہے اور دل کو حرص ولالچ کی دیوانگی سے محفوظ کرلیا ہے،تب سے اللہ رب العزت کی ذاتِ مقدس نے میرے پاﺅں کو کیچڑ سے محفوظ رکھا ہے۔“
اسی طرح ایک اور مقام پر حضرت داتا گنج بخش علی ہجویریؒ اپنے پیرومرشد کاتذکرہ یوں فرماتے ہیں کہ”جب میرے پیرومرشد حضرت شیخ ابو الفضل ختلیؒکا وصال ہوا تو اُن کا سر مبارک میری گود میں تھااور میں سخت مضطرب اور خاصا پریشان تھا۔آپؒ نے میری حالت کو دیکھا توفرمانے لگے کہ میں تمہیں عقیدے کا ایک مسئلہ بتاتا ہوں ۔اگر تم سمجھ گئے اور اُس پر عمل کیا تو ہر قسم کے دکھ اور رنج اور تکلیف سے بچ جاﺅ گے۔آپؒ نے فرمایا ،یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ کی پاک ذات کے ہر کام میںحکمت اور مصلحت مضمر ہوتی ہے۔وہ حالات کو اُن کے نیک وبد کا لحاظ کرکے پیدا فرماتا ہے۔اس لیے بیٹا!اُس کے کسی فعل پر انگشت نمائی نہ کراور نہ ہی دل میںاس پر معترض ہو۔اس کے بعد آپؒ خاموش ہوگئے اور اپنی جان،اس کائنات کو سجانے اور بنانے والے حقیقی خالق ومالک کے سپرد کردی۔“
حضرت داتا گنج بخش علی ہجویریؒ نے حضرت شیخ ابو الفضل ختلیؒ کے علاوہ،دو بزرگ (جن کا شمار اپنے زمانے کے باکمال علماءواولیاءاللہ میں ہوتا تھا)ابو سعید ابو الخیرؒاور امام ابو القاسم قشیریؒ سے بھی خصوصی فیض حاصل کیا۔آپؒ حضرت امام ابو حنیفہؒ کے مقلد تھے۔اور اپنے میںدل اُن کیلئے بے حد محبت اور عقیدت رکھتے تھے۔
حضرت داتا گنج بخش علی ہجویریؒ ....اپنی زندگی کا ایک خاص اور سبق آموز واقع بیان فرماتے ہیں کہ”ایک مرتبہ میں عراق میں تھا ۔مجھے دنیا کمانے اور خرچ کرنے میں بڑی دلیری اور جرا ت حاصل ہوگئی ،حتیٰ کہ جس کسی کو کوئی بھی ضرورت پیش آتی تو وہ میرے پاس چلا آتااور میں اسکی ضرورت پوری کردیتاکیوں کہ میں چاہتا تھا کہ کوئی بھی شخص میرے ہاں سے خالی ہاتھ واپس نہ جائے۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ میری اپنی کمائی اس غرض سے کم پڑنے لگی اور دوسروں کی ضروریات پوری کرنے کی غرض سے مجھے قرض لینا پڑتا،یوں میں چند ہی دنوں میں خاصا مقروض ہوگیااور سخت پریشانی کا شکار ہوگیا۔اُس دور کے ایک بزرگ نے میرے احوال کو دیکھتے ہوئے مجھے نصیحت فرمائی کہ دیکھو!یہ تو ہوائے نفس ہے ۔اِس قسم کے کاموں میں پڑ کر کہیں خدا سے دور نہ ہو جانا۔جو ضرورت مند ہے اس کی احتیاج تو ضرور پوری کرو۔مگر پروردگارِ عالم کی ساری مخلوق کے کفیل بننے کی کوشس نہ کرو۔کیوں کہ انسانوں کی کفالت کا فریضہ خودربِ قدوس نے انجام دینا ہے۔مجھے اُس بزرگ کی نصیحت سے اطمینانِ قلب حاصل ہوا ۔“ 
آپؒ کی ازدواجی زندگی کے بارے میں تاریخ کے ورق صرف اتنا ہی بتاتے ہیں کہ آپؒ رشتہءازدواج میں منسلک ہوئے تھے مگر تھوڑے ہی عرصہ کے بعد بیوی سے علیحدگی ہوگئی۔اورپھر تاحیات دوسری شادی نہ کی۔بہ اختلاف روایت432ھ میں مرشد کریم حضرت شیخ ابو الفضل ختلیؒنے حضرت داتا گنج بخش علی ہجویریؒکو حکم فرمایا کہ علی !تم لاہور روانہ ہو جاﺅ وہاں تمہاری شدید ضرورت ہے ۔سر زمینِ ہند تمہارا انتظار کر رہی ہے اور تمہارے فیض کا سلسلہ لاہور ہی جاری ہوگا آپؒ نے ایک لمحے کے توقف کے بعد مودبانہ انداز سے عرض کیا کہ حضور !وہاںتو ہمارے پیر بھائی اور آپؒ کے مریدِ کامل حضرت میراں حسین زنجانیؒ موجود ہیں۔اُن کے ہوتے ہوئے میری وہاں کیا ضرورت ہو سکتی ہے؟شیخ ابو الفضل ختلیؒ قدرے مسکرائے اور فرمایاکہ یہ تمہارے سوچنے کا کام نہیں بس تم فوراََ روانہ ہو جاﺅ اور دین اسلام کی ترویج واشاعت کا کام کرو۔
آپؒ نے اپنے پیرومرشد کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اپنے وطن غزنی کو خیر باد کہا اور دینِ اسلام کی تبلیغ کا بے مثل شوق لیے کئی مہینوں کے دشوار گزار کٹھن سفر کے بعد لاہور پہنچے ۔شہر کے داخلی دروازے تک پہنچتے پہنچتے شام ہو گئی شہر کی حفاظت کے پیش نظرداخلی دروازے شام کو بند کردیئے جاتے تھے اِس لیے آپؒ کو اپنے دیگر ساتھیوں اور مسافروں کے ہمراہ ،رات بیرونِ شہر ہی بسر کرنی پڑگئی ۔جب صبح ہوئی تو شہر کی جانب روانہ ہوئے ابھی چند ہی قدم چلے تھے کہ سامنے سے ایک بہت بڑا ہجوم آتا ہوا نظر آرہا تھاقریب آئے تو معلوم ہوا کہ یہ ایک جنازہ ہے ۔غزنی سے نو وارد مسافروں نے دریافت کیا تو پتا چلا کہ یہ حضرت شیخ میراں حسین زنجانیؒکاجنازہ ہے ۔یہ سن کر آپؒ دم بخود ہوگئے اور بے اختیار آپؒ کی زبان مبارک سے نکلا کہ ”اللہ شیخ کو جزائے خیر دے ،وہ واقعی روشن ضمیر تھے۔“جب جنازے کے شرکاءنے آپؒ کا یہ عجیب فقرہ سنا تو استفسار کیا ۔آپؒ نے انہیں پورا واقعہ سنا دیا۔جب لوگوں کو پتا چلا کہ آپؒ حضرت شیخ حسین زنجانیؒ کے پیر بھائی ہیں تو انہوں نے جنازہ پڑھانے کا اصرار کیا اوریوں آپؒ نے پہلے جنازہ پڑھایا اور پھر تدفین کے عمل سے فارغ ہوکرشہر کی جانب روانہ ہوئے۔ اور پھر لاہور میں مستقل سکونت اختیار فرمائی۔یہاںمسلمانوں کو استحکام حاصل کیے کچھ ہی عرصہ ہوا تھا،ہر طرف ہندومذہب کے پیرو کار اور پیشواﺅں کا دور دورہ تھا۔مگر آپؒ کی،شریعتِ مطہرہ کی پابند،بے داغ اور دلکش سیرت،اور شفقت ومحبت سے بھرپور شخصیت ....لوگوں کو کفرو شرک کی دلدل سے نکال کر ”صراطِ مستقیم“ کی طرف گامزن کرنے کی باعث بنی۔فقط رضائے الہٰی کی خاطر آپؒ نے خلوصِ دل سے دین کی ترویج واشاعت کا بیڑہ اُٹھایا،اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے آپؒ کے ارشاداتِ عالیہ اور مواعظِ حسنہ کی اثر انگیزی سے لوگوں نے اسلام کی حقانیت کو سمجھتے ہوئے جوق درجوق دائرہءاسلام داخل ہونے اورآپؒ کے دستِ حق پرست پر بیعت ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔شاعرِ مشرق اور اپنے دور کے مردِ قلندرحضرت علامہ ڈاکٹر محمد اقبالؒ نے اسی تناظر میں فرمایا تھا کہ
نگاہِ ولی میں وہ تاثیر دیکھی
بدلتی ہزاروں کی تقدیر دیکھی
یہی وجہ ہے کہ حضرت داتا گنج بخش علی ہجویریؒ کے حسنِ اخلاق اور مزاجِ کریمانہ اورنگاہِ فیض کے باعث جو خوش قسمت لوگ آپؒ کے دستِ حق پرست پر مشرف بہ اسلام ہوئے،وہ نہ صرف خود ،تادمِ واپسیں،دامنِ مصطفےٰ تھامتے ہوئے ”شجرِ اسلام“سے وابستہ اور اُس پہ قائم رہے،بلکہ اُن کی نسلیں بھی تقریباََ ساڑھے نوسو سال گزرنے کے باوجود اسلام پر قائم ودائم ہیں۔ایسا کیوں نہ ہوتا....کہ آپؒ ایک ایسے مردِکامل،صوفی با صفائ،درویش اور بزرگ تھے،جن کے پاس نہ تو کوئی خزانہ تھا ،نہ سپاہ....نہ دنیاوی وسائل اور نہ ہی جاہ وحشمت!کہ جس سے لوگ مرغوب ہو کرآپؒ کے پاس آتے....بس آپؒ اپنے” مصلہ “پربیٹھے ہوئے ہمہ وقت اپنے حقیقی خالق ومالک کی یاد میں مصروف رہتے تھے۔اور ،ریاکاری سے پاک ،اخلاص کے ساتھ کی جا نے والی عبادت وریاضت کی وجہ سے ربِ قدوس کے انوار وتجلیا ت کے نزول کے باعث،اللہ رب العزت نے آپؒ کو وہ شان عطا فرمائی کہ لوگ آپؒ کے پاس کھچے کھچے آتے اور آپؒ کے نورانیت سے بھرپور چہرہءانور کو دیکھ کر ایمان کی دولت سے مالا مال ہوجاتے تھے۔
آپؒ کی نگاہِ فیض کا اظہارخواجگانِ چشت کی آنکھوں کی ٹھنڈک غریب نواز حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ نے بھی فرمایا ۔جب ایک بار خواجہ غریب نوازؒ لاہور تشریف لائے اور حضرت داتا گنج بخش علی ہجویریؒ کے مزارِ اقدس پر حاضری دی اور ایک حجرہ میں چالیس دن کا چلہ کاٹا اور عبادت وریاضت میں مصروف رہے،اِس دوران حضور داتا صاحبؒ نے جو فیوض برکات کی بارش آپؒ پرکی ،اس کا اندازہ خواجہ غریب نواز ہی لگا سکتے ہیں۔جب خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ چلہ سے فارغ ہو کر رخصت ہونے لگے تو بے ساختہ خواجہ غریب نوازؒ کی زبان مبارک پر داتا علی ہجویریؒ کیلئے بطورِ خاص یہ شعر جاری ہواکہ
گنج بخش فیضِ عالم مظہرِ نور خدا
نا قصاں را پیرِکامل کاملاںرارہنما
اس مردِ خدا کی زبان مبارک سے نکلا ہوا یہ شعر اِس قدر زبان زدخاص وعام ہوا کہ کہ جس کی گونج چہار سو پھیل گئی۔اور لوگ آپؒ کے آستانہ سے فیض پانے لگے۔
حضرت داتا گنج بخش علی ہجویریؒ....نماز کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں کہ”نماز ایسی عبادت ہے ،جو شروع سے آخر تک اللہ تعالیٰ کی راہ میں اس کے چاہنے والوں کی رہنمائی کرتی ہے۔وہ ہمیشہ اسی میں مشغول رہتے ہیںاُن کے مقامات اسی سے ظاہر ہوتے ہیں۔اللہ تعالیٰ کے چاہنے والوں کی طہارت توبہ ہے۔قبلہ کی طرف منہ کرنا‘ان کا پیرِ طریقت سے تعلق ہے۔قیام‘ ان کا مجاہدہ ہے۔قرآت‘ان کا دائمی ذکر ہے۔رکوع‘ان کی عاجزی ہے۔سجود‘ ان کے نفس کی پہچان ہے۔تشہد‘ان کی اللہ تبارک وتعالیٰ سے دوستی ہے۔سلام‘ان کی دنیا سے علیحدگی اور مقامات کی قید سے باہر نکلنے کا نام ہے۔
حضرت داتا گنج بخشؒ....علم ومعرفت کے ہزاروں دیئے جلاکر.... آخر کار 19صفر 465ھ،1087ءکووصال فرما گئے۔آپؒ کا سالانہ عرسِ مقدس 19صفر کو انتہائی عقیدت واحترام اور شایانِ شان طریقے سے منایا جاتا ہے جس میں نہ صرف پاکستان بھر سے بلکہ بیرون ممالک سے بھی آپؒ کے عقیدت مندوں کی کثیر تعداد شرکت کرنے کا شرف حاصل کرتی ہے۔اور فیض پاتی ہے۔