۔داتا اور منگتا

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع مارچ 20, 2020 | 18:40 شام

باجی بھوکا ھوں کھانا کھلا دو !!!
وہ دروازے پر کھڑا روٹی مانگ رہا تھا ....کل کے دن کا بچا ہوا سالن اور روٹی اس کے ہاتھ میں پکڑا کے اس نۓ سوچا کہ بہت بڑی نیکی ہے یہ کسی بھوکے کو کھانا کھلانا چلو آج کہ دن کی نیکی لکھی گئی ......
دروازہ بند کرتے ہوۓ جیسے ھی وہ واپس آ ئی اس منگتے نۓ لفافہ واپس کرتے ہوۓ عجیب سی بات کی ....

"font-family:Times New Roman,Times,serif">اللّه کے دیے میں سے دیتی تو من و سلو ی پھر سے جاری ھو جاتا .....

خیر ھو بچے !!! جو دے اس کا بھی بھلا جو نہ دے اس کا بھی بھلا .......

میں نۓ کہا رزق تو رزق ہے ایسے بےحرمتی ہوتی ہے اس کی ....
وہ عجیب مجنون سی آواز میں ہنسنے لگا اور کہنے لگا ...
رزق کی صرف ایک قسم نہیں ہے ...بات ساری امین بننے کی ہے یا داتا بننے کی جو کہ بندہ مشکل سے ھی بنتا ہے ....
کبھی کبھی داتا منگتا بن کے آ جاتا ہے اور کبھی منگتا داتا بن جاتا ہے ....
اسے ایک دم اس فقیر سے خوف آنے لگا ...
پر وہ اپنی ھی مستی میں بولتا گیا
اللّه سب سے بڑا داتا ہے ...
اس سے اچھا کوئی عادل نہیں ..رازق نہیں ...
وہ ہمیشہ اپنے سب بندوں کو سب کچھ دیتا ہے ...
بندہ اترن دیتا بچا ہوا کھانا دیتا اور کھوٹے سکے دیتا اور سمجھتا کہ داتا بن گیا ....
نہیں ...بلکل نہیں ....
ذرا سوچ !!!!!
کہ اس داتا کی تقسیم کتنی اعلی ہے ...
وہ ہر جاندار کو انسان کو حشرات کو اس کی طبیعت مزاج اور جسمانی ساخت کے لحاظ سے رزق عطا کرتا ہے ...کس کو کیا دینا ہے کس کو کب کتنا دینا ہے وہ سب جانتا ہے
اس کے رنگ ھی نرالے ہیں وہ انسان کو راضی کر لیتا ہے ...ویسے ھی بلکل جیسے ماں بچے کو کر لیتی ہے .....
بندہ بندے نو راضی نہیں کر سکدا
اور انسان ....!!!
انسان کیا کرتا ہے ...پسند کی چیز خود کے لئے اور نہ پسندیدہ چیز دوسروں کے لئے ....
انّ اللّه یرزق من یشا ء بغیر ِِ حساب .....
بیشک اللّه بہترین اور بے حساب رزق دینے والا ہے ..
.انسان کی حرص کا پیالہ ھی نہیں بھرتا ....پیالہ توڑ دے جو وہ داتا بن جاتا ہے ....
خالی جھولی ھو تو کچھ گرنے کا اندیشہ ختم ھو جاتا ہے ...
انسان بے نیاز ھو جاتا ہے
اور جانتی ھو نہ بےنیازی کس کی صفت ہے ..
اس داتا کی ......
صفت اپنا اگر داتا بننا ہے تو ..اپنا آپ چھوڑ ...
اس نۓ آسمان کی طرف انگلی سے اشارہ کیا
اور میں دم بہ خود ، اپنی کھوکلی نیکیوں کا گوشوارہ گننے میں مصروف تھی ...
ذہن کئی سال پیچھے گھوم گیا جب سپارہ پڑھانے والی اماں بی نۓکہا تھا ایک دفعہ..
کہ بیٹا اگر ہم انسان اللّه کی ننانوے صفات میں سے کسی ایک صفت کو ھی اختیار کر لیں تو مومن بن سکتے ہیں ....

انسان نیکی بھی خالصتا نہیں کرتا حسابی کتابی رہتا ہمیشہ اور پھر سمجھتا کہ وہ داتا بن گیا ...
داتا بننا آسان نہیں ....
اماں بی نۓ کہا تھا کہ اللّه انسانوں کے روپ میں اپنے بندوں کو آزما ۓ گا کہ دیکھوں کون میری صفت کو اپناتا ہے اور کون نہیں...
وہ اپنے خیالوں میں گم تھی کہ اچانک اس فقیر کی آواز آ ئی ...
سب دا بھلا سب دی خیر
جو دے اس کا بھی بھلا جونہ دے اس کا بھی بھلا ...
اتنی بےنیازی تھی اس کے ِِالفاظ میں اور وجود میں ......
کہ میں سوچتی ھی رہ گئی کہ وہ داتا تھا یا منگتا .........