ڈان کا رپورٹر سرل فوج کی طرف سے کلیئر،حکومت کس کو بچا رہی ہے؟ خبر درست تھی

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع اکتوبر 12, 2016 | 07:37 صبح

اسلام آباد(مانیٹرنگ) اعلی عسکری ذرائع کا کہنا ہے کہ ہم نے خبر دینے والے کے خلاف کارروائی کا نہیں کہا نہ ہی کسی کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا کہا ہے۔ہمیں اعتراض یہ ہے کہ اتنی حساس خبر، اتنے حساس اور اہم اجلاس سے باہر کیسے آئی؟ ہمارا مطالبہ ہے کہ جس نے خبر لیک کی، اس کا پتا چلایا جائے اور اس کے خلاف ایکشن لیا جائے۔جیو نیوز کےمطابق عسکری ذرائع کا کہنا تھا کہ ہم نے ایک دفعہ بھی نہیں کہا کہ ہمیں انگریزی اخبار اور صحافی سرل المیڈا پر اعتراض ہے، ہمارا اعتراض صرف یہ ہے کہ اتنی حساس خبر، اتنے حساس اور

اہم اجلاس سے باہر کیسے آئی؟ہمارا اعتراض ہے کہ خبر کو توڑ موڑ کر کیوں پیش کیا گیا؟ ہمارا مطالبہ ہے کہ جس نے خبر لیک کی، اس کا پتا چلایا جائے اور اس کے خلاف ایکشن لیا جائے۔

 

اس سے یہ تو ثابت ہوتا ہے کہ خبر درست تھی۔رپورٹر کے اپنے ذرائع ہوتے ہیں عموماً رپورٹر اسے خبر دینے والے کانام نہیں بتاتے۔ایسے ذرائع رپورٹر کو کبھی اپنے مقاصد کے بھی استعمال کرتے ہیں اسی لئے اندر کی بات بتا دیتے ہیں۔فوج کی طرف سے بھی میڈیا کے کچھ لوگوں تک اندر کی باتیں پہنچائی جاتی ہیں۔سرل کو اندر کی کہانی کسی بڑے حکومتی سیاستدان نے براہِ راست یا بالواسطہ بتائی ہوگی۔دس منٹ کی تحقیق سے یہ مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔رپورٹر کورٹ اور اپنے ایڈیٹر کو اپنے ذرائع سے آگاہ کرنے کا پابند ہے ۔اب تک حکومتی اور فوجی قیادت کو معلوم ہوچکا ہوگا کہ رپورٹر کا مخبر کون ہے۔فوج اس کے خلاف کارروائی چاہتی ہے۔پاکستان میں اگر کہا جائے کہ وزیر اعظم اور صدر بھی کسی کے ذرائع میں شامل ہیں یا رہے ہیں تویہ کوئی انکشاف نہیں ہے۔

یہ سب 3اکتوبر کو پارلیمانی رہنماﺅں کی کانفرنس کے روز وزیراعظم کی زیر صدارت اعلیٰ سطح کا الگ اجلاس ہواجس میں کابینہ کے کچھ لوگ، جنرل رضوان اور سیکرٹری خارجہ بھی موجود تھے۔صورتحال کو بہتر سمجھنے کیلئے اس رپورٹ پربھی نظر ڈال لیں۔”پارلیمانی رہنماﺅں کی کانفرنس کے دوران خفیہ میٹنگ میں وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف اور ڈی جی آئی ایس آئی کی نوک جھونک کے بعد حکومت نے انتہائی محتاط اور غیر روایتی انداز میں عسکری قیادت پر پاکستان کی عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی تنہائی واضح کرتے ہوئے کئی اہم ترین معاملات پر معاملات پر کارروائیوں کے لئے زور دیا ہے۔

انگریزی اخبار”ڈان“ کے مطابق پیر کے روز ہونے والی پارلیمانی رہنماﺅں کی کانفرنس کے علاوہ ایک خفیہ میٹنگ بھی ہوئی جس میں کم از کم دو امور پر اتفاق کیا گیا۔
نمبر ایک، ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر وزیراعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی ناصر جنجوعہ کے ساتھ چاروں صوبوں کا دورہ کریں اور ایپکس کمیٹیوں اور انٹر سروسز انٹیلی جنس کے سیکٹر کمانڈرو کو پیغام پہنچائیں کہ فوج کے زیر کنٹرول کام کرنے والی خفیہ ایجنسیاں کالعدم تنظیموں کے خلاف قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارروائیوں میں مداخلت نہ کریں، ڈی جی آئی ایس آئی اپنے اس دورے کا آغاز لاہور سے کریں۔
نمبر 2 یہ کہ وزیراعظم نوازشریف پٹھان کوٹ حملے کی تحقیقات کو حتمی نتیجے تک پہنچانے کیلئے اقدامات کا حکم دیں اور ممبئی حملہ کیس سے متعلق انسداد دہشتگردی راولپنڈی کی عدالت میں دوبارہ کارروائی شروع کی جائے۔
اخبار نے اس اہم ترین اجلاس میں شریک رہنماﺅں کی گفتگو کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ دونوں بڑے فیصلے وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور ڈی جی آئی ایس آئی کے درمیان زبردست بحث کے بعد کئے گئے اور یہ مسلم لیگ ن کی حکومت کی نئی حکمت عملی کے بھی مظہر ہیں۔
اخبار کے مطابق اسی روز سیکریٹری خارجہ اعزاز چودھری نے وزیراعظم ہاﺅس میں سول اور عسکری حکام کو الگ الگ بریفنگز بھی دیں۔
وزیراعظم کی زیر صدارت اجلاس میں کابینہ ارکان، صوبائی حکام بھی شریک تھے جبکہ عسکری نمائندوں کی قیادت ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹننٹ جنرل رضوان اختر نے کی۔
سیکریٹری خارجہ نے پاکستان کی جانب سےحالیہ سفارتی کوششوں کے نتائج سے مختصر طورپر آگاہ کیا ، انہوں نے بتایا کہ پاکستان کو عالمی سطح پر سفارتی تنہائی کا سامنا ہے اور حکومت پاکستان کے موقف پر دنیا کے بڑے ملکوں نے بے اعتنائی کا اظہار کیا ہے امریکا کے ساتھ تعلقات میں بھی قدرے خرابی آئی ہے اور یہ مزید بڑھنے کا امکان بھی ہے کیونکہ امریکا پاکستان سے حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کررہا ہے جبکہ بھارت کی جانب سے بھی پٹھان کوٹ حملے کی تحقیقات اور کالعدم جیش محمد کے خلاف کارروائیوں کے مطالبات آرہے ہیں جبکہ چین نے پاکستان کے ساتھ تعاون جاری رکھنے کا اعادہ کیا تاہم پاکستان کی ترجیحات میں تبدیلی کا اشارہ بھی دیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ خاص طور پر جب چینی حکام نے جیش محمد کے رہنما مسعود اظہر پر اقوام متحدہ کی پابندی کے خلاف تکنیکی اعتراض برقرار رکھنے پر آمادگی ظاہر کی تو ساتھ ہی انہوں نے یہ سوال بھی کیا کہ بار بار ایسا کرنے کی منطق کیا ہے؟
”ڈان“ کے مطابق اس بریفنگ کے بعد ڈی جی آئی ایس آئی اور سول حکام کے درمیان غیرمعمولی تبادلہ خیال ہوا۔

 


ڈی جی آئی ایس آئی نے سوال اٹھایا کہ پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا ئی سے بچانے کے لیے کیا اقدامات کیے جاسکتے ہیں؟
جس پر اعزاز چوہدری نے جواب دیا کہ عالمی برادری کا سب سے اہم مطالبہ یہ ہے کہ جیش محمد، مسعود اظہر، حافظ سعید ,لشکر طیبہ اور حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کی جائے۔
اس جواب پر ڈی جی آئی ایس آئی نے کہاکہ حکومت جسے ضروری سمجھتی ہے اسے گرفتار کرے۔
تاہم یہ واضح نہیں کہ انہوں نے یہ بات مذکورہ افراد اور تنظیموں کے حوالے سے کہی یا پھر عمومی طور پر کالعدم تنظیموں کے ارکان سے متعلق بات کی تاہم اس بات کے دوران وزیراعلی پنجاب شہباز شریف کی جانب سے غیرمتوقع طور پر مداخلت ہوئی اور انہوں نے ڈی جی آئی ایس آئی سے کہا کہ جب بھی سول حکام ان گروپوں کے خلاف کارروائی کرتے ہیں، سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ پس پردہ ان کی رہائی کی کوششیں شروع کردیتی ہے۔
شہباز شریف کی اس بات نے شرکا کو حیران کردیا ،کشیدگی کم کرنے کے لئے وزیراعظم نوازشریف نے مداخلت کی اور ڈی جی آئی ایس آئی کو مخاطب کرتے ہوئے بولے کہ ماضی میں جو کچھ ہوتا رہا وہ ریاستی پالیسیاں تھیں اور ڈی جی آئی ایس آئی کو موجودہ صورتحال کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جارہا۔
میٹنگ میں شریک شخصیات کے مطابق وزیراعلیٰ پنجاب کی یہ مداخلت انتہائی غیر متوقع تھی جس کے بعد ہی دونوں اہم فیصلے بھی ہوئے۔