رسول خداﷺ کے وہ دو خطوط جنہوں نے دنیا کی دو بڑی سلطنتوں کی تقدیر کا فیصلہ کیا

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع جون 07, 2018 | 00:23 صبح

لاہور(سید اسامہ اقبال) اللہ کے رسول ﷺ کا نامہ مبارک شہنشاہ فارس کسریٰ کو پہنچا تواس نے نہایت تکبر سے اسے پھاڑ دیا۔ اس نے اپنے ماتحت کو بلوایا اور کہا کہ فوراً میرے نائب یمن کے گورنر باذان کو خط لکھو کہ وہ یہ معلوم کرے کہ یہ شخص کون ہے جس نے اتنی بڑی جرأت کی ہے کہ مجھے خط لکھا اور میرے نام سے پہلے اپنا نام لکھ دیا۔ مزید برآں دو مضبوط اور توانا آدمی بھیجو اور اسے گرفتار کر کے میرے سامنے پیش کرو۔چنانچہ باذان نے اپنے دو نہایت ہی سمجھ دار آدمی روانہ کر دیے جن میں سے ایک اس کا

000cd">قہرمان (داروغہ ) تھا اور دوسرے کام نام خرخرہ تھا۔

انھیں حکم دیا کہ وہ رسول اللہ ﷺ کو گرفتار کر لائیں۔ یہ دونوں یمن سے طائف پہنچے۔ یہاں ایک قریشی سے ملے۔ اللہ کے رسولﷺ کے بارے میں پوچھا۔ اس نے بتایا کہ آپﷺ مدینہ میں ہیں۔ طائف کے لوگوں کو جب ان کے عزائم کا علم ہوا تو وہ بہت خوش ہوئے۔ کہ لو ، مسئلہ حل ہوگیا۔ محمدﷺ کو کسریٰ نے طلب کر لیا ہے۔ اب وہ خود ان سے نمٹ لے گا۔ قہرمان اور خرخرہ مدینہ پہنچے۔

یہ دونوں بڑے ہٹے کٹے تھے۔ لمبی لمبی مونچھیں رکھی ہوئی تھیں۔ داڑھی بالکل منڈائی ہوئی تھی ۔ یہ اللہ کے رسول ﷺ کے پاس پہنچے۔ آپﷺ نے ان کی ہیئت کذائی دیکھی تو منہ پھیر لیا۔ قہرمان نے کہا ’’ شہنشاہ کسریٰ کے حکم پر باذان بادشادہ نے ہمیں آپﷺ کو گرفتار کرنے کا حکم دیا ہے"۔

چنانچہ میں آپ کو لینے آیا ہوں ۔ اگر آپ ﷺ میرے ساتھ چلتے ہیں تو پھر وہ شہنشاہ کسریٰ کو سفارش کرے گا کہ آپ کو کچھ نہ کہا جائے۔ اور آپﷺ کو کچھ عطا بھی کردے۔ اور اگر آپﷺ نے جانے سے انکارکیا تو پھر آپ اسے خوب جانتے ہیں۔ وہ آپﷺ کو اور آپ کی قوم کو تباہ و برباد کردے گا۔ آپﷺ کی بستیاں ویران کردے گا۔  ان کی شکل و صورت دیکھ کر آپﷺ نے شدید نفرت کا اظہار کیا او چہرے کی طرف اشارہ کرکے فرمایا ’’تمہارا ستیاناس ہو، تمہیں داڑھی منڈانے کا حکم کس نے دیا ہے ‘‘؟۔ 

انہوں نے کہا ’’ ہمیں ہمارے آقا کسریٰ نے حکم دیا ہے ‘‘ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا : ’’مگر میرے رب تعالیٰ نے مجھے داڑھی بڑھانے اور مونچھیں کٹوانے کا حکم دیا ہے۔ ‘‘

آپﷺ نے فرمایا ’’ میرے پاس کل آنا ‘‘ رات کو اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو وحی کے ذریعے بتلادیا کہ فلاں ماہ کی فلاں تاریخ کو رات کے وقت کسریٰ کے بیٹے شیرویہ نے اپنے باپ کو قتل کرکے اقتدار پر قبضہ کرلیا ہے۔ اگلے دن وہ دونوں پھر آئے۔ آپ ﷺ نے ان کو وحی الٰہی کے مطابق بتایا کہ تمہارے شہنشاہ کو اس کے بیٹے نے منگل 10جمادی الاولی 7ہجری کی رات کے چھ گھنٹے گزرنے کے بعد قتل کر کے حکومت خود سنبھال لی ہے۔ وہ دونوں حیران رہ گئے۔ بے ساختہ کہنے لگے ’’ آ پ ﷺ کو معلوم بھی ہے کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں ؟‘‘

آپﷺ نے فرمایا: ’’میرے رب نے تمہارے رب کو ہلاک کر ڈالا ہے۔ ‘‘ 

انہوں نے کہا ’’ ہم ابھی بادشاہ باذان کو لکھے دیتے ہیں‘‘۔ فرمایا’’ ہاں، اس کو میرے طرف سے یہ خبر پہنچا دو اور لکھ دو کہ میرا دین اور میری حکومت وہاں تک پہنچ کر رہے گی جہاں تک کسریٰ پہنچ چکا ہے۔ بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر اس جگہ رکے گی جہاں سے آگے اونٹ اور گھوڑے کے قدم جاہی نہیں سکتے (وہاں سے آگے سمندر ہے)۔ تم دونوں اس سے یہ بھی کہہ دینا: اگر تم مسلمان ہوجاؤ تو جو کچھ تمہارے زیر اقتدار ہے وہ سب میں تمہارے ہی پاس رہنے دوں گا اور تمہیں تمہاری قوم کا بادشاہ بنا دوں گا‘‘۔ 

دونوں فوراً وہاں سے واپس یمن پہنچے اور باذان کو اپنے دورۂ مدینہ کی مکمل رپورٹ پیش کی۔ ابھی یمن میں کسریٰ کے قتل کی خبر نہیں پہنچی تھی۔ باذان یہ سن کر کہنے لگا ’’ اللہ کی قسم ! یہ گفتگو کسی بادشاہ کی نہیں ہے۔ میرے خیال میں یہ شخصیت واقعی نبی ہے۔ اور جو اس نے کہا ہے وہ سچ ثابت ہوگا۔ اور اگر اس کی خبر کی تصدیق ہوجاتی ہے تو بلاشبہ وہ نبی ہے اور اگر اس خبر کی تصدیق نہیں ہوتی تو پھر اس کے معاملہ کو دیکھیں گے‘‘ 

اس دوران باذان کے پاس شیرویہ کا خط پہنچا۔ جس میں لکھا تھا’’ میں نے اپنے بات کسریٰ کو اہل فارس سے اس کی بدسلوکی ، ذلت آمیز رویے ، اور شرفاء کے قتل کی پاداش میں ہلاک کر دیا ہے۔ میرا یہ خط ملنے پر میری اطاعت اور فرما برداری کرو اور میری حکومت تسلیم کرو۔ اور ہاں ! جس شخص کے بارے میں میرے باپ نے تمہیں لکھا تھا کہ اسے گرفتار کرکے پیش کرو، اس کے معاملے کو میرے اگلے حکم تک مؤخر کرو۔ ‘‘

باذان نے شیرویہ کا یہ مکتوب پڑھا تو بے اختیار کہنے لگا’’ یہ مدینے والا شخص بلاشبہ اللہ کا رسول ہےﷺ‘‘ چنانچہ اس نے اسلام قبول کر لیا۔ بلکہ اس کے ساتھ اس کی اولاد اور دیگر فارسی لوگ جو وہاں مقیم تھے وہ بھی مسلمان ہو گئے۔

امام ابن کثیر ؒ نے اپنی مایہ ناز کتاب البدایہ والنہار میں لکھا ہے ‘‘کہ قہرمان نے باذان سے ایک بڑی عجیب بات کہی۔ اس نے کہا’’ میں بڑا مشہور سفارت کار ہوں ۔ آج تک میں کسی سے گفتگو کرتے ہوئے مرعوب نہیں ہوا۔ مگر جب میں نے محمدﷺ سے بات کی تو میں سخت مرعوب ہوگیا‘‘ باذان کہنے لگا ’’ کیا اُن (ﷺ) کے پاس پولیس ، خدام یا محافظوں کی فوج تھی ؟‘‘ کہنے لگا ’’نہیں، بالکل نہیں۔ اُن کے پاس ایک محافظ بھی نہیں تھا‘‘۔ 

اللہ کے رسول ﷺ نے کسریٰ کی حکومت کے پارہ پارہ ہونے کے بارے میں جو پیش گوئی کی تھی وہ من و عن پوری ہوئی۔ تاریخ بتاتی ہے کہ اس کے بیٹے کی حکومت محض چھ ماہ تک چلی۔ اس کے بعد چار سال کے عرصے میں دس بادشاہ اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھے بالآخر لوگوں نے یزد گر پر اتفاق کیا۔ جس نے حکومت سنبھالی۔ یہ بنی ساسان کاآخری بادشاہ تھا۔ اس کے بعد مسلمانوں نے ایران فتح کرلیا۔ 

امام بخاری اور امام مسلم دونوں نے ابو ہریرہؓ سے روایت کی ہے کہ اللہ کے رسول نے ارشادفرمایا ’’جب یہ کسریٰ ہلاک ہوجائے گا تو اس کے بعد کوئی اور کسری نہیں ہوگا۔اس ذات کی قسم ! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ان کے خزانے اللہ کی راہ میں خرچ کیے جائیں گے۔ ‘‘ 

امام شافعی ؒ فرماتے ہیں کہ کسریٰ کے پاس اللہ کے رسول کا نامہ مبارک پہنچا تو اس نے اسے چاک کردیا اور اللہ نے اس کی حکومت پارہ پارہ کر دی۔ مگر اس وقت کی دوسری بڑی طاقت کے سربراہ قیصر کے پاس نامہ مبارک گیا تو اس نے اس کا احترام کیا۔ اسے چوما ، اور خوشبومیں بسایا ۔ چمڑے کی تھیلی میں محفوظ کرلیا تو اس کی حکومت بچ گئی۔ 

صحیح مسلم میں جابر بن سمرہؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے پیشین گوئی فرمائی تھی کہ ’’مسلمانوں کی ایک جماعت کسریٰ کے خزانے اس کے سفید محل میں کھولے گی۔ ‘‘

حضرت جابرؓ کہتے ہیں ’’ میں اور میرے والد اس جماعت میں شامل تھے جنہوں نے کسریٰ کے خزانے کھولے۔ اور ہمیں ان میں سے ایک ہزار درہم بھی دیے گئے‘‘۔ 

بے شک اللہ کے رسول ﷺ نے اپنے وعدے کا ایفا فرمایا اور باذان کو اسلام قبول کرنے کے بعد یمن کی حکمرانی پر فائز رکھا۔