کیا آج بھی 65والا جذبہ و یکجہتی موجود ہے

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع ستمبر 06, 2017 | 08:19 صبح

حضرت ابوبکر صدیقؓ کا بیٹے سے مکالمہ مسلمانوں کےلئے دشمن کے ساتھ رویے کی ایک مثال بن گیا ۔ آپؓ نے فرمایا کہ اگر تم میری تلوار کی زد میں آجاتے تو خدا کی قسم میں تلوار چلانے سے گریز نہ کرتا۔ 65ءکی جنگ میں ایوب خان صدر تھے۔ انہوں نے دشمن کی للکار پہ دشمن کو للکارا۔ یہ فوجوں کی تعداد اور اسلحہ کی مقدار کے حوالے سے ممولے کو شہباز سے لڑانے کے مصداق تھا۔ دنیا نے پھر جذبہ جہاد سے سرشار فوج اور اسکی پشت پر کھڑی قوم کو سیسہ پلائی دیوار بنے دیکھا۔ میرٹ کہیں نہ کہیں اپنی زباں سے عیاں ہوتا ہے، ایوب خان ات

فاقیہ آرمی چیف جنرل افتخار کی حادثاتی موت کے بعد بنے، اس سے قبل قائداعظم نے ان سے متعلق ناپسندیدگی کا اظہار کیا تھا۔ میجر جنرل افتخار کو آرمی چیف نامزد کیا گیا تھا مگر وہ ایک جہاز میںکریش ہوگئے۔ ایوب خان نے ٹیک اوور کیا، 65ءکی جنگ میں فوج کی معرکہ آرائی لاثانی رہی یہ جنگ انڈیا نے شروع کی تھی پاکستان اس جنگ میں دشمن کو نابود کرتا ہوا جنگ کے مرضی کے اختتام کی پوزیشن میں تھا مگر ایوب خان نے شاید جنگ کے اختتام کو اپنی اوقات سے بڑھ کر سمجھ لیا اور فوجوں کی پیش قدمی روک دی۔ بہرحال یہ ایک الگ ایشو ہے۔

65ءکی جنگ کبھی ختم نہیں ہوئی۔ عملاً پاکستان اور بھارت سیز فائر کی حالت میں رہے ہیں۔ بھارت نے اس جنگ کو مشرقی پاکستان میں بھڑکایا اور مرضی کے نتائج حاصل کرلئے مگر یہ جنگ اسکے بعد بھی نہیں رُکی، سیز فائر البتہ رہا۔ سیاچن پر قبضہ اور کارگل مہم جوئی سیز فائر کے دوران ہی ہوئی۔ سیاچن ہی پرکیا موقوف پاکستان کیخلاف کسی بھی محاذ پر بھارت کی سیاسی و عسکری قیادتوں کے ساتھ اپوزیشن بھی متحد ہوتی ہے۔ بھارت میں تو الیکشن بھی پاکستان دشمنی کی بنیاد پر لڑے اور جیتے جاتے ہیں۔ اِدھر اتحاد و اتفاق اور یکجہتی و یگانگت کی فضا 65ءجیسی نہیں رہی۔ کرگل مہم جوئی مشرف نے شروع کی۔ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوجاتے تو ہیرو قرارپاتے۔ وہ کامیاب نہیں ہوئے مگر پاک فوج کو شکست بھی نہیں ہوئی۔قوم اس سلسلے میں بے خبر اور سیاسی قیادت لاتعلق رہی۔ فوج اور حکومت ایک پیج پر تھے یا نہیں یہ بعد کا سوال ہے۔ حکومت کہتی ہے کہ وہ بھی قوم کی طرح کارگل مہم جوئی سے بے خبر تھی جبکہ فوج کی وزیراعظم کو دی جانیوالی بریفنگ کی فوٹیج سامنے آچکی ہیں۔ یہ معاملہ ایک معمہ اور بھجارت ہے۔ اُن دنوں اسی پارٹی کی حکومت تھی جو آج پھر اقتدار میں ہے اور تیسری بار ہے۔ گو وزیراعظم کا منصب میاں نوازشریف کی اہلیت کی نذر ہوچکا ہے مگر آج بھی پالیسیاں انکی چلتی ہیں۔ اقتدار اور اختیار کی نیا کے کھیون ناخداوہی ہیں۔

آج ہم ایک بارپھر یومِ دفاع تزک و احتشام سے منا رہے ہیں اور وہ بھی کچھ اچھے حالات میں نہیں۔بھارت کے جارحانہ عزائم کی سپورٹ اب امریکہ بھی کررہا ہے بلکہ امریکہ بھارت کی عینک سے پاکستان کو دیکھتا، اسکے کانوں سنتا اور بھارت ہی کی زبان بولتا ہے۔ پاکستان پر دہشتگردوں کو پناہ دینے، انکی سرپرستی کرنے اور ان کو پناہ گاہیں فراہم کرنے کے الزامات لگا کر پاکستان پر جنگ مسلط کرنے کی دھمکی دے چکا ہے۔ ٹرمپ نے پاکستان پر جوالزامات لگائے ان کو ڈان لیکس کے ساتھ ملا کر پڑھیں اور فرق واضح کرنے کی کوشش کریں۔

65ءجنگ میں پاک فوج کے کارہائے نمایاں کوپوری دنیا تسلیم کرتی ہے۔ آج جنگ میں بڑی جدتیں اور حدتیں آچکی ہیں۔ بنیادی اصول شاید وہی ہوں مگر اب مورچوں سے زیادہ ہیڈ کوارٹرز میں منصوبہ بندی اہم ہوگئی ہے۔ٹینکوں، توپوں کی اہمیت کم نہیں ہوسکتی مگر راکٹ، میزائل، بم اور ایٹم بم کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔ اب محاذ جنگ کے ساتھ ساتھ جدید ذرائع سے بھی جنگیں جیتی جاتی ہیں مگر اس اصول میں کوئی فرق نہیں آیا کہ جنگ قوم کے تعاون کے بغیر نہیں جیتی جاسکتی، بات جنگ کی ہورہی ہے کارگل جیسی مہم جوئی کی نہیں۔

آج ہمیں بدترین حالات کا سامنا ہے۔ بھارت نے پاکستان کے گرد اگر دشمنوں کا جال نہیں بن دیا تو پاکستان کے جانثار دوستوں کی تعداد بھی وہ نہیں رہنے دی۔ جن کی دوستی شہد سے زیادہ میٹھی، سمندروں سے گہری اور ہمالہ سے زیادہ بلند تھی وہ بھی بھارت کی ہاں میں ہاں ملا کر حقانی نیٹ ورک، لشکر طیبہ اور جیش محمد جیسی تنظیموں کیخلاف کارروائی کا مطالبہ کررہے ہیں۔ بیجنگ میں برکس کانفرنس میں یہی کچھ کہا گیا ہے۔ اس کانفرنس کی سب سے بڑی مضحکہ خیزی چین ، روس، بھارت ، برازیل اور جنوبی افریقہ کا پاکستان میں دہشت گرد تنظیموں کیخلاف اتفاق ہے، بھارت اب پاکستان میں دہشت گرد تنظیموں کےخلاف سرگرم ہوگا؟

حقانی نیٹ ورک کےخلاف کارروائی کا مطالبہ امریکہ کرتا ہے، برکس میں یہ کیسے آیا اور اعلامیہ کا کیونکر حصہ بن گیا؟۔ لشکر طیبہ اور جیش محمد مقبوضہ کشمیر میں حریت پسندوں کے ساتھ مل کر سامراج اور جارح و سفاک فورسز کےخلاف نبرد آزما ہیں ان کےخلاف کارروائی بھارت کا ایجنڈہ ہے وہ ان تنظیموں کے ساتھ ساتھ اپنی آزادی کیلئے سرگرداں کشمیریوں کو بھی دہشتگرد قرار دیتا ہے ۔ چین کل تک جیش محمد کی قیادت کے ساتھ تھا مگر آج....؟

کیا آج بھی بھارت کے عزائم کیخلاف پوری قوم متحد ہے۔حکومت اور فوج یکجا و یک جان ہیں؟ کم از کم بھارت کیخلاف قوم کے متحد ہونے میں دوسری رائے نہیں ہے، فوج بھارت کی سازشوں کی پاداش میں ایل او سی پر سویلین اور پورے ملک میں سکیورٹی اہلکاروں کی لاشیں اٹھا رہی ہے جبکہ بھارت کے ساتھ تجارت جاری ہے نفع و نقصان کی بات اہمیت کی حامل نہیں قومی غیرت اور حمیت کی اہمیت ہے۔ آپ ہزار بیان دے لیں کہ دشمن کیخلاف ہم متحد ہیں، سیسہ پلائی دیوار ہیں مگر آپکے عمل سے اس کا اظہار زیادہ ضروری ہے۔حضرت صدیق اکبر ؓ کا اپنے بیٹے سے مکالمہ ذرا دہرائیں۔ دشمن صرف دشمن ہے۔ جب قریش مکہ کے ساتھ راہیں جدا ہوئیں حق و باطل الگ الگ کھڑے ہوگئے۔ پھر دوستی اور رشتے ناطے نہ رہے۔ رشتوں کا معیار دین ٹھہرا، ایمان ٹھہرا، عشق مصطفوی ٹھہرا۔بس ایک دشمنی رہ گئی، اس وقت تک جب تک باطل پر حق غالب آگیا۔

ہمارے وزیراعظم مودی کو مبارکباد دینے انکے گھر چلے جاتے ہیں۔ ان کو ذاتی خوشیوں میں شامل کرتے ہیں۔ وہی مودی جو برملا اور فخریہ کہتا ہے میںنے پاکستان توڑنے میں بندوق اٹھائی تھی۔ سجن جندال آپ کا دوست کیسے ہوسکتا ہے؟ کہتے ہیںجندال دیرینہ دوست ہیں۔ دوستی اور دشمنی کا معیار صرف اور صرف پاکستان ہونا چاہیے، خصوصی طور پر پاکستان کے اقتدار کی زمام کار جب ہاتھ میں ہو۔ دشمن کیخلاف پاک فوج اور حکومت کا ایک پیج پر ہونا ناگزیر ہے ۔ یہ اگرچہ دو انتہاﺅں پر نہیں تو قربت یکجہتی اور یگانگت بھی کہاں ہے؟

اپنی نااہلیت پر سابق وزیراعظم طاقت اور عدلیہ کا گٹھ جوڑ توڑنے کا عزم ظاہر کررہے ہیں۔انکی پارٹی وزیراعظم کی نااہلی کا ذمہ دار فوج کو قرار دیتی ہے مگر انہی کی سرپرستی میں قائم حکومت کا کریڈٹ کس کو دیتی ہے؟ وزیر خارجہ اس شخص کو بنا دیا گیا جس کا فوج کے بارے میں جارحانہ رویہ رہا ہے۔ تجارت اور دفاعی امور میں کونسی مہارت مشترک ہے۔ کل تک کے وزیرتجارت بھارت کے ساتھ سرمایہ کاری و تجارت بڑھانے کےلئے کوشاں رہے۔ انہوں نے بھارت کو موسٹ فیورٹ نیشن قرار دینے کی خواہش کبھی نہیں چھپائی ان کو وزیردفاع لگا دیا گیا۔ وزارت دفاع اور وزارت خارجہ کا پاک فوج کے ساتھ کوآرڈی نیشن اولین ضرورت ہے۔ سابق وزیراعظم کے فوج کے بارے بیانات کو لیں، انکی طرف سے کابینہ میں شامل کرائے جانے والوں کی فوج پر زبان درازیاں دیکھیں۔ اگر پھر بھی دعویٰ کیا جائے کہ بھارت کیخلاف فوج حکومت اور قوم یکجہت ہے تو اللہ ہی حافظ ہے۔ البتہ قابل اطمینان پہلو یہ ہے کہ بھارت کے جارحانہ عزائم کےخلاف بلا امتیاز قوم یک آواز ہے۔