سائنس دانوں کے سامنے ٹائٹینک سے بھی بڑا راز

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع جنوری 04, 2017 | 18:22 شام

ڈنمارک (شفق ڈیسک) بحیرہ روم میں 2000 سال پہلے ایک جہاز ڈوبا۔ تفتیش کار جب سمندر کی گہرائی میں ملبے تک پہنچے تو وہاں ان کو ایک انسانی ڈھانچہ بھی ملا۔ کیا یہ ڈھانچہ بتدریج ترقی کی رازوں کھول سکے گا؟ یونان کے جزیرے اتھتھیرا کے ساحل کے پاس آثار قدیمہ کے ماہرین کو 2000 سال پرانا انسانی ڈھانچہ ملا۔ ڈھانچہ ملبے میں دبا تھا۔ اب تفتیش کار ڈھانچہ سے ڈی این اے نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اگر سائنسی کامیاب ہوئے تو یہ پتہ چلے گا کہ میت کے اجداد کون تھے اور اس ڈھانچہ کا انسان کون ہیں۔ اس کے بالوں اور آنکھوں کا رنگ بھی پتہ چلے گا۔ سمندر میں ڈھانچہ عام طور پر نہیں ملتے ہیں۔ سمندر کے اندر یا تو مچھلیاں انہیں کھا لیتی ہیں یا پھر لہریں انہیں بہاتے بہاتے پانی میں گھول دیتی ہیں۔ یہ پہلا موقع ہے جب اتنا پرانا ڈھانچہ صحیح سلامت ملا ہے۔ ڈھانچہ میں کھوپڑی بھی ہے، ہاتھ پاؤں اور پسلیاں بھی ہیں۔ ڈنمارک کے نیچرل ہسٹری میوزیم کے ڈی این اے ایکسپرٹ انیس شروڈر حیرانی سے کہتے ہیں۔ ایسا لگتا ہی نہیں جیسے ہڈیاں دو ہزار سال پرانی ہوں۔ مساچيسٹس کے اشتھانی فولی کے مطابق اب تک ہمارے بزرگوں کی طرف سے پیدا شدہ چیزوں کے ذریعے ہی انسان کی تاریخ پر تحقیق کر رہے ہیں۔ ڈھانچہ کے ملبے کے سہارے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ شخص باہر کی جانب نکلا تھا لیکن وہ اتھتھیرا جہاز میں مارا گیا اتھتھیرا جہاز کے ملبے کا پتہ پہلی بار سن 1900 میں چلا۔ جہاز کا ملبہ آج بھی سائنس دنیا کو حیران کرتا ہے. جہاز کے میکنزم کو دنیا کا سب سے پرانا کمپیوٹر کا نظام مانا جاتا ہے۔ اتھتھیرا میں نظام سورج، چاند اور ستاروں کی چال کا حساب لگتا تھا اور سمت اور موسم کا اندازہ لگاتے ہوئے آگے بڑھتا تھا۔ جہاز کے ملبے میں سنگ مرمر کی مجسمے، دستر خوان اور ہزاروں پینٹنگ بھی ملیں۔ ملبے میں ایک اور ڈھانچہ بھی ملا تھا۔ لیکن اس وقت ڈی این اے ٹیکنالوجی ایجاد نہیں ہوئی تھی۔