2019 ,اکتوبر 15
حصہ اول
لاہور (شفق رپورٹ) شادی کی رسومات میں ایک رسم جہیز ہے۔ یہ رسم البتہ ایسی ہے کہ اس کی اصل حیثیت میں اختلاف ہے کہ یہ واقعی دیگر غیر ضروری رسومات کی طرح ایک رسم محض ہے یا کسی لحاظ سے اس کا شرعی جواز بھی ہے؟
ہمارے نزدیک اس رسم کے دو پہلو ، دو رخ یا دو صورتیں ہیں۔ ایک صورت میں اس کا جواز ہے اور دوسری صورتوں میں ناجائز۔
لفظ جہیز دراصل عربی زبان کے لفظ ’’جھاز‘‘ سے نکلا ہے جس کا اطلاق اس سازو سامان پر ہوتا ہے جس کی ضرورت (مسافر کو دوران سفر یا دلہن کو نئے گھر سنبھالنے یا میت کو قبر تک پہنچانے کے لئے) ہوتی ہے۔
یہ باب تفعیل جھز یجھز تجھیزا سے مصدر ہے جس کے معنی ہیں سامان تیار کرنا، مہیا کرنا خواہ وہ کسی مسافر کے لئے، کسی دلہن کے لئے یا کسی میت کے لئے ہو۔ مثلاً حضرت یوسف علیہ السلام اور ان کے بھائیوں کے قصہ کے بیان میں قرآن مجید میں ارشاد ہوا:
وَلَمَّا جَهَّزَهُمْ بِجَهَازِهِمْ.
’’اور جب یوسف (علیہ السلام) نے ان کا سامان (زاد و متاع) انہیں مہیا کر دیا‘‘۔
(يوسف، 12: 59)
امام راغب اصفہانی نے مفردات القرآن میں یوں لکھا ہے:
الجهاز مايعد من متاع وغيره التجهيز حمل ذالک او بعثه.
جھاز اس سامان کو کہا جاتا ہے جو (کسی کے لئے) تیار کیا جاتا ہے اور اسی سے تجہیز ہے جس کے معنی ہیں اس سامان کو اٹھانا یا بھیجنا۔
(راغب اصفهانی، امام مفردات، القرآن، شيخ شمس الحق 338 اقبال تاؤن لاهور، س ن، 238)
اسلامی انسائیکلوپیڈیا کی روشنی میں جہیز وہ سازو سامان ہے جو لڑکی کو نکاح کے بعد اس کے ماں باپ کی طرف سے دیا جاتا ہے۔
(قاسم محمود، سيد، اسلامی انسائيکلوپيديا، الفضل تاجران کتب، اردو بازار لاهور، 756)
جہیز کی جائز صورت
البتہ جہیز کی ایک جائز صورت بھی ہے جس کا ذکر ساتویں شکل میں کیا گیا ہے اور وہ ہے تعاون، صلہ رحمی اور ہدیے(تحفے،عطیے) کے طور پر اپنی لڑکی کو شادی کے موقعے پر کچھ دینا۔
اسلام میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے کی بڑی فضیلت ہے، اس طرح ایک دوسرے کو ہدیہ، تحفہ دینے کی بھی ترغیب ہے۔ اور اگر تعاون یا ہدیے کا معاملہ اپنے قریبی رشتے داروں کے ساتھ کیا جائے تو اس کوصلہ رحمی کہا جاتا ہے اور اس کی بھی بڑی تاکید ہے اور اس کو دگنے اَجر کا باعث بتلایا گیا ہے۔
اس اعتبار سے اپنی بچی کو،اگر وہ واقعی ضرورت مند ہے یا بطورِتحفہ کچھ دینا، بالکل جائز، بلکہ مستحسن اور پسندیدہ ہے۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ
«جَهَّزَ رَسُولُ الله ﷺ فَاطِمَةَ فِي خَمِيلٍ وَقِرْبَةٍ وَوِسَادَةٍ حَشْوُهَا إِذْخِرٌ» (سنن نسائی: ۳۳۸۲)
’’رسول اللّٰہﷺنے(حضرت علیؓ کے پاس بھیجنے کے لیے) حضرت فاطمہؓ کو تیار کیا، ایک چادر، مشک اور تکیہ کے ساتھ جس میں اذخر گھاس بھری ہوئی تھی۔‘‘
’’حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جناب فاطمہ رضی اللہ عنہا کا جہیز تیار کیا ایک چادر، ایک مشکیزہ اور ایک تکیہ، جس میں اذخر گھاس بھرا ہوا تھا‘‘۔
(نسائی، احمد بن شعيب، امام، سنن نسائی، دارالکتب، العلمية، بيروت لبنان، 1991ء، رقم الحديث 3386)
حضرت علی و فاطمہ رضی اللہ عنہما کی شادی کا ذکر کرتے ہوئے مولانا شاہ معین الدین ندوی بحوالہ اصابہ لکھتے ہیں کہ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے شادی کی درخواست کی تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تمہارے پاس حق مہر کے لئے کیا ہے؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کچھ نہیں، آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے پوچھا تمہاری حطمی زرہ کہاں ہے؟ اسے فروخت کردو۔ چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنی زرہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ہاتھ 480 درہم میں فروخت کی۔ بعض روایات کی بنا پر جب عثمان رضی اللہ عنہ نے آپ کی زرہ خریدی اور بعد میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ہدیہ کردی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے زرہ کی قیمت لے کر رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پیش کردی، آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جناب ابوبکر رضی اللہ عنہ، سلیمان فارسی رضی اللہ عنہ اور بلال رضی اللہ عنہ کو بلوایا اور کچھ درہم انہیں دے کر فرمایا کہ اس رقم سے جناب فاطمہ رضی اللہ عنہا کے لئے گھر کی ضروری اشیاء خرید لائو اور اس میں سے کچھ درہم حضرت اسماء کو دیئے اور فرمایا کہ اس سے عطر اور خوشبو مہیا کرو اور جو درہم باقی بچے وہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس رکھ دیئے گئے۔
(ندوی، معين الدين، سيرالصحابة رضوان الله عليهم اجمعين، اداره اسلاميات لاهور، س ن، ج1، ص256)
آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چار صاحبزادیوں کی شادیاں کیں اور کسی کو بھی جہیز نہیں دیا، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو جو دیا تھا وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی دی ہوئی مہر معجل کی رقم میں سے تھا۔ اسی سے چند چیزوں کا انتظام فرمادیا، ایک چادر، ایک مشک اور ایک تکیہ اور بعض کتابوں میں ایک بستر کا بھی تذکرہ ملتا ہے۔ مزید برآں حضرت علی رضی اللہ عنہ کو سرور کائنات صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بچپن ہی سے اپنی سرپرستی میں لے لیا تھا اور وہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا زاد بھائی بھی تھے۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم بچپن ہی سے ان کی کفالت کرتے آئے تھے۔ اس لئے قدرتی بات تھی کہ نیا گھر بسانے کے لئے بطور سرپرست سامان کا انتظام کرتے سو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی زرہ سے یہ سامان فراہم کیا۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے زمانہ میں کہیں سے اس بات کا ثبوت نہیں ملتا کہ انہوں نے لڑکی والوں سے فرمائشی جہیز مانگا ہو یا اپنا فرضی حق سمجھ کر قبول کیا ہو، یا اس کو ضروری سمجھا ہو۔
امام غزالی نے لکھا ہے جس کا تذکرہ مشکوۃ میں ہے۔
’’حضرت بلال رضی اللہ عنہ اور حضرت صہیب رضی اللہ عنہ ایک قبیلے کے پاس آئے اور انہیں پیغام نکاح دیا۔ انہوں نے پوچھا تم کون ہو؟ ان دونوں صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے جواب دیا کہ ہم گمراہ تھے اللہ نے ہمیں ہدایت نصیب فرمائی، ہم مملوک تھے اللہ نے ہمیں آزاد فرمایا اور ہم مفلوک الحال تھے اللہ نے ہمیں غنی بنایا اگر تم ہم سے اپنی لڑیوں کی شادی کرو تو الحمدللہ اور اگر نہ کرو تو سبحان اللہ۔ ان لوگوں نے کہا کہ (گھبرائو نہیں) تمہاری شادی کردی جائے گی۔ امام غزالی اس واقعہ سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ کسی نے بھی جہیز کا ذکر نہیں کیا۔ نہ مردوں نے اور نہ ہی لڑکیوں کے اولیاء نے۔ وہ اس کی وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ جہیز یعنی گھر کے ضروری سازو سامان کا مہیا کرنا خاوند کی ذمہ داری ہے‘‘۔
(غزالی، محمد بن محمد، امام، احياء علوم، دارالمعرفة، بيروت، لبنان، س ن، ص415)
امام نعیم حلیۃ الاولیاء میں بیان کرتے ہیں:
’’مشہور تابعی حضرت سعید بن مسیب رحمۃ اللہ علیہ کے پاس ایک آدمی آیا کرتا تھا۔ ایک مرتبہ وہ کئی دن غائب رہا اور کافی عرصے کے بعد آیا تو حضرت سعید رحمۃ اللہ علیہ نے غائب رہنے کی وجہ دریافت کی۔ اس نے بتایا کہ اس کی بیوی فوت ہوگئی تھی لہذا مصروف رہا۔ حضرت سعید بن مسیب رحمۃ اللہ علیہ نے پوچھا کیا تو نے کوئی دوسری شادی کرلی ہے؟ اس نے کہا کہ میں فقیر ہوں مجھے کون رشتہ دے گا؟ حضرت سعید رحمۃ اللہ علیہ نے دو درہم مہر کے عوض وہیں اس کا نکاح اپنی بیٹی سے کردیا۔ وہ آدمی گھر چلا گیا تو شام کو خود اپنی بیٹی کا ہاتھ پکڑ کر اس کے گھر چھوڑ آئے۔ حضرت سعیدرحمۃ اللہ علیہ نے اپنی بیٹی کا یہ رشتہ خلیفہ وقت کو بھی نہیں دیا تھا‘‘۔
(ابو نعيم، احمد بن عبدالله، امام حلية الولياء وطبقات الاصفياء، دارالکتاب، لبنان، س ن، 191)
(جاری ہے)