کوک جان لیوا نشہ

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع جنوری 20, 2022 | 18:00 شام

تصور شمیم انسان کسی بھی نشے کی لت میں پڑ جائے، اس سے نجات یا چھٹکارا مشکل ہو جاتا ہے مگر ناممکن نہیں ۔ اس بارے میں ادویات اور علاج دستیاب ہے مگر سب سے زیادہ وِل پاور یعنی قوت ارادی کی ضرورت ہے۔ نشے کے عادی کی نشہ چھوڑنے کی اپنی کتنی خواہش ہے اس پر زیادہ انحصار ہے۔ ہمارے ایک نوجوان عزیز کی نشہ کی عادت جان لے گئی۔ اس کا علاج کرایا گیا مگر بے سود رہا۔ گھر والے اتنے مجبور ہو گئے کہ خود اسے نشہ خرید کر دیتے تھے۔ اس کے جسم پر آخری دنوں سرنج لگانے کی جگہ نہیں بچی تھی۔ میرا دوست حدیدسگریٹ پر سگریٹ پھون
کتاتھا۔ایک روز سگریٹ نوشی ترک کرنے کا ارادہ کر لیا۔ ایک دم سے سگریٹ چھوڑ دیے جو نہایت مشکل تھا مگر قوت ارادی تھی۔ ترک تمباکو کرلیا لیکن چند دن میں اسے پریشانی کا سامان کرنا پڑا۔ ڈاکٹر کے پاس گیا تو اس نے دوبارہ سے سگریٹ نوشی کا مشورہ دیا۔ حدیدکے مطابق سگریٹ ترک کرنے کے چند روز بعد اس کی مردانہ قوت زیرو ہو گئی۔ڈاکٹر نے بتایا کہ جسم نکوٹین کا عادی ہو چکا ہے۔ ایک دم سے نکوٹین کی فراہمی ختم ہونے سے مسائل پیدا ہوئے۔ سگریٹ نوشی بتدریج ترک کر یں ۔ ایسا ہی ہوا۔ حدید نے سگریٹ نوشی شروع کی اور بعد ازاں بتدریج کم کرتے کرتے مکمل طور پر ترک کر دی۔ نشہ اور نکوٹین کی بات کی جائے تو یہ کولڈ ڈرنکس میں بھی سے اور سب سے زیادہ کوکاکولا میں ہے۔ہماری ایک عزیزہ کا اسی باعث انتقال بھی ہوا ہے۔ ان کو شوگر تھی مگر وہ کوک کی عادی تھیں ۔ آخری دنوں میں ان کے گردے ، پھیپھڑے اور جگر ختم ہو گئے۔ ان کو اپنے سودو زیاںکا علم تھا مگر وہ کہتیں کہ کوک نہ پئیوں تو جان ٹوٹنے لگتی ہے۔ وہ کبھی چوری چھپے بوتل منگوا کر پی لیتیں اور کبھی اس کی بے چینی کو دیکھتے ہوئے گھر والے بھی بوتل لا دیتے تھے۔ہماری ایک اور عزیزہ اب اسی کیفیت سے گزر رہی ہیں۔ میں نے کوک پر تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ اس کا بنیادی فارمولاہی میڈیسن اور ڈرگ سے تعلق رکھتا ہے۔اس حوالے سے یہ رپورٹ ملاحظہ کیجئے:کیا آپ سوڈا ڈرنکس (کوک، سیون اپ، فانٹا وغیرہ) باقاعدگی سے استعمال کرتے ہیں؟ اگر ہاں، تو اس کا استعمال ذرا کم کر لیجئے۔ اس کا روزانہ باقاعدگی سے استعمال کرنا موٹاپے، ذیابیطس اور سٹروک کے امکان میں اضافہ کرتا ہے۔ دلچسپ بات یہ کہ سوڈا کی ایجاد بطور صحت بخش مشروب کے کی گئی تھی اور شروع میں یہ فارمیسی میں بیچا جاتا تھا۔ ان میں ادویات بھی مکس کر کے دی جاتی تھیں۔ سردرد کی دوا کوکا کولا میں ملا کر۔ اور کوکا کولا بھی آج کے مشروب سے کچھ مختلف تھا۔۔۔ البرٹ نائیمین نے 1859 میں کوکا کے پتوں سے کوکین الکالوائیڈ کو سب سے پہلے الگ کیا۔ اس کو کئی طرح کے میڈیکل فوائد کے لئے استعمال کیا جانے لگا۔ دانت کی درد، گلے کی خراش دور کرنے، بے ہوشی کی دوائی اور کئی ٹانک میں یہ کمپاوٗنڈ استعمال ہوتا۔ سگمنڈ فرائیڈ نے اس کو ڈیپریشن کے لئے تجویز کیا اور خود بھی اس کی عادت کا شکار ہوئے جس سے پیچھا چھڑوانے میں ان کو کئی برس لگے۔ image اس کا جو استعمال سب سے زیادہ مقبول ہوا، وہ ایک ڈرنک ون ماریانی تھی، جو کہ وائن اور کوکین کا مکسچر تھا۔ یہ مشروب 1863 میں ایجاد ہوا۔ اس کو توانائی، طاقت اور ہشاش بشاش رہنے کے لئے مارکیٹ کیا گیا۔ تجویز کردہ ڈوز تین گلاس روزانہ تھی جبکہ بچوں کے لئے اس کا نصف (دنیا پہلے ذرا مختلف ہوا کرتی تھی)۔ اس مشروب کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے اس طرز پر نئے مشروبات بننا شروع ہوئے۔ اٹلاںٹا سے تعلق رکھنے والے فارماسسٹ جان پمبارٹن نے ایک نیا مشروب بنایا جس میں کوکا کے پتوں اور کولا کے میوے کو استعمال کیا گیا تھا۔ اس کا نام پمبارٹن فرنچ وائن کوکا رکھا۔ ان کے دعوے میں اس مشروب کے جو فوائد بتائے گئے، اس میں سب سے اہم فائدہ وہی تھا جس کے لئے کئی لوگ کچھ بھی کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں اور حکیموں کے پاس رش رہتا ہے۔ پمبارٹن کو ایک مسئلہ اس وقت ہو گیا جب 1886 میں اٹلانٹا نے الکوحل کے استعمال کے خلاف قانون منظور کر لیا۔ ان کی ڈرنک غیرقانونی قرار پائی۔ کوکین کی وجہ سے نہیں بلکہ الکوحل کی وجہ سے۔ انہوں نے اپنے مشروب میں وائن کی جگہ میٹھا سیرپ استعمال کیا اور اس کا نام کوکا کولا رکھا۔ (کوکا کے پتوں اور کولا نٹ کا مشروب)۔ کوکا کولا کے ہر گلاس میں نو ملی گرام کوکین شامل ہوتی تھی۔ بیسویں صدی کے شروع میں کوکین کا نشہ امریکہ میں قومی مسئلہ بنتا جا رہا تھا۔ 1912 تک پانچ ہزار اموات ریکارڈ کی جا چکی تھیں، جن کی وجہ یہ بنی تھی۔ اپنے اوپر کنٹرول ختم ہو جانے کی وجہ سے اخلاقی مسائل اور جرائم پیدا ہو رہے تھے۔ 1914 میں منشیات کے خلاف قانون کی منظوری کے بعد کوکین، چرس وغیرہ کا استعمال ممنوع قرار پایا۔ کوکا کولا میں کوکین کا استعمال ختم ہو گیا۔ کوکین، ہیروئن سمیت تمام منشیات عالمی معاہدے کے تحت مغربی ممالک کے زور دینے پر 1961 میں ممنوع قرار دے دی گئیں۔ پسِ منظر میں غیرقانونی طور پر ہلکا پھلکا کاروبار ان دہائیوں میں چلتا رہا۔ پھر 1980 کی دہائی آ گئی۔ متمول ہوتے اور عدم معاریت کا شکار ہو جانے کے سبب معاشروں میں نشہ آور ادویات کی مانگ تیزی سے واپس آئی۔ امیر ہوتے ممالک میں منشیات کئی جگہوں پر پارٹیوں کا جزو بنننے لگیں۔ کوکین کا عالمی بزنس چمک اٹھا۔ قیمت گر گئی۔ اس کا دھندا کرنے والوں کو نئی پراڈکٹ کی ضرورت تھی اور وہ کوکین میں بیکنگ سوڈا اور پانی کے اضافے سے حاصل ہو گئی۔ یہ 1985 میں شروع ہونے والی کریک کوکین تھی، جو بہت پاپولر ہوئی۔ مانگ اور منافع کا کھیل اپنی راہیں تلاش کر لیتا ہے۔ یہ ایک موذی شے تھی جس نے لوگوں کو، خاندانوں کو، آبادیوں کو تباہ کر کے رکھ دیا۔ اس قدر بُری طرح سے کہ اس کے نتیجے میں بننے والے سخت گیر قوانین نے دنیا بھر میں گہرے اثرات اور اپنے مضر نتائج مرتب کئے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کوکین سے کہیں بدتر نشہ آور اشیاء اب کرسٹل میتھ جیسی شکل میں موجود ہیں۔ میتھ اور چرس کی ہیڈلائنز لے لینے سے کوکین کی مارکیٹ متاثر ہوئی ہے۔ ایک کھرب ڈالر سالانہ سے گھٹ کر پچھلے دس سالوں میں 77 ارب ڈالر تک آ گئی ہے۔ کوکا کولا کا زیادہ استعمال صحت کے لئے زیادہ اچھا تو نہیں لیکن یہ غنیمت ہے کہ یہ اپنے اصلی والے فارمولا کے ساتھ نہیں بنائی جاتی، جس کے ساتھ اس کو اٹھارہ برس تک بنایا جاتا رہا۔کوک میں آج بھی نشہ آور اجزا موجوہیں۔جو اس کا مسلسل اور بے دریغ استعمال کریوالوں کو اس کا عادی بناکر مجلوج کر دیتے ہیں۔