میں قدرت اللہ شہاب کے ساتھ مسجد الحرام کے صحن میں بیٹھا ہوا تھا کہ اچانک قدرت نے پوچھا:
"یہ آپ کے ہاتھ میں کیا ہے؟"
"یہ کاپی ہے۔
"یہ کیسی کاپی ہے؟"
"اِس میں دعائیں لکھی ہیں۔ میرے کئی ایک دوستوں نے کہا تھا کہ خانہؑ کعبہ میں ہمارے لئے دعا مانگنا، میں نے وہ سب دعائیں اِس کاپی میں لکھ لی تھیں۔"
"دھیان کرنا!" وہ بولے "یہاں جو دعا مانگی جائے وہ قبول ہو جاتی ہے۔"
"کیا مطلب؟" میری ہنسی نکل گئی۔ "کیا دعا قبول ہو جانے کا خطرہ ہے؟"
"ہاں، کہیں ایسا نہ ہو کہ دعا قبول ہو جائے۔"
میں نے حیرت سے قدرت کی طرف دیکھا۔
بولے "اسلام آباد میں ایک ڈائریکٹر ہیں۔ عرصہؑ دراز ہوا اُنہیں بخار ہو جاتا تھا۔ ڈاکٹر۔۔۔، حکیم۔۔۔۔، وید۔۔۔۔، ہومیو۔۔۔۔، سب کا علاج کر دیکھا، کچھ افاقہ نہ ہوا۔ سوکھ کر کانٹا ہو گئے۔ آخر چارپائی پر ڈال کے کسی درگاہ پر لے گئے۔ وہاں ایک مست سے کہا بابا دعا کریں کہ اِنہیں بخار نہ چڑھے۔۔۔بابا نے دعا کی اور وہ قبول ہوئی اور انہیں آج تک پھر کبھی بخار نہیں چڑھا۔
اب چند سال سے ان کی گردن کے پٹّھے اکڑے ہوئے ہیں۔ وہ اپنی گردن اِدھر اُدھر ہلا نہیں سکتے۔ ڈاکٹر کہتے ہیں کہ یہ مرض صرف اسی صورت میں دور ہو سکتا ہے کہ انہیں بخار چڑھے۔ انہیں دھڑا دھڑ بخار چڑھنے کی دوایاں کھلائی جا رہی ہیں، مگر انہیں بخار نہیں چڑھتا۔"
یہ سننا تھا کہ دعاؤں کی کاپی میرے ہاتھ سے چھوٹ کر گر پڑی۔ میں نے اللہ کے گھر کی طرف دیکھا۔آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔۔۔چہرہ بھیگا ہوا تھا۔۔۔اور لب پر بس ایک ہی بات تھی۔۔۔۔
"میرے اللہ! کیا کسی نے تیرا بھید پایا ہے؟"
نوٹ:اگر آپ بھی اپنا کوئی کالم،فیچر یا افسانہ ہماری ویب سائٹ پر چلوانا چاہتے ہیں تو اس ای ڈی پر میل کریں۔ای میل آئی ڈی ہے۔۔۔۔
bintehawa727@gmail.com
ہم آپ کے تعاون کے شکر گزار ہوں گے۔