نشئی اور دُعا

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع نومبر 23, 2019 | 18:53 شام

1۔ ہم اللہ کریم کی مخلوق ہونے کی حیثیت سے اپنے اور اپنے پیاروں کے لئے اللہ کریم سے دُعا کر کے خوشیاں مانگتے ہیں۔ دُعا مانگنے کے بعد ہم ”نتیجہ“ اللہ کریم پر چھوڑ دیتے ہیں کیونکہ اُس پیارے نے ہمیں دو نعمتوں یعنی شُکر و صبر سے نوازا ہے۔

2۔ دُعا سے زیادہ اہمیت صبر و شُکر کی ہے۔ اسلئے بزرگ دُعا بھی کرتے ہیں اور ساتھ میں اپنے ساتھ نسبت رکھنے والوں کے سامنے شریعت پر چلتے ہیں، دنیا داری کے ہر مقام

پر صبر و شُکر سے کام لیتے ہیں، جس سے اُن کے ساتھ چلنے والا بھی صابر و شاکر بن جاتا ہے اور غیر شرعی کام نہیں کرتا بلکہ صبر کرتا ہے۔

3۔ دُعاضرور کریں، اُس کے بعد کوشش کریں، کوشش بھی دیکھی جاتی ہے، نیت بھی دیکھی جاتی ہے، پریشانی بھی ڈالی جاتی ہے، سب کچھ اللہ کریم کی طرف سے ہے۔ اگر ہمارے سارے کام ایک دن میں اللہ کریم کر دے تو ہماری زندگی کا کیا مقصد رہے گا؟ ماں کے گھر میں بچہ بھی 9ماہ کے بعد پیدا ہوتا ہے ورنہ ایک دن بھی میں بھی رب کریم پیدا کر سکتا ہے۔

4۔ اپنی اوقات سے زیادہ نہ مانگیں بلکہ اُتنا مانگیں جس سے آپ کا گذارہ ہو جائے اور آپ کو کسی سے مانگنا نہ پڑے۔ غور بھی کریں کہ آپ کو سال میں کتنی مرتبہ کسی سے مانگنا پڑا یا ویسے ڈر ہے کہ کہیں کسی سے مانگنا نہ پڑے تو ڈریں مت۔ آج کا رزق آپ کی جیب میں ہے تو اللہ کریم کا شکر ادا کریں۔

5۔ ایک بندہ فوت ہوا، نشئی تھا، پاؤڈر بیچتا تھا، مولوی صاحب نے جنازہ پڑھایا، اُس کی بخشش کی دُعا مانگی، ساتھ میں یہ بھی کہہ دیا کہ یا اللہ اس کی اولاد کو بھی اس کے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرما۔ کچھ نے غصہ کیا اور کوئی ہنس ہنس کر دُہرا ہو گیا۔

6۔ مولوی صاحب کا کوئی قصور نہیں تھا کیونکہ وہ نشئی ایمانداری سے مسجد کو چندہ دیتا تھا، مولوی صاحب نے چندے کے لحاظ سے بات کی تھی مگر عوام غلط سمجھ گئی۔

7۔ عوام کو سمجھانا بہت ضروری ہے کیونکہ عوام جاہل ہے اور کہا جاتا ہے کہ ”جاہل“ ابو جہل سے فیض لیتا ہے اور علم رکھنے والا حضورﷺ سے فیض لیتا ہے۔ علماء کرام اگر عوام کو نہیں سمجھائیں گے تو بہت سے ابوجاہل پید ا ہو جائیں گے۔ اسلئے انعمت علیھم پر چلنے کی سب کو کوشش کرنی چاہئے۔

8۔ مساجد و مدارس کیونکہ چندوں پر چلتے ہیں، اسلئے انتظامیہ زیادہ طاقتور ہے اور مولوی، امام، خطیب طاقتور نہیں ہیں۔ مسجد کا امام طاقتور ہونا چاہئے، ایماندار ہونا چاہئے، پیسے والا ہونا چاہئے، سچ سُنانے والا ہونا چاہئے کیونکہ دین کو ایسے مضبوط ”امام“ کی ضرورت ہے۔ اسلئے حضورﷺ نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو دُعا مانگ کر لیا تھا۔

9۔ یا اللہ ہمیں بھی ایسے امام عطا فرما جو مضبوط ہوں، ایماندار ہوں۔ البتہ عوام کو بھی سچ سُننے اور سچ پھلانے کی توفیق عنایت فرما۔

دُعا: تقسیم امت سے اتحاد امت کی طرف مسلمانوں کو لانے کے لئے دیوبندی، بریلوی، اہلحدیث مذہبی عوام اور علماء سے عرض ہے کہ اصولی اختلاف بتائیں تاکہ ہم توبہ کرکے اختلاف مٹائیں اور سب کو ایک مسلمان بنائیں۔ یا اللہ ہمارے مُلک پاکستان کی مساجد سے دیوبندی، بریلوی، اہلحدیث کے بورڈ اُتر جائیں اس پر کُن فرما دے امین۔