ملازم نے آبرو ریزی کا سلسلہ تین سال تک جاری رکھا

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع دسمبر 03, 2016 | 19:57 شام

دبئی (شفق ڈیسک) والدین تلاش معاش اور سماجی الجھنوں میں بچوں کو نوکروں کے حوالے کر دیتے ہیں جس کے بھیانک نتائج سامنے ہیں۔ اپنے دکھ کا احوال بیان کرنے والی 21 سالہ لڑکی کی داستان بھی معاشرے کے اسی شرمناک پہلو سے پردہ اٹھاتی ہے اور ہم سے چیخ چیخ کر آنکھیں کھولنے کی فریاد کرتی نظر آتی ہے۔ بچپن میں گھریلو ملازمین کے رحم و کرم پر چھوڑی گئی یہ لڑکی اپنی بربادی کی داستان کچھ یوں بیان کرتی ہے: میری عمر 21 سال ہے اور میں متحدہ عرب امارات میں دبئی کی ایک مشہور یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہوں۔ مجھے بتایا جاتا ہے کہ میں ذہین خوبصورت اور شفیق ہوں۔ میرے والدین میری شادی کرنے کیلئے بے چین ہیں اور آئے روز میرے لئے کوئی رشتہ آیا ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے میں ایک لمحے کیلئے بھی سوچے بغیر ان رشتوں کو رد کردیتی ہوں اور میرے والدین اس طرز عمل پر بہت متفکر ہیں۔ دراصل میرے اس رویے کی ایک وجہ ہے۔ یہ میرے بچپن کی بات ہے کہ ہمارے گھر میں کام کرنے والے ایک ملازم نے مجھے اپنی ہوس کا نشانہ بنانا شروع کردیا۔ میں کمسن تھی اور اس سے خوفزدہ تھی۔ وہ مجھے جان سے مار دینے کی دھمکیاں دیتا تھا اور میرے ساتھ دست درازی کرتا تھا۔ یہ بھیانک سلسلہ تین سال تک جاری رہا اور بالآخر اس وقت ختم ہوا جب وہ درندہ کہیں اور ملازمت ملنے پر ہمارے گھر سے چلا گیا۔ میں بچپن میں بھی خوف اور شرمندگی سے خاموش رہی اور بعد میں بھی کبھی اس ظلم کا تذکرہ لب پر نہ لاسکی۔ آج تک کسی کو اس کے بارے میں کچھ معلوم نہیں۔ میرے والدین بھی کچھ نہیں جانتے اور یہی وجہ ہے کہ جب میں شادی سے انکار کرتی ہوں تو انہیں یہ بات بہت ناگوار گزرتی ہے۔ میں یہ تصور کرکے ہی خوفزدہ ہوجاتی ہوں کہ کسی مرد سے تعلق استوار کروں۔ میرے لئے اب یہ سوچنا ہی ممکن نہیں ر ہا کہ کوئی مرد مجھے چھوئے۔ جب بھی میرے لئے رشتہ آتا ہے تو میں خود کو کمرے میں بند کرکے گھنٹوں آنسو بہاتی ہوں، لیکن اپنے دکھ کا کسی سے ذکر نہیں کرپاتی۔ میں اپنی زندگی کے خوفناک تجربے سے باہر نہیں آپائی اور شاید تاعمر نہ آپاؤں۔ زندگی کا وہ دور اب بھی ڈراؤنا خواب بن کر میرا تعاقب کررہا ہے۔ میں اب کسی مرد کے ساتھ جسمانی تعلق کا تصور بھی نہیں کرسکتی۔ نہ میں کسی کو چھو سکتی ہوں اور نہ کسی کو خود کو چھونے کی اجازت دے سکتی ہوں۔ اب تو اکثر خود کو ہی مجرم تصور کرنے لگتی ہوں اور سوچتی ہوں کہ خود کشی کر کے یہ دنیا ہمیشہ کیلئے چھوڑ جاؤں۔