موت کے بعد زندگی کا ایک موقع

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع نومبر 19, 2016 | 19:22 شام

’میں نے آنکھیں بند کیں تو دوزخ کا نظارہ دیکھا جہاں میرے قریبی ترین رشتہ دار ایسی حالت میں تھے کہ۔۔۔ ‘ موت کے منہ سے واپس آنے والے شخص نے دوزخ کا ایسا منظر کھینچ دیا کہ جان کر ہی آپ توبہ پر مجبور ہو جائیں گے

 

نیویارک (مانیٹرنگ) جدید سائنس مادی جسم کو ہی

کل حقیقت قرار دیتی ہے جبکہ روح کی موجودگی کو شک کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ یہ طرز فکر خصوصاً سائنسی طبقے میں عام پایا جاتا ہے۔ امریکی ریاست کیلیفورنیا کے بیکرز فیلڈ ہارٹ ہسپتال میں شعبہ انیستھیزیا کے سربراہ ڈاکٹر راجیش پارتی بھی اسی سوچ کے حامل تھے، مگر پھر ان کی زندگی میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا کہ سب کچھ بدل کر رہ گیا۔ ڈاکٹر راجیش پارتی نے اس حیرت ناک داستان کو اپنی کتاب  ڈائینگ ٹو ویک اپ   میں تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔ 

وہ کہتے ہیں کہ ایک بار انہوں نے ایک مریض کو آپریشن کیلئے بے ہوش کیا۔ آپریشن مکمل ہوا تو یہ مریض ہوش میں آیا اور کہنے لگا کہ دوران آپریشن وہ سب کچھ دیکھ رہا تھا۔ اس نے بتایا کہ سرجن کہاں کھڑا تھا اور نرسیں کیا کر رہی تھیں، حتیٰ کہ ان کے درمیان ہونے والی گفتگو بھی من و عن دہرا دی۔ ڈاکٹر راجیف کا کہنا ہے کہ اگرچہ یہ حیران کن تھا لیکن وہ یہ بات ماننے کو تیار نہیں تھے کہ ایک شخص کا دل اور دماغ بند تھا اور اس کے باوجود وہ سب کچھ دیکھ رہا تھا۔ انہوں نے اس مریض کو بھی کئی اور مریضوں کی طرح نظر انداز کر دیا اوراپنے معمولات میں لگ گئے۔
ڈاکٹر راجیش کا کہنا ہے کہ وہ ایک کامیاب ڈاکٹر تھے اور ان کے مال و دولت نے انہیں انتہائی مادہ پرست بنا دیا تھا۔ ان کی زندگی بہت پر آسائش گزر رہی تھی، لیکن پھر ایک دن ان پر انکشاف ہوا کہ وہ پراسٹیٹ کینسر کا شکار ہو چکے تھے۔ ان کے آپریشن کے دوران کچھ ایسی خرابی ہوئی کہ ان کا مسئلہ بڑھتا چلا گیا۔ بعد ازاں ان کے متعدد آپریشن کیے گئے۔ وہ لکھتے ہیں کہ پانچویں آپریشن کے بعد ایک دن ان کی حالت بہت بگڑ گئی اور انہیں فوری طور پر ہسپتال میں لیجایا گیا۔ ڈاکٹروں نے انہیں بے ہوشی کی دوائی دی اور ان کا آپریشن شروع کر دیا گیا۔ ڈاکٹر راجیش لکھتے ہیں کہ جب سرجن ان کے جسم کی چیر پھاڑ کر رہا تھا تو اچانک انہیں محسوس ہوا کہ وہ دھیرے دھیرے اوپر اٹھ رہے ہیں۔ انہیں اپنا آپ انتہائی لطیف محسوس ہوا اور چند لمحوں میں وہ آپریشن تھیٹر کی چھت کے پاس موجود تھے اور نیچے سب کچھ انہیں صاف نظر آرہا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ سمجھنے سے قاصر تھے کہ وہ خود کون ہیں اور نیچے پڑا شخص کون ہے، جس کا جسم چیرا پھاڑا جا رہا تھا۔ انہیں نہ صرف سب کچھ واضح نظر آرہا تھا بلکہ سرجن کی گفتگو بھی سنائی دے رہی تھی۔ اس سرجن نے آپریشن کے دوران ایک لطیفہ بھی سنایا جس پر سب ہنس دیے۔
ڈاکتر راجیش کہتے ہیں کہ پھر انہیں اپنی والدہ اور بہن نظر آئیں جو نئی دلی میں ان کے آبائی گھر میں موجود تھیں اور کھانا پکانے کے متعلق گفتگو کر رہی تھیں۔ وہ واضح طور پر دیکھ سکتے تھے کہ ان کی والدہ سبز رنگ کی ساڑھی میں ملبوث تھیں جبکہ بہن نے نیلا اور سرخ لباس پہن رکھا تھا۔ پھر انہیں سب کچھ تاریک ہوتا محسوس ہوا اور ان کی دائیں طرف شور بلند ہوا اور کوئی طاقت انہیں کھینچتی ہوئی اس طرف لیجانے لگی۔ ڈاکٹر راجیش کا کہنا ہے کہ کچھ ہی دیر بعد وہ آگ کے سمندر کے کنارے کھڑے تھے اور انسانی گوشت کے جلنے کی بو ان کے نتھنوں میں گھس رہی تھی۔ انہیں اس بات میں کوئی شک نہ رہا کہ وہ دوزخ کے کنارے کھڑے تھے۔ وہ اس خوفناک منظر سے پیچھے ہٹنے کی کوشش کرتے تھے لیکن کوئی طاقت انہیں دھیرے دھیرے آگے لیجا رہی تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ اس موقع پر ان کی خود غرضی اور مادہ پرست زندگی کے مناظر ان کی نظروں کے سامنے گھومنے لگے اور وہ اس بات پر پچھتانے لگے کہ کیوں غفلت میں اپنی زندگی گزاری۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے دل سے یہ فریاد بلند ہونے لگی کہ کاش انہیں ایک اور موقع مل جائے۔ اسی دوران دھند کے غبار سے ان کے والد نمودار ہوئے اور ان کا ہاتھ پکڑ کر دور لیجانے لگے۔ پھر وہ ایک طویل سرنگ میں داخل ہوئے جس میں انہوں نے بے شمار لوگوں کو دیکھا، جن میں ان کے دنیا سے گزرجانے والے عزیزو اقارب بھی موجود تھے۔ ان میں سے کچھ خوش تھے تو کچھ غم و الم کی تصویر تھے اور مدد کی فریاد کرتے تھے۔


وہ اس سرنگ کے کنارے تک لائے گئے تو سامنے اتنی روشنی تھی گویا ہزار سورج بیک وقت چمک رہے ہوں۔ یہاں انہیں ایک غیبی آواز سنائی دی جس کا کہنا تھا کہ تمہیں لوگوں کی مدد کیلئے مسیحا بنایا گیا لیکن تم نفس کی پیروی میں لگ گئے۔ تم دنیا میں جاﺅ اور دکھی دلوں کا سہارا بنو، ان کی راحت کا سامان کرو۔
ڈاکٹر راجیش کہتے ہیں کہ اس کے بعد انہیں پھر سے ایک شدید جھٹکا لگا اور جب دوبارہ حواس بحال ہوئے تو پتا چلا کہ وہ آپریشن تھیٹر میں پڑے تھے اور رفتہ رفتہ ہوش سنبھال رہے تھے۔ جب ان کی حالت کچھ سنبھلی تو انہوں نے سرجن سے اپنے ساتھ پیش آنیوالا حیرت انگیز معاملہ بیان کرنا شروع کیا، لیکن جس طرح وہ اپنے مریضوں کے تجربات کو نظر اندازکر دیا کرتے تھے اسی طرح اس سرجن نے بھی ان کی بات کو نظر انداز کرنے کی کوشش کی۔ ڈاکٹر راجیش کا کہنا ہے کہ جب انہوں نے تمام تفصیلات بتائیں اور وہ لطیفہ بھی سنایا جو سرجن نے آپریشن کے دوران سنایا تھا تو اسے ایک جھٹکا لگا اور وہ نظر چرانے لگا، لیکن پھر وہ دوبارہ یہ کہانی سننے کا کہہ کر چلا گیا ،جس طرح کبھی وہ خود کیا کرتے تھے۔
ڈاکٹر راجیش اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ انہوں نے اس واقعہ کے بعد اپنا محل نما گھر اور شاندار گاڑیاں بیچ ڈالیں۔ ان کی اہلیہ اور بچوں نے بھی ان کا ساتھ دیا اور وہ ایک چھوٹے سے گھر میں منتقل ہو گئے۔ اب وہ دنیا داری کے تمام مشغلے ترک کر چکے ہیں اور خود کو پورے طرح دکھی انسانیت کی خدمت اور مدد کے لئے وقف کر دیا ہے۔