غریب ترین بچوں کو اعلیٰ معیار کی تعلیم کیسے دی جا سکتی ہے ؟اس لڑکی نے مثال قائم کر دی ہے ،آپ بھی جانیے

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع اکتوبر 12, 2016 | 15:17 شام

نئی دہلی(ویب ڈیسک)انڈیا کی  ریاست اترپردیش میں ودیاگیان لیڈرشپ اکیڈمی غریب خاندانوں کو بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلا رہی ہے۔اس بورڈنگ سکول کے معیار کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہاں ہر سال 200 نشستوں کے لیے ڈھائی لاکھ سے زیادہ درخواستیں موصول ہوتی ہیں۔یہ سکول شِو نادر فاؤنڈیشن نے قائم کیا تھا جو ایسی تعلیم مکمل طور پر مفت فراہم کرتا ہے جو عام طور پر صرف انتہائی امیر خاندان ہی برداشت کر سکتے ہیں۔روشنی نادر ملہوترا فاؤنڈیشن کی ٹر

سٹی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ سکول کا تصور انڈیا کے ان نجی سکولوں سے لیا گیا ہے جن سے نکل کر طلبہ اعلیٰ یونیورسٹیوں میں داخلہ لینے اور پھر اونچے عہدوں پر فائز ہونے کی راہ پر گامزن ہو جاتے ہیں۔

لیکن ودیا گیان سکول صرف انتہائی ذہین اور انتہائی غریب طلبہ کو داخلے دیتا ہے۔ سکول میں صرف انھی خاندانوں کے بچوں کو داخلہ دیا جاتا ہے جن کی سالانہ آمدن سوا لاکھ انڈین روپوں سے کم ہو۔ اور سکول اس بات کی جانچ پڑتال بھی کرتا ہے کہ کہیں امیر خاندانوں کے بچے تو داخلے کی کوشش نہیں کر رہے۔روشنی ملہوترا کہتی ہیں: 'انڈیا کا بڑا حصہ دیہی ہے، اور آبادی کے بڑے حصے کی صلاحیتوں سے فائدہ نہیں اٹھایا جا رہا۔ ان کی رسائی اچھی یونیورسٹیوں تک نہیں ہو پاتی۔

'ہم دیکھنا چاہتے تھے کہ کیا ہم داخلے کا کوئی ایسا نظام وضع کر سکتے ہیں جو خالصتاً میرٹ پر مبنی ہو۔'

ابتدائی ڈھائی لاکھ درخواستوں کے بعد تقریباً سوا لاکھ بچوں کو تحریری امتحان کے لیے منتخب کیا جاتا ہے۔اس امتحان کے نتائج کی روشنی میں چھ ہزار طلبہ کی ابتدائی فہرست تیار کی جاتی ہے، جنھیں ایک اور امتحان میں بٹھایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ سکول کی انتظامیہ طلبہ کے گھروں کے دورے بھی کرتی ہے۔اس عمل سے گزر کر دو سو طلبہ، لڑکے اور لڑکیاں، منتخب کیے جاتے ہیں جن کی تعلیم، رہائش، کھانا پینا اور لباس سب کا خرچہ سکول برداشت کرتا ہے۔یہ بچے غریب خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں اور ان میں مختلف مذاہب، ثقافتوں اور ذات پات کا امتزاج موجود ہوتا ہے۔ انھیں ایسی تعلیم دی جاتی ہے جس کی بدولت وہ نئے مواقع سے روشناس ہو سکیں۔سکول میں داخلے کی مانگ کا یہ عالم ہے کہ اب جگہ جگہ ایسی اکیڈمیاں کھل گئی ہیں جہاں اس سکول میں داخلے کے امتحان کی تیاری کروائی جاتی ہے۔سکول قائم کرنے پر پونے چار ارب انڈین روپے سے زیادہ خرچ اٹھ چکا ہے، اور روشنی ملہوترا کے مطابق اس بات پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں کہ آیا اس رقم کا بہتر استعمال زیادہ بڑی تعداد میں طلبہ کو بنیادی تعلیم دے کر کیا جا سکتا تھا۔تاہم وہ کہتی ہیں کہ اس سکول کے پیچھے یہ تصور کارفرما ہے کہ ایسی قیادت پیدا کی جائے جو پسماندہ علاقوں سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کو انڈیا کے اعلیٰ طبقوں سے مسابقت کے لیے تیار کر سکے۔وہ کہتی ہیں کہ ہم ان پڑھ کسانوں کے بچوں کو ایسی صلاحیتوں سے مالامال کرنا چاہتے ہیں کہ وہ سیاست، کاروبار یا کھیل کی دنیا میں اعلیٰ ترین مقام تک پہنچ سکیں۔وہ کہتی ہیں کہ ان طلبہ کی کامیابیوں کا اثر ان کے پورے علاقے پر پڑے گا اور اس سے ان کے پورے گاؤں میں مثبت لہر دوڑ جاتی ہے۔

'اس سے پورے گاؤں پر مثبت اثر پڑتا ہے۔ یہ طلبہ امید کی کرن بن جاتے ہیں۔'

اس کے علاوہ یہ طلبہ جب گرمیوں کی چھٹیوں میں اپنے علاقوں میں جاتے ہیں تو وہ کئی طرح کے فلاحی کاموں میں حصہ لیتے ہیں، مثلاً صاف پانی کی فراہمی، کچرے کی صفائی یا کھانا پکانے کے محفوظ طریقے وغیرہ۔روشنی ملہوترا چاہتی ہیں کہ ان کے سکول کے فارغ التحصیل طلبہ دنیا میں کسی بھی ملک کے اعلیٰ ترین طلبہ سے مقابلہ کر سکیں۔یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ آیا یہ طلبہ مستقبل میں انڈیا کی قیادت ثابت ہوتے ہیں یا نہیں لیکن روشنی پرامید ہیں۔ وہ کہتی ہیں: 'وہ اس منزل کی جانب رواں دواں ہیں۔