عید کی مسرتیں ’’پردیسیوں‘‘ کی حسرتیں

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع اگست 03, 2020 | 18:02 شام

گھر جیسا بھی ہو، کھولی ہو، کوٹھڑی ہو، جھونپڑی ہو یا عالی شاہ محل، مکینوں کے دل کُھلے اور مِلے ہوں تو گھر تاج محل ہوتا ہے۔ دور جاتے ہی اس تاج محل کی یاد آتی اور اُڑ کر واپس پہنچنے کی آرزو منڈلاتی ہے۔دور دراز سے عیدوں پرگھر آنے کی ایک پُر کیف مسرت اورحسین حسرت لہراتی بل کھاتی ہے۔ بیرون ممالک سے بھی لوگ عید کی خوشیاں منانے کیلئے کشاں کشاں وطن لوٹتے ہیں۔ خوشی اور غمی کے مواقع بھی گھروں میں مکینوں کو کھین

چ لاتے ہیں۔ عیدالفطر کے بعد آج عیدالاضحی پر بھی کرونا کے ستم نے عید کی خوشیوں کوماند کر دیا۔دو عیدوں پر تو درکنار خوشی اور غمی کے دیگر مواقع پر بھی کئی لوگ ٹرانسپورٹ کی بندش اور کرونا سے احتیاط کے باعث دوسرے ملکوں سے وطن اور دوسرے شہروں سے گھر لوٹنے سے قاصر رہے۔ یہ ایک مجبوری ہے۔مگر جو لوگ چارٹرڈ طیارہ کرانے اور ایک شہر سے دوسرے شہرجانے کیلئے بڑی سے بڑی گاڑی خریدنے کی ہمت رکھتے ہوں، ان پرخلدِ بریں جیسے گھروں میں نہ آنے کا جبر مسلط کر دیا جائے تو ان کے دل پر کیا بیت سکتی ہے۔ایسی پابندیوں کے انگاروں کی زد میں شریف خاندان آیاہواہے۔ اس خاندان کے زیادہ تر افراد لندن میں،کچھ مریم سمیت لاہور میں ہیں۔ حسن نواز اور حسین اشتہاری قرار دیئے جانے کے بعدوہاں بیٹھے ہیں۔جب میاں نواز شریف کو عدالتی احکامات اور عمران خان حکومت کی طرف سے انسانی ہمدردی کی بناء پر علاج کیلئے لندن جانے کی اجازت دی گئی تو یہ کچھ لوگوں نے شدت سے باور کرایا گیاکہ مقتدر حلقوں کی طرف سے حکومت کی مرضی کے برعکس انہیں لندن جانے کی اجازت دی گئی ہے۔ کچھ دنوںمیں مریم نواز بھی والد کے پاس لندن چلی جائیں گی۔ جہاں مقتدر حلقوں کو طاقت اور فیصلہ سازی کا محور قرار دیا گیا۔ مریم نواز نے بھی لندن جانے کی کوشش کی، عدالتوں سے رعایت مانگی گئی مگر وہ بدستورپاکستان میں ہیں۔ مقتدر حلقے انہیںبھی لندن بھجوانے پر تیار تھے توکیا وہ حکومت جو میاں نوازشریف کے باہر جانے کی راہ میں مبینہ طور پر کوشش کے باوجود رکاوٹ نہ بن سکی، اب کیا ان حلقوں سے ٹکر لینے کی پوزیشن میں آگئی ہے؟۔ ایسی باتوں کو الف لیلوی داستان یا رام لیلا کہا جاسکتا ہے۔ میاں نوازشریف عدالتوں کی اجازت اور حکومت کی مرضی سے لندن گئے اور خالصتاً انسانی ہمدردی پر ان کی بدترین صحت کے باعث جس کی نشاندہی میڈیکل رپورٹوں اور حکومتی ڈاکٹروں کی تصدیق سے بھی ہوتی ہے۔میاں نوازشریف کی اپنی صحت کے حوالے سے ڈرامہ بازی اور کہیں رپورٹوں کو جعلی قرار دینے کی باتیں تب ہوئیں جب میاں نوازشریف لندن میں کسی ہسپتال میں داخل ہونے کی بجائے کبھی سیر کرتے ، کبھی ریستوران میں چائے پیتے اور کبھی"ضروری" ملاقاتیں کرتے اور انکوغیر ضروری میڈیا میں اچھالنے لگے۔ فوج اور شریفین کے مابین ڈیل کا تاثر دینے والے مسلم لیگ ن کی جانب سے جنرل باجوہ کی توسیع پر آئینی ترمیم کی حمایت کو دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ ضروری نہیں ایسا کسی ڈیل کے نتیجے میں ہی ہوا ہو۔میاں نوازشریف ہر صورت مریم نواز کو لندن بلوانا چاہتے ہیں۔ ایک مرتبہ میاں نوازشریف کے ذاتی معالج ڈاکٹر عدنان نے کہا کہ میاں نوازشریف کے آپریشن کی تاریخ طے ہو گئی ہے اور وہ مریم کی لندن میں موجودگی یقین بنانا چاہتے ہیں بصورت دیگر آپریشن نہیں کرائیں گے۔

میاں نوازشریف پاکستان سے لندن روانہ ہوئے تو اس وقت کے مقابلے میں وہ آج لندن میں باقاعدہ کسی ہسپتال میں داخل ہوئے بغیر بہت بہتر نظر آتے ہیں۔ وہ چاہیں تو پاکستان آسکتے ہیں مگر جیل کی موکھلی سے خوفزدہ ہیں۔ ان کو منڈیلا بنانے والے جو بھی خوش گمانی رکھیں‘ میاں نوازشریف پاکستان میں انکے حق میں حالات سازگار ہونے تک واپسی کا سوچیں گے بھی نہیں۔ عید کے موقع پر میاں نوازشریف‘ ان کی والدہ اور بیٹے پاکستان آنے کے لیے تیار نہیں جن پر کسی قسم کی پابندی نہیں ہے۔ جبکہ مریم بے پایاں خواہش کے باوجود پابندیوں کے باعث لندن جانے سے قاصر ہیں۔ یہ پاکستان کا امیر ترین خاندان ہے۔ دولت کی ریل پیل ہے۔ کونسا ادارہ ان کی مٹھی میں نہیں تھا۔ 7 ارب کا ایڈیمنٹی بانڈ بھرنے کیلئے ایک کو بلاتے تو 100خیرخواہ نوٹوں کے بکس اٹھائے چلے آتے مگر چند دن جاں بہ لب مریض کو انتظار کی سولی پر چڑھائے رکھاتاآنکہ 50 روپے کے اشٹام نے سے 7 ارب روپے کے بانڈ جیسا کرشمہ دکھا دیا۔

پُر شکوہ محلات اوردولت کے ہمالہ جیسے انبار رکھنے والا یہ خاندان بھی یقیناایک ساتھ عیدمنانا چاہتا ہے مگر حالات جبر کے سامنے کہ مجبور اور بے کس و بے بس۔ اسکے سوا کوئی چارہ کاربھی نہیں۔ اقتدار نعمتوں سے ایک اورشاید سب سے بڑی بھی ہے۔ انسانیت کی فلاح کیلئے اسے بروئے کار لایا جائے تو بلاشبہ وہ پائیدار اور رہتی دنیا تک کردار کی روشنی کا مینارہ بنا رہتا ہے، دوسری صورت میں وبالِ جاں، ذہنی اذیت کا ساماں اور دنیا جہاں کیلئے عبرت کا نشاں بن جاتا ہے۔ جس سے آج پاکستان کے بڑے خاندان دوچار ہیں۔ آپ صرف چار پانچ بڑے خاندانوں کی اس دولت کا شمار کر لیں جس کا وہ حساب دینے کی پوزیشن میں نہیں۔ ان کی خاندانی، وراثتی اور جن جائیدادوں کا ان کے پاس جائز کمائی کے ذریعے حصول کا ثبوت ہے وہ ان کے پاس رہیں۔ جن جائیدادوں کی منی ٹریل نہیں دے سکتے، وہ قومی خزانے میں آجائیں تو اس کی مالیت امریکہ کے سالانہ بجٹ سے کم نہ ہو گی۔صرف سیاست دان ہی نہیں کاروباری لوگوں اور سول و فوجی بیوروکریسی نے بھی اس ـ" کارِ خیر" میں خیر نہیں کی۔کوئٹہ کے رئیسانی اور کراچی کے قائمخانی کے ایک ایک کھرب سے زائد کے "حق حلال " کی کمائی کے اثاثے سامنے آچکے ہیں۔ایسے دیانت کی معراج تک پہنچنے والے لاکھوں سے کیا کم ہونگے۔آج عید پر قوم کی تقدیرکا ملک سمجھنے والوں کے کارناموں کو کوئی سلام اور کوئی کرتوتوں پر ملامت کر رہا ہے۔ ذرا سوچئے جو لوگ ملک کے وسائل کا اجاڑا کر گئے یا کررہے ہیں، اس سے متاثر کون ہوا؟

ذرا غور فرمایئے چین‘ جنوبی کوریا‘ سعودی عرب‘ امارات‘ قطر اور کئی دیگر ترقی یافتہ ممالک اگر وہاں بھی ایسے لوگ اقتدار میں آتے تو ان ممالک کا بھی یہی حشر ہوتا۔ انکے بال بچوں کا بال بال بھی قرضوں میں جکڑا جاتا۔ عرب ممالک سے تیل نکلتا ہے اسکے مقابلے میں پاکستان میں سونے کی کانیں ہیں اگر پاکستان میں وسائل کو نہ لوٹا گیا ہوتا تو پاکستان بھی ان ممالک کی طرح خوشحال ہوتا اور کوئی شہری مبتلائے وبال نہ ہوتا۔ شخصیت پرستی کے سحر سے نکلیں، جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کھاتے ہیں تو لگاتے بھی ہیں۔ البتہ کچھ نہ لگانے اور سارے کا سارا کھا جانے والے بڑے مجرم ہیں ۔وہ جہاں ہیں جس بھی پارٹی سے ان کا تعلق ہے، وہ ملک و قوم ہی نہیں‘ انسانیت کے دشمن اور ہماری زبوں حالی کے ذمہ دار بھی ہیں، ان ہی کی وجہ سے عید کی خوشیاں غارت ہوتی ہیں۔ جیسی بھی ہے عید مبارک۔