یروشلم میں امریکی سفارت خانے کا منصوبہ ویٹیکن اور فلسطین کے تعلقات میں خاصی گرمجوشی

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع جنوری 14, 2017 | 17:50 شام

 

فلسطین (شفق ڈیسک) فلسطینی صدر محمود عباس نے خبردار کیا ہے کہ اگر منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ امریکی سفارتخانے کو تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے کا فیصلہ کریں تو یہ قیام امن کیلئے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ وہ پاپ فرانسس سے ملاقات کے بعد ویٹیکن کے لیے فلسطینی سفارت خانے کے قیام کے بعد گفتگو کر رہے تھے۔ ویٹیکن نے ڈیڑھ برس قبل فلسطینی کو بطور ریاست تسلیم کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ مشرق وسطیٰ کے تنازعات میں مشرقی یروشلم ایک پیچیدہ اور حساس ترین موضوع ہے۔ فلسطینی مشرقی یروشلم کو اپنی ریاست

کا دارالخلافہ قرار دیتے ہیں جب کہ اسرائیل پورے یروشلم کو اپنا دارالخلافہ قرار دیتا ہے۔ فرانس کی میزبانی میں فلسطین اور اسرائیل کے درمیان مذاکرات شروع کروانے کیلئے انٹرنیشنل کانفرنس کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ پاپ فرانسس بارہا امن مذاکرات شروع کرنے پر زور دیتے رہے ہیں۔ ویٹیکن اور فلسطینی کے درمیان تعلقات میں 2015ء سے خاصی گرم جوشی آئی ہے لیکن ویٹیکن کی طرف سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے فیصلے سے اسرائیل نے خاصی ناراضی کا اظہار کیا تھا۔ روم میں جیمز رینولڈز کا کہنا ہے کہ فلسطینی اور اسرائیلی دونوں اپنے لئے حامی تلاش کرنے میں مسلسل کوششیں کرتے رہتے ہیں لیکن ویٹیکن کی جانب سے فلسطین کو تسلیم کرنے اور فلسطینی سفارت خانہ کھولنا فلسطین کیلئے ایک زبردست انعام سے کم نہیں۔ اب جب ویٹیکن میں اسرائیل اور فلسطین دونوں کے سفارتخانے موجود ہیں تو ایسے میں پوپ دونوں ممالک میں کشیدگی کم کرانے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ سنیچر کو فلسطینی صدر محمود عباس نے ایک مرتبہ پھر اس خدشے کا اظہار کیا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے کا فیصلہ نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنے خدشات سے ڈونلڈ ٹرمپ کو تحریری طور پر آگاہ کر چکے ہیں۔ فلسطینی حکام کا کہنا ہے کہ اگر ایسا ہوا تو یہ فیصلہ دو ریاستی حل کیلئے نقصان دہ ہو گا۔ فرانسیسی اخبار لی فگارو کے بقول مسٹر عباس کا کہنا تھا کہ اس فیصلے سے نے صرف امریکی قیام امن میں کردار ادا کرنے کی قانونی حیثیت کھو دے گا بلکہ یہ فیصلہ دو ریاستی حل کو بھی تباہ کر دے گا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ٹرمپ ایسا کرتے ہیں تو فلسطینی اسرائیل کو تسلیم کرنے کے فیصلے پر ازسرنو غور بھی کر سکتے ہیں۔ پیرس ہونیوالے امن مذاکرات میں ستر ممالک شرکت کر رہے ہیں۔