بہت ہو گئی لعن طعن چلو اب ہمدردیاں سمیٹیں ، ایم کیو ایم اب کیا چال چلنے والی ہے؟

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع اکتوبر 03, 2016 | 16:52 شام

لاہور(شیر سلطان ملک) چند ہفتے قبل ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین کی جانب سے پاکستان اور افواج پاکستان کے خلاف زہر اگلنے کے بعد ملک بھر سے ایم کیو ایم اور الطاف حسین پر تنقید اور لعن طعن کا نہ رکنے والا سلسلہ چل نکلا ۔ یہی نہیں بلکہ حکومت کو بھی بظاہر چند سخت فیصلے کرنا پڑے ، ایم کیو ایم کے متعدد رہنماؤں کو گرفتار کیا گیا دفاتر کو مسمار کیا گیا ۔ سندھ میں ایم کیو ایم کے سینکڑوں دفاتر مسمار کیے گئے۔ اور ایم کیو ایم کے رہنماؤں پر دباؤ بڑھایا گیا جسکے بعد کراچی اور سندھ بھر میں ایم کیو
ایم اتنی مجبور ہو گئی کہ اسے الطاف حسین سے لاتعلقی کا اظہار کرنا پڑ گیا ۔ اس موقع پر ایم کیو ایم لندن اور ایم کیو ایم پاکستان کا شوشہ کھڑا کیا گیا اور بار با ر ایم کیوایم لندن کا لفظ استعمال کرکے یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ سارے فساد کی جڑ یہی ایم کیو ایم لندن ہے اور پاکستان میں ایم کیو ایم کے سب رہنما فرشتے ہیں ۔حیران کن بات یہ ہے کہ ہمارے ملک کے زیرک اور منجھے ہوئے سیاستدان خاموشی سے یہ سارا ڈرامہ دیکھ رہے ہیں حالانکہ بھیڑ بکریوں جیسی 20 کروڑ عوام کے جذبات اور خیالات کچھ اور ہی ہیں ۔ پاکستان کے عوام صرف یہ چاہتے ہیں کہ الطاف حسین کو پاکستان لاکر اسکے جرائم کی سزا دی جائے اور ایم کیو ایم پر مکمل پابندی لگائی جائے۔ مگر ہمارے صف اول کے سیاستدانوں کے بیانات کچھ اور ہی کہانی بیان کر رہے ہیں ۔ وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف کہتے ہیں ایم کیو ایم کراچی پاکستان کی سیاست اور پارلیمان کا حصہ ہے اسے الگ نہیں کیا جاسکتا ۔ تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم کراچی کے موقف کی حمایت کرتے ہیں ۔ اسی طرح بلاول بھٹو زرداری بھی ایم کیو ایم کراچی اور ایم کیو ایم لندن والے ڈرامے پر چپ سادھے ہوئے ہیں اور سندھ میں بندر بانٹ پر خوش ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ الطاف حسین کی پاکستان مخالف تقریر کے بعد جبکہ کراچی ہی سے الطاف حسین کے حق میں ایم کیو ایم رہنماؤں کے بیانات آنا شروع ہو گئے تھے اور فاروق ستار اور انکے چند ساتھیوں کے الطاف حسین سے لاتعلقی کے بیان کی نفی کردی گئی۔ تو اس پر بھی ہمارے منجھے ہوئے سیاستدانوں کو کچھ سمجھ نہ آیا اور آج جبکہ ایم کیو ایم لندن نے فاروق ستار سے لاتعلقی کا اظہار کرنا شروع کردیا ہے اس پر بھی اس سارے کھیل کی کسی کو سمجھ نہیں آرہی۔ اور بڑی آسانی کے ساتھ ایم کیو ایم کو دوبارہ منظم ہونے کا موقع فراہم کیا جارہا ہے دوسرے لفظوں میں پاک رینجرز اور سیکورٹی فورسز کی کاروائیوں کو بے مقصد بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ دراصل اندر کی بات صرف اتنی سی ہے کہ الطاف حسین کو اس کے بدترین انجام سے بچانے کے لیے ہی ایم کیو ایم لندن اور ایم کیو ایم پاکستان یا کراچی کا ڈرامہ بنایا گیا۔ اصل فیصلے پہلے بھی الطاف حسین کرتا تھا اور آئیندہ بھی وہی کرے گا جب تک کہ اسے اپنے کیے کی سزا نہ مل جائے۔ دوسری اور اہم بات یہ کہ ایم کیو ایم کو 1993 میں فوجی آپریشن کے بعد بھی نئی زندگی انہی مفاہمت اور مفادات کی سیاست کرنے والے سیاستدانوں نے دی اور اب بھی ایم کیو ایم کو دوبارہ پاکستان میں قدم جمانے کا موقع فراہم کرنے والے یہی سیاستدان ہیں ۔ اللہ تعالیٰ پاکستان کی حفاظت کرے۔