سبق

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع اکتوبر 16, 2016 | 05:02 صبح



 

یوم عاشور پر صدر، وزیرِاعظم،وزرائے اعلیٰ، گورنرز، سپیکرز،چیئر مین سینٹ اور دیگر اہم حکومتی و غیر حکومتی شخصیات کی طرف سے جاری کردہ بیانات میں واقعہ کربلا سے سبق حاصل کرنے کے قوم کے نام پیغامات دیئے گئے۔ قومی اور مذہبی ایام پر بڑوں کے قوم کے نام پیغامات مشینی انداز میں لکھے، جاری کئے اور شائع و نشر کئے جاتے ہیں۔جن کے نام کے ساتھ یہ جاری ہوتے ہیں انہوں نے شاید ہی ان کو خود پڑھا ہو۔یومِ عاشور پر پیغامات میں بجا کہا گیا:واقعہ کربلادرس ہے قربانی کا، برداشت اور تحمل کا،

سچ کی خاطر باطل قوتوں کے سامنے ڈٹ جانے اور ان سے ٹکرا جانے کا۔ جن کے ہاتھ میں عوام ووٹ کے ذریعے اپنا مقدر تھما دیتے ہیں، کیا انہوں نے خود بھی واقعہ کربلا سے رہنمائی،درس اور سبق لیا ہے؟ اس ایلیٹ نے تواپنی تاریخ اور خود پر گزری کربلا کو بھی بھلا دیا، اُس سے بھی کچھ عبرت پکڑی نہ سبق سیکھا۔

بھٹو اور شریف، پاکستان کے سب سے بڑے سیاسی خاندان ہیں۔ دونوں خاندان پاکستان کے کسی بھی جمہوری یا فوجی حکمران سے زیادہ عرصہ اقتدار میں رہے۔ پیپلزپارٹی بھٹو اور مسلم لیگ ن شریف خاندان ہی کا نام ہے ۔ ان سے زیادہ اپنی زندگیوں میں حشر کا سماں، محشر کی گھڑی اور کربلا کس نے دیکھی ہوگی۔ سابق ڈپٹی کمشنر اختر علی مونگا اپنی یاداشتیں دہرا رہے تھے جس میں ان خاندانوں کی قیادت پرستم کی ایک جھلک موجود ہے ’’ایک دن آصف علی زرداری کو ملنے کیلئے لاہور جیل کی ڈیوڑھی میں محترمہ بینظیر بھٹو اپنے تینوں بچوں کے ساتھ سخت گرمی اور حبس کے دنوں میں زمین پر اینٹیں رکھ کر بیٹھی تھیں اور انتظار کی شدت سے بے حال تھیں۔ پھر ایک دن اسلام آباد سے میاں نواز شریف کو جہاز پر کراچی لے جاتے ہوئے فوجی گارڈ نے ہتھکڑی لگے ہاتھ بھی سیٹ کیساتھ زنجیروں سے باندھ دئیے تھے۔‘‘

بھٹو خاندان کا پڑائو تو ساحلِ سیاست پر ہے۔ سیاست کے ذریعے ریاست میں عملداری زرداری خاندان میں منتقل کرلی گئی ہے۔ نام بہرحال بھٹوز کا،بلاول بھٹو ، آصفہ بھٹو اور بختاور بھٹو کے ذریعے گونج رہا ہے۔ اس سیاست کے مدارالمہام آصف علی زرداری ہیں جن کی اپنی زندگی مشکلات اور مصائب سے عبارت ہے۔ ایک عرصہ جیل میں رہے انکے بقول جیل میں قتل کرنے کی سازش اور زبان کاٹنے کی کوشش کی گئی۔بینظیر پر 18اکتوبر 2007ء کو حملہ ہوا جس میں وہ خود تو بچ گئیں جبکہ تین سو افراد خون میں نہا گئے۔ انہوں نے بھی اس واقعہ سے سبق اور مشرف کی وارننگ سے کچھ حاصل نہ کیا۔اقتدار میں آنے کاایسا خبط کہ موت سے بھی بے خوف ہوگئیں۔

بھٹو اور شریف خاندان کی آزمائش ختم ہوئی۔ اللہ نے ان کو ایک بار پھر اقتدار دیا۔ نوے کی دہائی میں ان خاندانوں کو ایک دوسرے سے دشمنی کی حد تک مخالفت‘ پرلے درجے کی نفرت اور سازشیں اقتدار میں لیکر آئیں۔ حالیہ برسوں اقتدارمیں آنے کا وہی کام دونوں نے ایک دوسرے کیساتھ محبت یگانگت اور حسنِ سلوک سے کیا۔ 2008ء کے الیکشن کے بعد دو پارٹیاں بیک وقت اقتدار اور اپوزیشن میں بھی رہیں۔ مرکز میں پی پی اور ن لیگ دونوں کے وزراء نے جنرل پرویزمشرف سے حلف لیا ، جو اُس وقت محب وطن تھے اور بعد ازاں غدار ٹھہرے؟

حضرت امام عالی مقامؑ اور آپکے خاندان کے ساتھ کربلا میں جو بربریت ہوئی ان کو الفاظ کے سانچے میں ڈھالنا ناممکن ہے۔ کربلا اس واقعہ کے بعد ظلم و ستم، بربریت ہولناکی اور خوفناکی کا استعارہ بن گیا۔ ن لیگ اور پی پی کی قیادت کو ایک دوسرے کے ادوار اور خصوصی طور پر نوازشریف اور خاندان کو مشرف دور میں قدم قدم پر کربلائوں کا سامنا کرنا پڑا۔ بھٹو خاندان میں شہادتیں اور ہلاکتیں کسی بھی سیاسی خاندان کے مقابلے میں زیادہ ہیں۔ ان پارٹیوں کی حالات کے ستم کا سامنا کرنیوالی قیادتوں نے اپنے اوپر گزرے آلام و مصائب ہی سے سبق حاصل کیا ہوتا تو خدا کی طرف سے عنایت کردہ اقتدار اور اختیار کو خدا کے بندوں کی خدمت کیلئے استعمال کرتے۔ یہ لوگ کہتے تو یہی ہیں مگر حقیقت پرانکے بیانات ملمع سازی نہیں کرسکتے۔ انکو تو چاہیے تن من دھن سے ملک، قوم اور ملت کی پاسبانی کا حق ادا کرتے، مگر وہ اس کو تاریکیوں کے حوالے کرکے اپنی زندگیوں کو تابناک بنا رہے ہیں۔ ایک دن زندگی کا چراغ گل ہونا ہے، شمع زیست بُجھ جانی ہے۔؎

نغمہ ہائے غم کو بھی ،اے دل غنیمت جانئے

بے صدا ہو جائیگا، یہ سازِ ہستی، ایک دن

نام حسینؑ کا زندہ ہے اور تاابد رہے گا۔ذکریزید کا بھی ہوتا ہے مگر کن الفاظ کے ساتھ…

آج مسلم لیگ ن میاں نوازشریف کو پانامہ لیکس سے محفوظ رکھنے کی کوشش کررہی ہے۔ اگر پانامہ لیکس میں کچھ بھی نہیں تو تحقیقات سے راہِ فرار کیوں؟ آصف زرداری اور انکے کئی پیاروں پر کرپشن کے کیسزہیں، ان کی پارٹی حق اور سچ کی بات کہنے کے بجائے احتساب کا تیر اپنی طرف ہوتا دیکھ کر نوازشریف کے پیچھے چھپ رہی ہے۔ دونوں پارٹیوں کے قائدین کے اثاثے، یہ حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں، یزید کے ظلم کی طرح بڑھتے ہی چلے جاتے ہیں۔ ’’سامان سوبرس کا پل کی خبر نہیں۔‘‘

اقتدار کا بھی پل کا بھروسا نہیں۔میاں صاحب نے کم ازکم 2028ء تک حکومت میں رہنے کی پلاننگ کی ہوئی ہے مگرپل کی خبر نہیں۔ایک بار پھر سیرل المیڈا کے ذریعے ڈان میں خبر لگوا کے بارود کو تیلی دکھا دی اور اس کی تباہی اورتپش سے دور بھاگ رہے ہیں۔ڈان اور سیرل کو اپنے اقتدارکی بلی چڑھا رہے ہیں۔جس اجلاس کی کارروائی لیک ہوئی اس میں نواز،شہباز،نثار،خواجہ آصف اور اعزاز چودھری حکومت کی نمائندگی کررہے تھے۔ دوسری ٹیم میں جنرل رضوان اور ایک دوسرے فوجی افسر تھے۔وہ خبر لیک کیسے ہوگئی جس پر کو کمانڈر اجلاس میں کہا گیا ’’من گھڑت خبر کا فیڈ کیا جانا قومی سلامتی کے منافی ہے‘‘۔کہا جاتا ہے یہ خبر مریم نواز کے میڈیا سیل کے ذریعے لیک کی گئی۔فوج کی برہمی اور شدید ری ایکشن سامنے آگیا۔چیف جسٹس سپریم کورٹ نے کل ہی کہا،ملک میں جمہوریت کے نام پر بادشاہت ہے اور چیف جسٹس وزیراعظم کی نااہلی کی درخواست کی سماعت بھی 20اکتوبر کو کررہے ہیں۔خدا خیر کرے،حکمرانوں کیلئے اقتدار سے جانے کے پُروقار اوربا عزت در وا رکھے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں عمران حکومت گرانے کیلئے 30اکتوبر کواسلام آباد بند کرینگے‘ حکمران اس قبل ہے اپنی روانگی کے حالات پیدا کررہے ہیں تاہم میری اب بھی رائے یہی ہے کہ ن لیگ اپنی مدت پوری کریگی۔

حالات کے ستم کی بھٹی سے نکل کر مسلمان تو ولی بن جانا چاہیے مگر یہ کھلاڑی بن کے نکلے اور زرکے پیچھے بھاگے چلے جارہے ہیں۔ یہ دو خاندان اپنی دولت واپس لے آئیں تو سیکڑوں شاید ہزاروں دیگر کے اثاثے بھی واپس آجائینگے جس سے ہمارا ملک ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہوجائیگا۔ جی ہاں! ترقی یافتہ ممالک کی صف میں۔یہ واضح رہے عرب ممالک بھی ترقی یافتہ ممالک میں شامل نہیں ہیں۔ ان کو امیر ملک کہا جاسکتا ۔