دو بازوں کی حیرت انگیز پرواز

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع مارچ 14, 2017 | 10:26 صبح

لاہور(سید اسامہ اقبال)تقریباً ایک برس کے طویل سفر کے بعد ناگا اور پانگنتی نامی دو خصوصی باز بھارت کی ریاست ناگالینڈ میں واقع دویانگ جھیل کے علاقے میں واپس آگئے ہیں۔
علاقے کے دیگر لاکھوں بازوں کے درمیان انھیں تلاش کرنا اب بھی مشکل ہے لیکن حکام کا کہنا ہے کہ سیٹیلائٹ ڈیٹا سے ان کی موجودگی کا پتہ چل رہا ہے۔
ناگالینڈ میں محکمہ جنگلات کے ایک سینیئر اہلکار ایم لوکیشور راو¿ کہتے ہیں: ’ان کی واپسی کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے ایک چھوٹی سی تقریب منعقد کی گئی ہے۔‘

ان دونوں بازوں کے لوٹنے کے ساتھ ہی ان سے وابستہ سائنس دانوں اور مقامی ناگا قبائلیوں کا ایک برس سے جاری انتظار بھی ختم ہو گیا ہے۔
ناگا اور پانگنتی ان تین آم±ر بازوں میں سے ہیں جنھیں گذشتہ برس سیٹیلائٹ ٹریکنگ چِپ لگائی گئی تھی۔ البتہ ان کا ایک ساتھی ووکھا ابھی واپس نہیں آیا۔
آم±ر باز کا شمار دنیا کے طویل ترین سفر کرنے والے شکاری پرندوں میں ہوتا ہے اور یہ ہر سال لاکھوں کی تعداد میں امر جھیل کی طرف آتے ہیں۔
یہ باز ہر برس تقریباً 22000 کلومیٹر کا سفر کرتے ہیں۔
لوکیشور راو¿ نے بی بی سی کو بتایا: ’سائنس دانوں سے لے کر ناگالینڈ کے ووکھا ضلع میں بسنے والے مقامی باشندوں تک تمام لوگ بہت پرجوش ہیں اور سبھی پوچھ رہے ہیں کہ آخر وہ ہیں کہاں؟‘

گذشتہ برس ٹریکنگ چِپ لگائے جانے کے بعد یہ پرندے آسام، بنگلہ دیش، خلیج بنگال، جنوبی بھارت اور بحیرہ عرب کے اوپر سے اڑتے ہوئے جنوبی افریقہ چلے گئے تھے۔
ووکھا نام کے ایک اور باز پر بھی سیٹیلائٹ چپ لگائی گئی تھی۔ لیکن سیٹیلائٹ کے مطابق وہ اب بھی جنوبی افریقہ میں ہی کہیں ہے۔
راو¿ کے مطابق ’اس کا مطلب یہ ہوا کہ یا تو ووکھا وہیں مر گیا ہے یا پھر چپ وہاں گر گئی ہے۔‘
جنوبی افریقہ سے کچھ بازوں نے بوتسوانا کے لیے اڑان بھری اور کچھ نے تنزانیہ کا رخ کیا۔ وہاں چند ماہ گزارنے کے بعد وہ منگولیا میں اپنے گھروں کو واپس لوٹنے لگے۔ راستے میں تھوڑا آرام کرنے کے لیے وہ کچھ دن ناگالینڈ میں رکے۔
کیشور راو¿ کہتے ہیں: ’سائنس دانوں کو ان کے پرواز کے راستے کے متعلق معلومات بہت کم تھیں لیکن اب پہلی بار ہم ان کے پوری پرواز کے راستے، منگولیا سے ناگالینڈ، یہاں سے افریقہ اور پھر واپس منگولیا کے بارے میں اچھی طرح سے جانتے ہیں۔‘
سائنس دانوں کا کہنا ہے آمر باز اپنا گھر سردیوں میں منگولیا کی منجمد کر دینے والی سردی سے بچنے کے لیے ترک کر دیتے ہیں۔
راو¿ کے مطابق: ’لیکن ہمیں یہ معلوم کرنے کی ضرورت ہے کہ ان بازوں کے منگولیا چھوڑنے صرف یہی وجہ ہے یا کچھ اور بات بھی ہے۔‘
سائنس دان ان بازوں کی غذا اور کھانے کی عادات و اطوار کے متعلق بھی پتہ لگانے کی کوشش کریں گے۔ اس کے علاوہ یہ بھی معلوم کرنے کی کوشش کی جائے گی کہ کیا کئی براعظموں سے گزرتے ہوئے یہ کسی قسم کے وائرس یا بیکٹیریا کو تو ساتھ نہیں لاتے۔
اس بار ناگا اور پانگنتی کی واپسی کا جشن منانے والے وہی ناگا قبائلی ہیں جو دو برس پہلے تک ہزاروں کی تعداد میں آمر بازوں کا شکار کیا کرتے تھے۔ لیکن پھر حکومت اور غیر سرکاری تنظیموں نے 2013 میں مشترکہ طور پر ان کے تحفظ کے لیے بیداری مہم کا آغاز کیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ گذشتہ برس سے ایک بھی باز کا شکار نہیں کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ان بازوں کے نام پر ہونے والی سیاحت سے مقامی معیشت میں پیسہ بھی آ رہا ہے۔
بےخوف بازوں کی برق رفتار اڑان اور شکار کرنے کے انداز کو دیکھنے کے لیے بڑی تعداد میں سیاح یہاں آتے ہیں۔