صرف بالغوں کے لئے،وہ بھی رات کو نہ پڑھیں

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع نومبر 28, 2016 | 20:08 شام

 

کوہ چلتن
کوئٹہ کے قریب واقع اس پہاڑی سلسلے کو ’چیل تن‘کہاجاتا ہے یعنی ’چالیس جسم‘۔اس جگہ کے بارے میں مشہور ہے کہ یہاں ان چالیس بچوں کی روحیں بھٹکتی ہیں جن کے والدین نے انہیں وہ تنہا مرنے کے لئے چھوڑ دیا تھا۔

 

 

409466-7672.jpg" style="border:0px; margin:0px 0px 1.5em; max-width:100%; min-height:auto; overflow-x:auto; vertical-align:middle" />
مکلی کا قبرستان
صوبہ سند ھ کے شہر ٹھٹھہ کے قریب واقع یہ قبرستان اپنے اندر کئی داستانیں چھپائے ہوئے ہے۔یہ دنیا کا سب سے بڑا قبرستان ہے جہاں قبریں منزلوں میں بنائی گئی ہیں۔تیرھویں صدی کے اس قبرستان میں ایک لاکھ سے زائد قبریں ہیں اور دفن ہونے والے لوگوں میں علاقے کے سردار،نیک لوگ اور حکمران شامل ہیں لیکن اب یہاں کسی کو دفن نہیں کیا جاتا۔


شہرروغن
بلوچستان میں واقع اس شہر کے بارے میں مشہور ہے کہ یہاں جن یا بدروحیں موجود ہیں۔کہاجاتا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے زمانے میں یہاں ایک بدی الجمال نامی شہزادی رہا کرتی تھی لیکن اس پر جنات کا سایہ تھا۔کئی شہزادوں نے اسے ان جنات سے چھڑانے کی کوشش کی لیکن تمام ناکام ہوئے اور پھر ایک دن شہزادے سیف الملوک نے اسے ان جنات کے چنگل سے چھڑایالیکن اب مشہور ہے کہ یہ جن اب اس علاقے کی پہاڑیوں،غاروں اورندیوں پر حکومت کرتے ہیں اور یہاں آنے والے لوگوں پر حملہ کرتے رہتے ہیں۔


موہاتا پیلس
کراچی میں واقع اس شہر کے بارے میں مشہور ہے کہ یہاں برطانوی دور سے مافوق الفطرت اشیاءکا قبضہ ہے۔ یہ پیلس 1927ءمیں بنایا گیا تھا اور کہا جاتا ہے کہ یہاں بہت عجیب حرکتیں دیکھنے کو ملتی ہیں،کبھی پیلس کی روشنیاں خودبخود مدھم اور تیز ہوجاتی ہیں اور کبھی غیر مانوس سی آوازیں آنے لگتی ہیں۔


موہنجودڑو
دوہزار سال پرانایہ شہر اپنے اندر کئی راز سمیٹے ہوئے ہے۔سائنسی تحقیق کے مطابق یہ شہر تھرمل نیوکلئیردھماکے کی وجہ سے تباہ ہوااورسائنسدان اس بات پر حیران ہیں کہ دوہزار سال قبل کس طرح اس علاقے کے لوگوں کو ایٹمی دھماکے کا علم تھا تاہم ابھی تک اس راز سے پردہ نہیں اٹھایا جاسکا۔


کالاباغ
آپ نے کالاباغ ڈیم کے بارے میں تو بہت کچھ پڑھ رکھا ہوگا لیکن کیاآپ کو معلوم ہے کہ جس جگہ یہ ڈیم بننا تھا وہاں آج بھی پراسرار بڑھیا راتوں کو پھرتی ہوئی پائی جاتی ہے۔جن لوگوں نے اس بڑھیا کو دیکھا ہے ،ان کا کہنا ہے کہ یہ چھوٹے قد ،فربہ جسم ،لمبے بالوں والی بڑھیاراتوں کو وہاں چلتی ہوئی دیکھی جاتی ہے۔


کوہ سلیمان
تخت سلیمانی کی سب سے بلند چوٹی کوہ سلیمان ہے اور پشتوروایات کے مطابق یہ حضرت سلیمان علیہ السلام سے منصوب ہے۔ابن بطوطہ کے مطابق اس چوٹی پرپہنچنے والے پہلے شخص حضرت سلیمان تھے اور یہ بھی روایات میں ملتا ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام اور ان کی اولاد نے اردگرد کے علاقے میں سکونت اختیار کی۔


چوکھنڈی کا قبرستان
یہ قبرستان کراچی سے 29کلومیٹر مشرق میں واقع ہے جس میں ماضی کے بادشاہ اور ملکائیں مدفون ہیں۔اس متروکہ قبرستان کے بارے میں مشہور ہے کہ جیسے ہی سورج غروب ہوتا ہے تو یہاں موجود قبریں جلنے لگتی ہیں اوربہت زیادہ گرم ہوجاتی ہیں۔کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ کچھ قبروں میں سے چیخ وپکار بھی سنائی دیتی ہے۔


پیر چٹال نورانی گندھاوا
بلوچستان کے علاقے جھل مگسی کے قریب ایک نخلستان آباد ہے اور اس کے پانی میں دوفٹ لمبی مچھلیاں پائی جاتی ہیںاور اگر کوئی انہیں نقصان پہنچانے کی کوشش کرے تو یہ اس کاٹ کر موت کے گھاٹ اتار دیتی ہے۔

جھیل سیف الملوک 

کہاجاتا ہے کہ صدیوں قبل ایک ایرانی شہزادہ اور پریوں کی رانی ایک دوسرے کے عشق میں مبتلا ہوگئے لیکن کچھ روحوں کو یہ پیار ایک آنکھ نہ بھایا اور انہوں نے دونوں کو قتل کردیا اور تب سے اب تک ہررات کو پریاں اس جگہ آکر دونوں عاشقوں کو یاد کرکے روتی ہیں۔

 
 
 

 

کارساز روڈ کراچی
کارساز روڈ کراچی کی معروف ترین سڑکوں میں شمار ہوتی ہے۔ اس سڑک کے بارے میں قدیم وقتوں سے آج تک ایک کہانی بیان کی جاتی ہے کہ اکثر اس روڈ پر ایک پراسرار لڑکی کو دیکھا جاتا ہے جو دلہن بنی ہوئی ہوتی ہے اور اس نے سرخ لباس پہن رکھا ہوتا ہے۔لوگوں کا کہناہے 60 کی دہائی میں یہ خاتون ایک ڈانسر تھی جسے قتل کر کے اس کی لاش کو اس سڑک پر چھوڑ دیا گیا جو کہ کارساز کے نام سے مشہور ہے۔جو کہ یہاں سے گزرنے والوں کو مدد کیلئے رکنے کو کہتی ہے اور اچانک غائب ہو جاتی ہے جبکہ اکثر لوگ اسے یہاں رات کے وقت بھٹکتے ہوئے دیکھ چکے ہیں۔

موہٹہ پیلیس
موہٹہ پیلیس ایک کاروباری شخصیت کا گھر تھا جہاں وہ گرمیوں میں قیام کرتا تھا۔برطانوی راج کے دوران ہی اس شخصیت کا انتقال ہو گیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ تب سے اس کی روح اکثر اس پیلیس میں آتی رہتی ہے۔ یہاں سیاحوں کی رہنمائی کرنے والے گائیڈز کا مبینہ طور پر کہنا ہے کہ اس پیلیس میں مختلف چیزیں خود بخود ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتی رہتی ہیں۔پیلیس کے گارڈز کا دعویٰ ہے کہ انہیں رات کے وقت پیلیس میں کسی روح کی موجودگی کا احساس ہوتا ہے۔


کوہ چلتن
کوہ ”چلتن“ کا اصل نام ”چہل تن“ ہے جس کے معنی ”چالیس جسم“ کے ہیں۔ایک مقامی داستان کے مطابق کوہ چلتن کے چوٹی پر 40بچوں کی روحیں رہتی ہیں۔


ہاﺅس نمبر 39کے، پی ای سی ایچ ایس کالونی، کراچی
اگر آپ کبھی پی ای سی ایچ ایس کے بلاک 6کی گلیوں میں گھومتے رہے ہوں تو آپ نے دیکھا ہو گا کہ وہاں کے ہاﺅس نمبر 39Kسے پراسرار روشنی آ رہی ہوتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ وہاں کوئی رہائش پذیر ہے، حالانکہ یہ گھر کئی عشروں سے بند پڑا ہے۔ کئی لوگوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس گھر میں سفید لباس پہنے ہوئے ایک کمزور سی خاتون کو اکثر دیکھا ہے جو رات کے پچھلے پہر گلی میں چلتی نظر آتی ہے مگر صبح 3بجے کے قریب غائب ہو جاتی ہے۔


شیخوپورہ قلعہ، لاہور
ایک وقت تھا کہ اس قلعے میں ملکہ اور شہزادیاں رہا کرتی تھیں۔ اب یہ قلعہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور کوئی اس کی تعمیرنو کرنے کو تیار نہیں کیونکہ ان لوگوں کا خیال ہے کہ قلعے میں اب بھی ان ملکہ اور شہزادیوں کی روحیں آتی رہتی ہیں۔


شمشان گھاٹ، حیدرآباد
حیدرآباد میں واقع شمشان گھاٹ، جہاں ہندو اپنے انتقال کر جانے والے لوگوں کی چتائیں جلاتے ہیں، اس کے بارے میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ جن لوگوں کو یہاں جلایا جاتا رہا ہے ان میں سے بعض کی روحیں اب بھی یہیں بھٹکتی پھر رہی ہیں۔ یہ شمشان گھاٹ تقریباً اڑھائی سو سال پرانی ہے۔ شمشان گھاٹ کے گارڈ اور دیگر سٹاف کا کہنا ہے کہ غروب آفتاب کے بعد اکثر یہاں کئی بچے کھیلنے کے لیے آتے ہیں اور عجیب و غریب قسم کی آوازیں نکالتے ہیں۔ان میں سے کسی کو بھی کبھی گیٹ سے آتے ہوئے نہیں دیکھا گیا۔ بچے جہاں کھیلتے ہیں وہیں نمودار ہوتے ہیں اور پھر وہیں غائب ہو جاتے ہیں۔