ساڑھی برہنہ جسم کو ڈھانپ لیتی مگر میری تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع جنوری 18, 2017 | 18:39 شام

میں اس کا ''چہرہ'' دیکھ رہی تھی۔ جسے میں پہلی بار دیکھ رہی تھی… وہ انسان تھا اسے میرے ساتھ یہی کرنا تھا۔ وہ خدا نہیں تھا جو رحم کرتا… اور میں… میں نے انسان کو چاہا تھا… پا لیا تھا… اب جب پا لیا تھا… تو کیا پایا تھا… ذلت، رسوائی، سفاکی، بے رحمی…
 اس نے کہا تھا ان دونوں نے مجھے وہاں اس سڑک پر اس لیے بلوایا تھا کیونکہ وہ مجھے شرمندہ کرنا چاہتے تھے… میرے رونگٹے کھڑے ہو رہے تھے… کیا وہ تب مجھے شرمندہ ک

رنا چاہتے تھے یا کچھ اور کرنا چاہتے تھے… جسٹ فار انجوائے منٹ یا جسٹ فار ایڈوینچر… اور انسان شر کو اس طرح مانگتا ہے جیسے خیر کو اور بے شک انسان بڑا جلد باز واقع ہوا ہے۔
 اور آئینہ مجھے اپنا عکس دکھا رہا تھا… میرا میک اَپ سے لتھڑا چہرہ، میرے تراشیدہ بال، میرے عریاں بازو اور سینہ ،شیفون کی مہین ساڑھی سے جھلکتا بلاؤز سے نیچے کمر اور ناف تک کا میرا جسم… میں نے بے یقینی سے اس عکس کو دیکھا یہ مہر سمیع نہیں ہو سکتی تھی۔
 ''اے اللہ آپ کے فضل اور مہربانیوں کی کوئی کمی نہیں، میں قدم قدم پر آپ کو احسان کرتا ہوا پاتی ہوں۔ مجھ سے آپ کی مہربانیوں کا شکر ادا نہیں ہو پاتا، میری اس کمی کو درگزر فرما مجھے ہر درد اور تکلیف سے محفوظ رکھ۔ میرے دل کے سکون اور میری خوشیوں کی حفاظت فرما۔'' چار سال بعد میری ماں کی آواز کسی اسم اعظم کی طرح میرے وجود کے اندر گونجنے لگی تھی… اور چار سال بعد… ٹھیک چار سال بعد مجھے اللہ یاد آ گیا تھا وہ جو انسان کی شاہ رگ سے زیادہ قریب ہوتا ہے… وہ جو اس کے ظاہر اور باطن کو جانتا ہے اور دونوں کو عیاں کرنے کی قدرت رکھتا ہے… وہ جس نے چار سال پہلے اس دن میرے سارے راستے مسدود کر کے مجھے گھر سے نکلنے نہیں دیا… ان دونوں کے سامنے جا کر مجھے ذلت نہیں دی اس کے باوجود کہ میں غلط رستے پر تھی، پر اس نے میرے عیب کو ڈھانپ دیا، مجھ پر رحم کیا، میرے چہرے پر کالک نہیں ملی…
 وہ اللہ جس نے میری زبان گنگ کر کے میرے ماں باپ کے سامنے میری عزت رکھی… اور وہ اللہ جس نے اسی شخص کو میرا مقدر بنایا جس کے لیے میں نے دعا نہیں ضد کی تھی… اور انسان شر کو اس طرح مانگتا ہے جیسے خیر کو اور بے شک انسان بڑا ہی جلد باز واقع ہوا ہے۔
 چار سال کے بعد مجھے وہ اللہ یاد آیا تھا جس سے میں رحم مانگتی تھی اور وہ مجھ پر رحم کرتا تھا… اور میں چار سال کے بعد اس کے سامنے کھڑے ہونے کے قابل نہیں رہی تھی۔
سانوں قبلہ تے کعبہ سوہنا یار دسیندا
اور میں نے اس عشق کا اصلی چہرہ دیکھ لیا تھا جسے میں قبلہ اور کعبہ بنائے بیٹھی تھی…  1000 روپیہ… میں نے اللہ کو ایک مرد کے لیے جانچا تھا… اور اس مرد نے مجھے ایک ہزار روپے کے لیے۔ حساب برابر ہوا۔
سانوں قبلہ تے کعبہ سوہنا یار دسیندا
 میں نے ساڑھی کے پلو کے ساتھ اپنے عریاں جسم کو ڈھانپنے کی کوشش کی… میں ناکام رہی… شیفون کی ساڑھی برہنہ جسم کو ڈھانپ لیتی مگر میری تو روح عریاں ہو رہی تھی۔
 ''اور انسان شر کو اس طرح مانگتا ہے جیسے خیر کو اور بے شک انسان بڑا ہی جلد باز واقع ہوا ہے۔'' ہاں میں نے چار سال پہلے راتوں کو جاگ کر تہجد میں اپنے لیے شر ہی لیا تھا۔ وہ شر جس سے اللہ نے مجھے بچا لیا تھا مگر میری ضد تھی کہ مجھے ''وہ'' ملے… ''وہ'' ہی ملے… تو پھر اس نے مجھے ''وہ'' دے دیا تھا۔ آخر مجھے اللہ سے مانگنا آتا تھا میری دعا کیسے قبول نہ کرتا…

نوٹ:اگر آپ بھی اپنا کوئی کالم،فیچر یا افسانہ ہماری ویب سائٹ پر چلوانا چاہتے ہیں تو اس ای ڈی پر میل کریں۔ای میل آئی ڈی ہے۔۔۔۔

bintehawa727@gmail.com

ہم آپ کے تعاون کے شکر گزار ہوں گے۔