پارلیمنٹ میں گالی گلوچ برگیڈ
تحریر: فضل حسین اعوان
| شائع اکتوبر 06, 2016 | 09:59 صبح
اسلام آباد(مانیٹرنگ) پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں پیپلز پارٹی کے ارکان نے اس وقت ”جو مودی کا یار ہے۔ غدار ہے غدار ہے“ کے نعرے لگانے شروع کردیئے جب مشاہد اللہ خان نے پیپلز پارٹی پر برس کر مسئلہ کشمیر پر اپنی توجہ مرکوز کرنے کے بجائے شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ہونے کی کوشش کررہے تھے۔ساری پارٹیوں کوساتھ رکھنا حکومت کی ضرورت ہے اس کا شاید ہاکس کو خیال نہیں ہے۔وہ اپوزیشن کے اگلی اٹھانے پر مکا لہراتے ہیں اور اینٹ کا جواب پتھر سے دیتے ہیں۔اس کا نقصان یقینا حکومتی پارٹی کو ہوتا ہے۔
اسپیکر ایاز سادق کی سربراہی میں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے دوران اعتزاز احسن نے کہا کہ کل بھوشن جیسا بڑا افسر آج تک کبھی ہاتھ نہیں آیا، ایسے اقدامات ہوں کہ پتاچلے حکومت نے قومی یکجہتی کی ضرورت کا احساس کیا، اگر مودی کے ہاتھ ایسا شخص لگ جاتا تو وہ اسے اقوام متحدہ لے جاتا لیکن نواز شریف نے اپنے خطاب میں اس نام تک نہیں لیا، جس دن وزیراعظم کل بھوشن کا نام لیں گے تب وہ سمجھیں گے کہ انہوں نے مودی کوصحیح پشیمان کیا۔
مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر مشاہد اللہ خان نے کہا کہ مودی سرکار اور بھارتی حکومت دباو¿کا شکار ہے، کشمیر دنیا کا واحد اٹوٹ انگ ہےجہاں فوج لگی ہے، اعتزاز احسن اور خورشید شاہ نے بھی وزیراعظم کی تقریر کی تعریف کی، آپ کہتے ہیں 2018 میں پیپلزپارٹی کا وزیراعظم ہوگا، کہا گیا کہ کلبھوشن کا نام نہیں لیاگیا، 2018 تو کیا 2028 میں بھی آپ کا وزیراعظم نہیں بنے گا ،یہ کہتےہیں نوازشریف پاناما پیپرز میں اپنے آپ کو کلیئر کریں۔
اسپیکر کی جانب سے مشاہد اللہ خان کو کشمیر پر بات کرنیکی ہدایت کی لیکن وہ اپنی بات کرتے رہے، اسی دوران پیپلز پارٹی کے ارکان نے ”جو مودی کا یار ہے۔ وہ غدار ہے غدار ہے“ کے نعرے لگانے لگے۔ جس پر مشاہد اللہ خان نے کہا کہ یہ خود کوجمہوریت پسند پارٹی کہتے ہیں ان کے تماشے دیکھیں، انہیں یہ بتانا ہوگا کہ انہیں چھلانگیں مارنا کس نے سکھایا ، ہم نے یہ بھی دیکھا کہ سکھوں کی فہرستیں بھارتی انٹیلی جنس چیف کو دی گئیں ، اتنا جوش خالصتان کی تحریک کےاڈے تباہ کرتے ہوئے دکھاتے،بینظیر بھٹو شہید کا فہرستیں دیے جانے پر شکریہ ادا کیا گیا۔
اس موقع پر قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے بولنا چاہا تو حکومتی ارکان کی جانب سے شور شرابہ شروع ہوگیا۔ خورشید شاہ نے کہا کہ ہم نے کسی کو برا بھلا نہیں کہا، جس کی ماں نے کبھی کشمیریوں کے لیے ریشم اور زیورات نہیں پہنے انہیں غداروں میں شامل کرتےہیں۔ ہم اسمبلی میں شور شرابا کرکےنئی دلی کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں، اگر حکومت کہتی ہے اپوزیشن منہ کو ٹیپ لگادے تو ٹھیک ہے۔ ایک جماعت تو پہلے ہی پارلیمنٹ کے اجلاس کا بائیکاٹ کرچکی ہے۔ اب اسپیکر فیصلہ کرلیں وہ جارہے ہیں۔
خورشید شاہ کو منانے کے لیے اسپیکر نے کہا کہ ہم کشمیر پر بات کررہے ہیں، کسی کی ذات پر نہیں، ان کی دونوں سے گزارش ہے کہ کشمیر کے ایشو کو ڈی ریل نہ ہونے دیں۔ جس کے بعد سینیٹ قائد ایوان نے راجا ظفر الحق نے کہا کہ ایوان میں جوکچھ ہوا اسے مزید آگے نہ بڑھنے دیا جائے، وہ ایوان میں ہونے والی بدمزگی اور دل آزاری پر معذرت کرتے ہیں۔ اسپیکر ایاز صادق اور سراج الحق کے منانے پر خورشید شاہ مان گئے۔
مشاہد اللہ خان کی تقریر پر بیرسٹر اعتزاز احسن نے کہا کہ انہیں پہلے سے امکان نظر آرہا تھا کہ گالی گلوچ بریگیڈ توپیں چلائے گا اور ان توپوں کا رخ ان کی جانب ہوگا۔ حکومت الزام نہیں لگاتی پرچہ دے دیتی ہے، گالی گلوچ بریگیڈ کے پاس الزام رہ جاتے ہیں، جب کچھ نہیں ملتا تو ایل پی جی یا سکھوں کی فہرستیں کی بات کی جاتی ہے۔ انہوں نے اسمبلی میں کہا تھا الزام نہ لگائیں مقدمہ چلائیں، انہیں کوئی ڈرا یا غائب نہیں کرسکتا، وہ نہ پہلے بھاگے تھے اور نہ اب بھاگیں گے، پرویز مشرف کی سب سےزیادہ مخالفت انہوں نے کی، باقی تو10سال کے لیے باہر چلے گئے تھے۔