جنرل محمود درانی پہلے بھی ایسی حرکتیں کرتے رہے،انڈین میڈیا ان کو جنرل شانتی کہتا ہے،امریکی ایجنٹ کے طور پر بدنام ہیں،وزیر اعظم گیلانی نے برطرف کیا تھا

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع مارچ 09, 2017 | 12:53 شام

لاہور(مانیٹرنگ) میجر جنرل (ر)محمود علی درانی کو وزیراعظم یوسف رضاگیلانی نےایک امریکی اخبار اور ایک بھارتی ٹی وی چینل کو ممبئی حملوں کے الزام میں بھارت میں گرفتار اجمل قصاب کے پاکستانی ہونے کے حوالے سے ایک انٹرویو دینے پر سات جنوری کو قومی سلامتی کے مشیرعہدے سے برطرف کردیا تھا
جنرل محمود درانی پہلے بھی ایسی حرکتیں کرتے رہے،انڈین میڈیا ان کو جنرل شانتی کہتا ہے،امریکی ایجنٹ کے طور پر بدنام ہیں
تب پاکستانی حکام کا کہنا تھا کہ قومی سلامتی کے مشیر محمودعلی درانی نے غیرملکی جریدے اور بھا

رتی ٹی وی چینل کو انٹرویو میں اجمل قصاب کی شناخت کے بارے میں بعض ایسی باتیں کہی ہیں جو ملک کی قومی سلامتی اورخود ان کے منصب سے منافی تھیں اور انہوں نے انٹرویو سے قبل وزیراعظم یوسف رضا گیلانی یا کسی اور اعلیٰ پاکستانی عہدے دار سے کوئی مشاورت نہیں کی تھی جس کی بنا پر فوری طور پرانہیں ان کے عہدے سے برخواست کیا گیا ہے.

محمود علی درانی قومی سلامتی کا مشیر بننے سے قبل امریکا میں پاکستان کے سفیر رہے ہیں اور ان کے بارے میں میڈیا میں ایسی اطلاعات بھی شائع ہوچکی ہیں کہ وہ امریکا کے ایک آلہ کار کے طور پر پاکستان میں خدمات انجام دے رہے تھے اور ملکی مفادات کے بجائے امریکی مفادات کومقدم رکھتے تھے اور انہوں نے مبینہ طور پر وزیر اعظم یوسف رضاگیلانی اور صدر آصف علی زرداری کی نجی گفتگو کی تفصیل سے بھارتی حکومت کے اعلیٰ عہدے دار کو بتادیا تھا.

معروف تجزیہ کارحامدمیر نے سوموار کو روزنامہ جنگ میں شائع ہونے والے اپنے کالم میں لکھاہے کہ ''چند سال پہلے جب جنرل عزیز خان چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف تھے توان کے دفتر میں لیفٹننٹ جنرل حامد نواز نے محمود علی درانی کو ان کی موجودگی میں سی آئی اے کا ایجنٹ قراردیا تھا۔ درانی صاحب اس الزام پرصرف مسکرا دیئے اور کچھ عرصے کے بعد پرویز مشرف نے انہیں امریکا میں پاکستان کا سفیر بنادیا۔ درانی صاحب کو آج بھی امریکا کا آدمی سمجھا جاتا ہے اور وزیراعظم گیلانی نے انہیں نکالنے کا فیصلہ جلد بازی میں نہیں بلکہ بہت سوچ سمجھ کر کیا ہے۔ امریکا کے آدمی کو حکومت سے نکال کر وزیراعظم اچانک عوامی حلقوں میں قابل احترام ہوگئے ہیں اوران کے اردگرد موجود افراد کی کرپشن کے قصے بھی پس منظر میں چلے گئے ہیں''.

1941ء میں صوبہ سرحد کے شہرایبٹ آباد میں پیداہونے اور فوج سے میجر جنرل کے عہدے سے ریٹائر ہونےوالے میجر جنرل محمود علی درانی کا کردار شروع سے متنازعہ رہا ہے.وہ1982ء سے 1986ء تک اس وقت کے صدر اور آرمی چیف جنرل ضیاءالحق کے ملٹری سیکرٹری رہے تھے.مرحوم صدر کے بیٹے اور سابق وفاقی وزیر اعجازالحق یہ الزام لگاتے رہے ہیں کہ ان کے والد کی موت میں جنرل درانی کا ہاتھ تھا.

میڈیا اطلاعات کے مطابق یہ محمود علی درانی ہی تھے جنہوں نے متعددٹیلی فون کالزکے ذریعے جنرل ضیاءالحق کو فوجی مشقیں اورسازوسامان نمائش کی تقریب میں شرکت کے لئے بہاولپور آنے پر آمادہ کیا تھا.انہوں نے ہی جنرل ضیاءالحق کے سی ون تھرٹی طیارے میں آموں کی پیٹیاں اور ٹینک کا ایک ماڈل رکھوایاتھا جس کے نتیجے میں مبینہ طورپر 17 اگست 1988ء کوبہاولپور سے پروازسے تھوڑی دیر بعد جنرل ضیاء کے طیارے کو حادثہ پیش آیا تھا جس میں وہ خوداور ملک کی اعلیٰ فوجی قیادت جاں بحق ہوگئی تھی .اس حادثے میں پاکستان میں تعینات امریکی سفیرآرنلڈرافیل بھی مارے گئے تھے لیکن اس ہولناک حادثے کی تحقیقاتی رپورٹ آج تک منظر عام پر نہیں آئی اور نہ اس کے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جاسکاہے.
حامدمیر مزید لکھتے ہیں کہ''محمود علی درانی باز نہیں آرہے۔ انہوں نے امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل کو ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے انہیں قومی سلامتی کے مشیر کے عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ جذباتی انداز میں اور جلد بازی میں کیا ہے۔ درانی صاحب نے امریکی اخبار کو یہ بھی کہا ہے کہ انہوں نے مبینہ دہشت گرد اجمل قصاب کے پاکستانی ہونے کا بیان صدر آصف علی زرداری کو اعتماد میں لے کر دیا تھا تاہم وزیراعظم کو اس سلسلے میں کچھ پتا نہیں تھا۔ کچھ دن پہلے وال اسٹریٹ جنرل نے پاکستانی حکومت کے ذرائع کے حوالے سے لکھا تھا کہ 26نومبر کو ممبئی میں حملہ کرنے والے تمام دہشت گرد پاکستانی تھے۔ وال اسٹریٹ جرنل کو یہ خبر محمود علی درانی نے دی تھی۔ درانی صاحب اسلام آباد، دہلی اور واشنگٹن کے کچھ اہم صحافیوں کو ایک مخصوص ایجنڈے کے لئے استعمال کرنے کی کوشش میں تھے''۔

حامد میر نے پاکستانی صدر آصف علی زرداری کے ساتھ اپنے ایک گفتگو کے حوالے سے لکھاہے کہ انہوں نے جب صدر زرداری سے پوچھا کہ محمودعلی درانی کو قومی سلامتی کا مشیر کیوں بنایا گیا توان کا جواب تھا کہ انہوں نے ''پرویز مشرف کو ایوان صدر سے نکلوانا تھا اور اس کے لئے ضروری تھا کہ واشنگٹن میں پاکستان کا سفیر مشرف کا نہیں بلکہ ہمارا آدمی ہو،لہٰذا ہم محمود علی درانی کو واشنگٹن سے اسلام آباد لے آئے اور وہاں اپنا آدمی حسین حقانی بھیج دیا''۔

محمود علی درانی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے امریکی حکام اور اداروں کے ساتھ 1977ء سے 1982ء کے دوران میں گہرے روابط اور تعلقات استوار کئے تھے جب وہ واشنگٹن ڈی سی میں پاکستانی سفارتخانے میں دفاعی اور فوجی اتاشی تعینات تھے.وہ سانحہ بہاولپور کے وقت ملتان میں فرسٹ آرمرڈ ڈویژن کے کمان دار کی حیثیت سے تعینات تھے اور اسی حیثیت میں انہوں نے جنرل ضیاءالحق کو بہاولپور کے دورے پر آمادہ کیا تھا.امریکیوں سے دیرینہ تعلقات کی بناپرہی درانی کو جنرل صدر پرویزمشرف نے جون 2006ء میں جنرل جہانگیر کرامت کی جگہ امریکا میں پاکستان کا سفیر مقررکیا تھا.واضح رہے کہ جنرل درانی اور جہانگیر کرامت دونوں ملٹری اکیڈیمی کاکول میں بیچ میٹ رہے تھے.
میڈیا اطلاعات کے مطابق محمود علی درانی ہی نے پاکستان کے سابق صدر جنرل پرویزمشرف ،سابق وزیر اعظم مقتول بے نظیر بھٹو اور امریکی حکومت کے درمیان معاہدہ کرانے میں اہم کرداراداکیا تھا اور انہوں نے ہی متنازعہ قومی مصالحتی آرڈی ننس جاری کرنے کے لئے جنرل پرویزمشرف پر دباؤ ڈالاتھا.انہیں وزیر اعظم یوسف رضاگیلانی نے آصف علی زرادری کے کہنے پر اپریل 2008ء میں اپنا قومی سلامتی کا مشیر مقررکیا تھا.اس وقت آصف زرداری حکمران جماعت پاکستان پیپلزپارٹی کے صرف شریک چئیرمین تھے اور ایوان صدر تک پہنچنے کے لئے انہوں نے اپنی جدوجہد کا آغازکردیا تھا.

یادرہے کہ پاکستان میں سیاسی ،صحافتی اورعوامی حلقوں میں یہ بات کھلے عام کہی جاتی ہے کہ حکومتوں کے بنانے ،پسندیدہ شخصیات کو اقتدارمیں بٹھانے،ناپسندیدہ لوگوں کو اقتدار کے ایوانوں سے نکال باہر کرنےا ور اہم فوجی اور سرکاری عہدوں پر تقررمیں امریکا کا ہاتھ ہوتا ہے اورماضی میں بعض امریکی سفیروں کو ملک میں برٹش انڈیا کے زمانے کے وائسرائے ہند کی سی حیثیت حاصل رہی ہے جبکہ امریکی محکمہ خارجہ کے سیکشن افسر اور انڈرسیکرٹری عہدے کے اہلکار بھی پاکستان آکر حکومتی عہدے داروں کو اپنے مفادات پورے کرنے کے لئے ڈراتے دھمکاتے رہتے ہیں .