جنرل ضیا الدین بٹ پر کیا گزری،وہ کس حال میں ہیں۔۔۔۔مشرف کے چاہنے والے پڑھ کر دل نہ جلائیں

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع اکتوبر 18, 2016 | 11:34 صبح

 

 

انٹرویو،فضل حسین اعوان ۔سید بدر سعید
جنرل ضیاءالدین بٹ پاک فوج کے ایسے سربراہ تھے جنہیں آرمی چیف بننے کے فوراً بعد قید کر لیا گیا۔ انہوں نے 660 دن قیدِ تنہائی میں گزارے، چند لمحوں کے لئے بننے والے آرمی چیف کو جب رینک لگائے گئے تو بیج تک میسر نہ تھے۔ اس موقع پر ایک بریگیڈیئر کے بیج اتار کر ”سٹار“ پورے کئے گئے اور کامن پن سے ٹانگے گئے۔ جنرل ضیاءالدین بٹ موجودہ وزیراعظم نوازشریف کے گزشتہ دور حکومت میں ہونے والی فوجی بغاوت کے اہم کردار ہیں۔ یہ بات ب

ھی کئی لوگوں کے لئے حیرت کا باعث ہو کہ جب جنرل پرویز مشرف کے حامی فوجیوں نے وزیراعظم ہا¶س پر چڑھائی کی تو اس وقت کسی اور نے نہیں بلکہ خود جنرل پرویز مشرف کی جگہ بنائے گئے نئے آرمی چیف جنرل ضیاءالدین بٹ نے ہی وزیراعظم ہا¶س کے محافظ کمانڈوز کو غیر مسلح کیا تھا

 

 

 

۔ 1999ءکے مارشل لاءکے بعد سے تاحال جنرل ضیاءالدین بٹ کو نہ تو پنشن مل سکی اور نہ ہی کسی قسم کی فوجی مراعات ملیں۔ ہم ان کے گھر گئے تو معلوم ہوا کہ یہ سابق ”آرمی چیف“ جس بنگلے میں رہتے ہیں وہ تین حصوں میں تقسیم ہے ،جس میں سے ایک حصہ جنرل ضیاءالدین بٹ صاحب کی رہائش گاہ ہے۔ ان کے گیراج میں رکشہ کھڑا تھا۔ جنرل ضیاءالدین بٹ 660 دن کی قیدِ تنہائی کے بعد ایک نجی ادارے میں ملازمت کر کے گھرچلاتے رہے۔ ان سے گفتگو ہوئی تو معلوم ہوا انہیں فوج کے بعض افسران اور قوم سے گلے شکوے بھی ہیں۔ پاکستان کی فوجی تاریخ کے اس اہم کردار کا انٹرویو من و عن شائع کیا جا رہا ہے

جنرل ضیا الدین بٹ سے گفتگو کا آغاز ہوا تو ایک سوال کے جواب میں کہنے لگے : 1965ءکی جنگ میں موت کو بہت قریب سے دیکھا تھا۔ میں کور آف انجینئرز میں تھا۔ اس کور نے فوج کے آگے جانے سے پہلے دشمن کی بارودی سرنگیں تلاش کر کے ختم کرنی جبکہ فوج کی و اپسی کے وقت اپنی بارودی سرنگیں لگانی ہوتی ہیں۔ ہم ہندوستان کی بارودی سرنگیں تلاش کرکے ناکارہ بنا رہے تھے۔ میرے آگے جو لڑکا تھا وہ بارودی سرنگیں دیکھ رہا تھا ۔میں اس وقت لفٹین تھا اور اس کے پیچھے تھا۔ اسی دوران ایک بارودی سرنگ ہمارے بالکل سامنے پھٹ گئی جس کی وجہ سے اس کے ہاتھوں میں موجود سامان اڑ گیا۔ میرے بھی منہ پر بارود پڑا۔ اس عالم میں بھی اسے اپنی فکر نہیں تھی اور اس نے شور مچانا شروع کردیا کہ میرے لفٹین صاحب کدھر ہیں۔ میں اس کے پیچھے ہی تھا۔ مجھے یہ ڈر تھا کہ یہ اب اٹھے گا اور اٹھ کر اِدھر اُدھر بھاگا تو کسی اور بارودی سرنگ پر اس کا پا¶ں آجائے گا۔ میں نے اس کو پیچھے کمر سے پکڑ لیا۔ نظر تو مجھے بھی کچھ نہیں آرہا تھا۔ میں نے کہا میں ادھر تمہارے پیچھے ہوں لیکن اس کو سنائی ہی نہیں دے رہا تھا کیونکہ اس دھماکے میں اس کے کان بھی پھٹ گئے تھے۔ میں بتانا یہ چاہ رہا ہوں کہ اس جوان کو ان حالات میں بھی اپنی بجائے میری فکر تھی۔ یہ چیز فوج میں بڑی ہوتی ہے۔ جب دھماکے کا ملبہ بیٹھا تو ہمیں وہاں سے اٹھا کر میدان جنگ میں فوج کے ہسپتال لے گئے۔ میں وہاں ایک دو راتیں رہا۔ میری بھی آنکھوں پر اثر پڑا تھا لیکن اس نوجوان کی اس دھماکے میں بینائی چلی گئی۔
سوال:۔ آپ کی دوبارہ اس سے ملاقات ہوئی؟
جنرل ضیاءالدین بٹ:۔ اس کو و ہاں سے سی ایم ایچ لے گئے تھے۔ وہ وہاں بھی پوچھتا رہا کہ لفٹین صاحب کہاں ہیں ۔ میری اس سے دوبارہ ملاقات تب ہوئی جب میں پاکستان آرمی کا لیفٹیننٹ جنرل بن چکا تھا۔ میں نے اس کو تلاش کیا تو معلوم ہوا کہ یہ جی ایچ کیو میں ہی بید کی کرسیاں بنتا ہے اور اندھا ہو چکا ہے۔ میں نے کہا اس کو لے کر آئیں۔ جب وہ آیا تو اس نے ہاتھ میں لاٹھی پکڑی ہوئی تھی۔ میں نے کہا مجھے بتا¶ میں تمہاری کیا مدد کروں۔ اس نے کہا مجھے کوئی مدد نہیں چاہئے۔ میرے چھ بیٹے ہیں اور چھ کے چھ فوج میں ہیں۔ وہ مل کر بہت خوش تھا۔ یہ جو فوج میں سینئرز سے محبت اور خلوص ہے یہ ایسی چیز ہے کہ اسے ہم بھول ہی نہیں سکتے۔
فیملی :۔ اس کے علاوہ کوئی خاص واقعہ جو جنگ کے حوالے سے اہم ہو ؟
جنرل ضیاءالدین بٹ :۔ اسی جنگ میں ایک اور موقع پر ہم بارودی سرنگیں لگا رہے تھے اور اوپر سے انڈیاکا مارٹر گولہ آتا اور ہماری سرنگ پھٹ جاتی تھی۔ وہ بھی بڑا تماشہ تھا کہ اب ان حالات میں کون آگے جائے گا۔ ہمارا جے سی اوگھبرا کر پیچھے چلا گیا ۔جب مجھے نظر نہیں آیا تو میں نے اسے ڈھونڈا۔ وہ کہتا تھا میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں ،میں تو مارا جا¶نگا۔ میں نے کہا دیکھو! یہ جو کام تم کر رہے ہو اس کی تو لڑائی میں یہی سزا ہے کہ میں تمہیں یہیں گولی مار دوں۔ پستول میرے ہاتھ میں تھی۔ میں نے کہا میں تمہیں شوٹ کرنے لگا ہوں اس لئے تم فیصلہ کر لو تمہیں کیا کرنا ہے ۔میری گولی سے تو بہتر ہے تم دشمن کے ہاتھوں شہید ہو جا¶۔اس کے بعد وہ ایسا سیدھا ہوا کہ سب سے آگے نظر آیا۔ یہ انسانی فطرت ہے کہ اسے ڈر لگتا ہے لیکن اگر اس ڈر پر قابو پالیں تو پھر وہ ڈر ختم ہو جاتا ہے اور انسان موت سے نہیں ڈرتا۔
سوال :۔ 1999ءکی بغاوت میں بھی کوئی ایسا لمحہ آیا جب لگا ہو کہ آپ کی زندگی خطرے میں ہے ؟
جنرل ضیاءالدین بٹ :۔ جب مشرف نے حکومت کا تختہ الٹا تب بھی اس بات کا چانس تھا ۔ میں خود ڈی جی آئی ایس آئی تھا لہذا مجھے تو حالات کا علم تھا۔ بس اس وقت خیال آیا کہ جمہوریت کے لئے قربانی دینی ہے۔ یورپ والے اس کا بڑا کریڈٹ لیتے ہیں لیکن جمہوریت جو اصل میں شروع ہوئی وہ حضور پاک سے ہوئی۔ آپ نے مشاورت سے اپنی حکومت چلائی ۔ انہوں نے وراثتی حکومت کی ذرا بھی حوصلہ افزائی نہیں کی۔ یہاں تک کہ حضرت علیؓ تک کویہ نہیں کہا کہ آپ حکومت سنبھالو۔ یہ ساری باتیں میرے ذہن میں تھیں، بعد میں بھی جب ٹیک اوور کر لیا تو مجھے یہ آپشن دی گئی کہ آپ ہمارے ساتھ آ جائیں۔ انہوں نے ”آن بورڈ“ کا لفظ استعمال کیا۔ میرے ساتھ جو جنرل اکرم تھاوہ مان گیا کہ ٹھیک ہے میں آپ کے ساتھ آ جاتا ہوں۔ وہ وہیں میرے ساتھ بیٹھا تھا۔ میں نے کہا نہیں میں فیصلہ کر چکا ہوں۔
سوال:۔ یہ سب انہوں نے کس وقت اور کہاں کہا تھا؟
جنرل ضیاءالدین بٹ :۔ یہ جب وہ مجھے میس میں لے گئے تھے، وہاں انہوں نے مجھے 660 دن قیدِتنہائی میں رکھا تھا۔وہاں ہی جنرل محمود آیا اور اس نے کہا کہ تم ہمارے ساتھ آ جا¶ اور اس سب کو تسلیم کر لو، آپ کے ساتھ کچھ غلط نہیں ہو گا۔ یہ بھی بتایا کہ جنرل اکرم کو بھی ہم نے یہ آپشن دی ہے اور وہ ہمارے ساتھ ہے۔ میں نے کہا میں نے جو فیصلہ کیا ہے وہ جمہوریت کےلئے ہے۔ آپ تو جمہوریت ختم کر رہے ہیں لہٰذا میں نہیں آ سکتا۔
سوال :۔ آپ کے ان جرنیلوں کے ساتھ تعلقات کیسے تھے؟
جنرل ضیاءالدین بٹ :۔ جنرل محمود اور جنرل پرویز مشرف کے ساتھ میرے بہت پرانے تعلقات تھے۔ ان کو پتا تھا کہ میں جمہوریت کو سپورٹ کرونگا۔ انہوں نے اسی لئے مجھے 660 دن قید تنہائی میں رکھا لیکن یہ قید بھی مجھے نہ توڑ سکی۔ ان کی پوری کوشش رہی کہ کسی طرح میرے خیالات بدل جائیں لیکن میں قائم رہا۔
سوال :۔ اس سے انہیں کیا فائدہ ہونا تھا؟ مثلاً اگر آپ ایک سال بعد کہہ دیتے کہ میں آپ کے ساتھ ہوں تب کیا فائدہ ہوسکتا تھا؟
جنرل ضیاءالدین بٹ :۔ انہیں فوج میں بڑی سپورٹ مل جانی تھی۔ فوج میں میری بہت بڑی سپورٹ موجود تھی جس سے وہ خوف میں رہتے تھے کہ کہیں فوج کے اندر سے بغاوت نہ ہو جائے۔ اس سے بچنے کےلئے انہوں نے کئی طریقے استعمال کئے۔ جو لوگ میرے ساتھ تھے ان کو انہوں نے زیادہ سے زیادہ مراعات دیں۔
سوال:۔ حکومت کا تختہ الٹا گیا تو آپ کے ساتھیوں نے مزاحمت کیوں نہیں کی؟
جنرل ضیاءالدین بٹ :۔ انہیں میں نے خود روکا تھا کہ آپ نے مقابلہ نہیں کرنا۔ جب وہ آ رہے تھے تو مجھے علم ہو چکا تھا۔ میرے پاس کمانڈوز بھی تھے ۔ میں کور کمانڈرز سے رابطہ کرتا کہ ان کے خلاف کارروائی کریں تو سب ہو سکتا تھا لیکن اس سے فوج تقسیم ہونے کا خطرہ تھا اور بڑا خون خرابہ ہو جاتا۔ بنگلہ دیش میں ایسا ہو چکا ہے جس سے ان کی فوج تباہ ہو گئی۔ ایک دفعہ اگر فوج میں اس قسم کے فاصلے آ جائیں تو پھر منظم کرنا مشکل ہو جاتا ہے ۔ فوج میں پرویز مشرف صاحب ایسے سربراہ رہے جن پر فوجیوں نے خود حملے کئے ورنہ فوج میں سپاہی نے ہمیشہ اپنے افسر کی عزت کی اور کبھی حملہ کرنے کا سوچا تک نہیں۔
سوال:۔ حکومت کے خلاف بغاوت میں ساتھ نہ دینے کے بعد کبھی ایسا لگا کہ آپ کے ساتھ یہ آخری حد تک چلے جائیں گے اور جان سے مار سکتے ہیں؟
جنرل ضیاءالدین بٹ :۔ بالکل، ان کا ایسا ارادہ تھا۔ وہاں سوئی گیس کا چولہا تھا ۔ انہوں نے قید کے دوسرے ہی دن اس کی گیس چھوڑ دی۔ میں تہجد کےلئے اٹھتا تھا لیکن اس روز گیس کی وجہ سے غنودگی میں تھا۔ باہر انہوں نے ڈیوٹی پر جو این سی او لگایا ہوا تھا، مجھے علم نہیں وہ کون تھا لیکن پٹھانوں والا لہجہ تھا۔ اس نے مجھے جگایا اور کھڑکی پر ہاتھ مارنا شروع کر دیا ۔ میں اٹھا تو مجھے ایک دم گیس کی بُو آئی، پھر میں نے ایگزاسٹ فین چلایا تو گیس کمرے سے نکلی۔ اس طرح کے مختلف واقعات ہیں۔ بہرحال اللہ نے رکھنا تھا۔
سوال:۔ وزیر اعظم نواز شریف کے ساتھ جو ہوا اس کے بھی عینی شاہد ہیں؟
جنرل ضیاءالدین بٹ :۔ میرے سامنے ہوا تھا، بہت بُرا برتا¶ تھا۔ جنرل محمود فوجی لےکر آیا تھا ۔ ایک تو ڈر اتنا ہواتھا کہ مجھے انہوں نے رینک چار ساڑھے چار بجے لگائے تھے اور یہ رات ساڑھے دس بجے وہاں پہنچا، جب تک پورا کنٹرول نہیں ہو گیا۔ یہ سارے فوجی اسلحہ اٹھائے اندر آئے اور سیلوٹ کر کے کہا کہ جنرل صاحب باہر آ جائیں ۔
سوال:۔ جب فوج آئی تو نوازشریف کا کیا ردِعمل تھا؟
جنرل ضیاءالدین بٹ:۔ میاں صاحب تو بالکل نہیں ڈرے۔ انہوں نے کہا ٹھیک ہے اگر آپ نے فائر کرنا ہے تو کر دیں۔ ایک سادہ کاغذ تھا جس پر سائن کرنے کا کہا تو انہوں نے وہ بھی نہیں کئے۔ اس نے ڈرایا بھی تھا لیکن انہوں کہا ٹھیک ہے جو کرنا ہے آپ کر دیں۔ میاں صاحب اس معاملے میں بہت بہادر آدمی ہیں۔ یہ وہ ہے جو میں نے دیکھا ہے۔ پھر انہوں نے ہم دونوں کو الگ کر دیا۔ اللہ کرے اب آئندہ ایسی کوئی حرکت نہ ہو لیکن پرویز مشرف سمیت جنہوں نے اس مارشل لاءکی توسیع کی، اسے تسلیم کیا ، ان سب کو سزا ملنی چاہئے۔
سوال:۔ مارشل لا کے پیچھے غیر ملکی طاقتوں کا ہاتھ ہوتا ہے؟
جنرل ضیاءالدین بٹ:۔ جو طاقتیں ایسے ممالک کو اپنی مرضی سے چلانا چاہتی ہیں وہ اُکساتی ہیں کہ تم قبضہ کرو ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ یہ پرویز مشرف تو جب سے چیف بنا تب سے امریکیوں کے ہاتھوں میں کھیل رہا تھا۔ عادتیں بھی اس کی بہت خراب تھیں۔ وہ اس کی اور حوصلہ افزائی کرتے تھے ،شراب بھیج کر خوش رکھتے۔ یہ تو محمد خان رنگیلا بنا ہوا تھا، بہت رنگیلا آدمی تھااور اس سے انہوں نے بغاوت کروا دی۔ یہ آدمی سوچنے والا ہوتا تو بغاوت کرتا ہی نہ، فوج کو پہلے کم موقع ملے تھے؟کاکڑ چاہتا یا جہانگیر کرامت چاہتا تو وہ بھی اقتدار پر قبضہ کر سکتا تھا۔ سب سے زیادہ موقع تو جنرل بیگ کو ملا لیکن وہ فوج کو سیاست سے واپس لے کر آئے۔ ان کی کوئی عزت نہیں کہ انہیں تو عدالتوں میں کھینچتے پھرتے ہیں۔ یار خدا کا خوف کرو، اس کی عزت کرو کہ اس نے تمہاری جمہوریت بچائی ہے۔
سوال:۔ آپ کے رینک کا اسٹیٹس کیا ہے، پنشن مل رہی ہے؟
جنرل ضیاءالدین بٹ:۔ گورنمنٹ نے تو اپنی طرف سے کردیا ہے لیکن ابھی تک یہ سب پراسس میں ہی ہے، پنشن سمیت کچھ نہیں ملا۔
سوال:۔ یہاں تو ہم میجر یا کرنل رینک کے آفیسر کے گھر جائیں تو تین تین گاڑیاں کھڑی ہوتی ہیں جبکہ ایک جرنیل کے گھر رکشہ کھڑا ہے؟
جنرل ضیاءالدین بٹ:۔ (ہنستے ہوئے) رکشہ تو میرے ڈرائیور کا ہے۔
سوال:۔(شرارت سے ) یعنی رکشہ بھی اپنا نہیں ہے؟
جنرل ضیاءالدین بٹ:۔ جی رکشہ بھی اپنا نہیں ہے لیکن یہ ہے کہ بس اللہ کا شکر ہے جتنا شکر کریں اتنا اللہ دیتا ہے۔
سوال:۔ آپ کی پنشن اور رینک کا یہ مسئلہ کب تک حل ہوگا؟
جنرل ضیاءالدین بٹ:۔ ابھی تو کچھ پتا نہیں ۔میاں صاحب تو چاہتے ہیں کہ یہ حل ہو لیکن درمیان میں کچھ اور چیزیں آ جاتی ہیں۔ اتنے غلط کام ہوئے ہیں ان کا کوئی ریکارڈ ہی نہیں ہے ۔میں عدالت میں بھی گیا ہوں۔ عدالت نہیں مانتی تو کون مانے گا۔
سوال: ان غلط کاموں کو اس وقت نہ روکنے کے ذمہ د ار کون لوگ ہیں؟
جنرل ضیاءالدین بٹ:۔بہت سارے غلط کام ہوئے لیکن قوم کو یہ دیکھنا چاہئے کہ جس فوج کے لئے یہ اتنی قربانیاں دیتی ہے وہ صحیح راستے پر کم از کم چلتی رہے اور غلط کام میں نہ پڑے۔ اس وقت بھی اگر قوم کھڑی ہو جاتی اور یہ اسمبلی کا اجلاس بلا لیتے، چاہے باہر کسی سڑک پر اجلاس کر لیتے تاکہ فوج کو پتہ چلتا کہ قوم مشرف کے ساتھ نہیں ہے۔
سوال:۔ یہ تو مسلم لیگ (ن) والوں نے کرنا تھا؟
جنرل ضیاءالدین بٹ:۔ یہ ملک صرف مسلم لیگ (ن) کا تو نہیں ہے جمہوریت میں تو سب کا حصہ تھا۔ (ن) لیگ کا تو ایک ایک لیڈر پکڑ کر بند کر دیا تھا۔ یہ سب قوم کے سوچنے کی بات ہے۔ جہاں جہاں جمہوریت ہے وہاں کا ماڈل دیکھیں، جمہوریت میں فوج کی اپنی جگہ بڑی عزت ہے۔
سوال:۔ موجودہ حکومت آپ سے ہمدردی رکھتی ہے کہ آ پ کو انہوں نے ہی چیف آف آرمی سٹاف بنایا۔ موجودہ آرمی چیف بھی آپ کے جونیئرز میں شمار ہوتے ہیں۔ اب جب آپ عدالت میں گئے اور آپ نے یہ بھی کہا کہ آپ کا مقصد مراعات کا حصول نہیں بلکہ الزامات کا خاتمہ ہے۔ کیا موجودہ حکومت نے کوئی ریلیف دیا؟
جنرل ضیاءالدین بٹ:۔ میرے ساتھ جو ہوا وہ سب غلط تھا لہٰذا اس کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے کہ کہاں رکھا ہوا ہے،اس لیے ابھی بھی اس میں رکاوٹیں ہیں۔درمیان میں بیوروکریسی بچتی ہے کہ اس کی غلطیاں سامنے آجائیں گی ۔ عدلیہ کو اس میں کردار ادا کرنا چاہئے تھا جو نہیں کیا۔ شاید اس لیے بھی کہ اس وقت کی وزارت دفاع تعاون نہیں کر رہی تھی۔ 12 اکتوبر کے واقعہ کا ٹرائل کیا جائے تو پھر ساری چیزیں سامنے آجائیں گی۔
سوال:۔ لیکن جب مشرف کا ٹرائل شروع ہونے لگا تو اسے انا کا مسئلہ بنا لیا گیا؟
جنرل ضیاءالدین بٹ:۔ یہ فوج میں ہوتا ہے کہ ایسے معاملات میں فوج کا نام نہ آئے۔ میں خود ایڈجوٹینٹ جنرل (Adjutant General) تھا۔ پرویز مشرف کی رپورٹیں آئیں، یہ بہت ہی بدکردار انسان تھا۔ اس پر پوری میٹنگ ہوئی اور فیصلہ کیا گیا کہ اس کو گھر بھیج دو لیکن بعد میں یہ ایکشن واپس لیا گیا کہ اس سے بدنامی ہو جائے گی۔ پرویز مشرف اور معین الدین حیدردونوں کی اس قسم کی حرکتیں تھیں۔ اس سے پہلے جنرل سرانجام پر بھی بہت بڑا کیس بنا اور فیصلہ ہوا کہ ان کو بھی سزا دی جائے لیکن پھر یہی چیز سامنے آ گئی کہ فوج کی بدنامی ہوگی۔ یہ بیک وقت ایک اچھی اور بُری چیز ہے کہ فوج اپنے نام کو صاف رکھنا چاہتی ہے۔ فوج میں بھائی بندی ہوتی ہے اور ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں ۔ مستقبل کے حوالے سے یہ اچھی چیز ہے کہ فوج متحد رہے۔
سوال:۔ جنرل پرویز مشرف کے پاس تو اثاثے بھی عام جرنیل سے زیادہ ہیں؟
جنرل ضیاالدین بٹ:۔ جنرل پرویز مشرف نے بہت پیسہ بنایا ہے۔ ہر چیز میں ”کک بیک“ اسے پہنچتا تھا۔ کرنل (ر)اسلم چیمہ اس کا ساتھی تھا جس کے ذریعے سارا کچھ لیا جاتا تھا۔ میزائل، ٹینک سبھی کچھ اس کے ذریعے آتا تھا۔ وہ اپنا حصہ رکھتا اور اس میں سے اسے بھی دیتا تھا۔ یہ تو ارب پتی ہو گئے ہیں۔
سوال:۔ یہ کک بیک جائز ہے یا کرپشن ہے؟
جنرل ضیاءالدین بٹ:۔ نہیں نہیں، بالکل جائز نہیں ہے، میں آپ کو بتاتا ہوں۔ یہ جو کیانی کے بھائیوں کا نام آرہا ہے اس میں بھی یہی چیزیں تھیں۔ وہ جا کر اس اسلم چیمہ کے پارٹنر بن گئے تھے ۔جنرل محمود بھی مولوی بن گیا ہے لیکن بہت کرپٹ آدمی ہے۔وہ فوجی فرٹیلائزر میں چلا گیا اور سارے کنٹریکٹ اپنے بھائیوں کو دے دیئے اور اس نے بھی بہت پیسہ کمایا۔ ان کے ساتھ جنرل شاہد عزیز تھا جس نے کتاب لکھی ہے۔ وہ بھی ارب پتی ہے۔ ان کو پکڑنا تو بہت آسان ہے۔ جہاں جہاں رہتے ہیں، انہی فارم ہاوسسز کو دیکھ لیں، لیکن پکڑنا کوئی نہیں چاہتا۔
سوال:۔ جب نوازشریف کا تختہ اُلٹا گیا تب آپ نے وزیراعظم کے محافظوں کو غیر مسلح کیا تھا، اگر آپ ایسا نہ کرتے تو شاید بغاوت ناکام ہو جاتی؟
جنرل ضیاءالدین بٹ:۔ میں نے فوج کو آپس میں لڑنے سے بچانے کے لئے ایسا کیا تھا۔ فوج کی طرف سے جو بغاوت ہوتی ہے، اسے اب بغاوت کہہ لیں یا ٹیک اوور کہہ لیں، یہ ناکام نہیں ہوتی۔
سوال:۔ ایک جرنیل جسے آرمی چیف کا رینک مل چکا ہو، اس کے ساتھ کمانڈوز اور فوجی بھی ہوں، وہ یہ بات کر رہا ہے؟ آپ کے کمانڈوز اور ساتھیوں نے بغاوت کرنے والوں کو وزیراعظم ہا¶س کیوں آنے دیا؟ ابتدا میں ہی انہیں کیوں نہیں روکا؟
جنرل ضیاءالدین بٹ:۔ وزیراعظم ہا¶س میں اتنے کمانڈوز تو نہیں تھے کہ آنے والوں کو روک سکتے۔ آنے والے تو پوری تیاری کر کے آئے تھے۔ وزیراعظم کو پہلے ہی پتا لگ چکا تھاکہ انہوں نے تیاریاں شروع کر دی ہیں۔ ان کی سکیورٹی کے لئے میرے بیج میٹ جنرل(ر) رحمت تھے ۔ان کو وزیر اعظم نے جنرل عزیز کے پاس بھیجا تھا لیکن اس نے کہا، نہیں نہیں ایسا کچھ نہیں ہے، آپ کو وہم ہو گا۔
سوال:۔ کیا کسی صورت مارشل لاء”جائز“ بھی ہو سکتا ہے؟
جنرل ضیاءالدین بٹ :۔ فوج میں پوری ایس او پی(SOP) بنی ہوئی ہے۔ اگر کبھی ایسے حالات آ جائیں کہ اندر ساری ”را“ ہی ”را“ گھسی ہوئی ہو تو فوج اپنا کام تو کریگی۔
سوال :۔ آپ کو آرمی چیف بناتے وقت پرویز مشرف کو بھی تو مدت پوری نہیں کرنے دی گئی، یہ بھی تو غلط تھا؟
جنرل ضیاءالدین بٹ :۔ نو سال یہ بندہ کہتا رہا کہ میری تعیناتی کی مدت تھی اور مجھے ہٹایا گیا۔ چیف آف آرمی سٹاف کی مخصوص مدت ملازمت تو ہے ہی نہیں۔ کہیں آئین میں ایسا نہیں لکھا ہوا کہ تین سال رہے گا۔ یہ آرمی کی اپنی ایس او پی ہے جس میں آرمی نے فیصلہ کیا کہ کون کس مدت یا عمر میں ریٹائرڈ ہو گا۔ اس لئے اسے آپ قانون شکنی نہیں کہیں گے کہ آرمی چیف 6 سال رہے یا کم رہے۔ یہ فیصلہ وزیراعظم یا جو بھی چیف ایگزیکٹو ہے اس نے کرنا ہے۔ مشرف نے اسی ڈیوٹی پر 9 سال گزار دیئے۔ اسے پتا ہی نہیں تھا۔ انتہائی نالائق آدمی ہے، بس اللہ کی دین ہے۔ اس نے پاکستان کو ایک سبق سکھانا تھا ۔
سوال:۔ آپ کو جب آرمی چیف بنایا گیا تو اس قدر ایمرجنسی نظر آئی کہ بریگیڈئر سے بیج لے کر آپ کے بیج پورے کئے گئے، آپ کو اس ایمرجنسی پر کوئی اعتراض یا تحفظات نہیں تھے؟
جنرل ضیاءالدین بٹ :۔ طریقہ کار تو بالکل صحیح تھا۔ میں نے ان سے پوچھا بھی تھا کہ وہ تو چیئرمین بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے اس سے بھی اس کو ہٹا دیا ہے۔ اس کے لئے صدر سے منظوری لی گئی ۔انہوں نے دستخط کر دیئے۔ میں وہیں تھا جب انہوں نے یہ ساری کارروائی کی۔ میرے خیال میں میاں صاحب کی طرف سے رول اینڈ ریگولیشن کی کوئی خلاف ورزی نہیں ہوئی تھی۔
سوال:۔ کبھی خیال آیا کہ اگر یہ سب کسی اور انداز میں ہوتا تو اس طرح حالات پیدا نہ ہوتے اور پاکستان میں مارشل لاءنہ لگتا؟
جنرل ضیاءالدین بٹ :۔ ہاں بالکل اسے دوسرے طریقے سے ہینڈل کیا جا سکتا تھا۔کارگل کا سارا الزام اسی پر تھا۔ تب تین جون کو کیبنٹ میٹنگ ہوئی۔ وہاں جتنے وزیر تھے ان سب نے یہی کہا کہ مشرف کو برطرف کیا جائے کیونکہ اس کی وجہ سے ہماری بڑی بدنامی ہو گئی ہے۔ اس وقت اگر فیصلہ کر لیتے تو معاملہ ٹھیک ہو سکتا تھا اور فوج بھی اس فیصلے کو قبول کر لیتی۔ ہماری تاریخ میں وہ ایک اہم ٹرننگ پوائنٹ تھا، اس وقت نواز شریف نے پرویز مشرف کو بچا لیا تھا۔
سوال :۔ چیئرمین سینٹ رضا ربانی کا کہنا ہے کہ جمہوریت خطرے میں ہے ۔ آپ کا کیا خیال ہے؟
جنرل ضیاءالدین بٹ :۔ میں ان سے بالکل اتفاق نہیں کرتا ۔ جنرل راحیل شریف ماشا اللہ بہت ذہین اور عقل مند جرنیل ہیں ۔ ان سے ایسی توقع رکھنا بالکل غلط ہوگا۔ ضرب عضب میں ان کی کامیابیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ وہ ایک پروفیشنل سپاہی ہیں اور سیاست میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔ ان کی خدمات دیکھتے ہوئے ان کو فیلڈ مارشل بنا دینا چاہیے۔