ہم نے گلشن کے تحفظ کی قسم کھائی ہے

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع نومبر 28, 2016 | 19:25 شام

 
 
ورشہ شاہد
 
کراچی(ورشہ شاہد)راحیل شریف کو دیکھ کر ایسا لگتا تھا کہ کوئی ہے جو معاملات کو پرکھ رہا ہے، کوئی ہے جو براہِ راست نہ سہی لیکن ہماری آواز ضرور ہے، کوئی ہے جو ہمارا اصل محافظ ہے، کوئی ہے! واقعی کوئی اپنا ہے۔)راحیل شریف کو دیکھ کر ایسا لگتا تھا کہ کوئی ہے جو معاملات کو پرکھ رہا ہے، کوئی ہے جو براہِ راست نہ
سہی لیکن ہماری آواز ضرور ہے، کوئی ہے جو ہمارا اصل محافظ ہے، کوئی ہے! واقعی کوئی اپنا ہے۔

پاک فوج کے پندرہویں سربراہ بننے والے آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے جب اپنا عہدہ سنبھالا تھا توپاکستانی عوام سمیت دنیا کو یہ نہیں معلوم تھا کہ جنرل کی مقبولیت کس انتہا تک پہنچ جائے گی۔ ذہنوں میں متعدد سوالات اورچہرے پر مختلف تاثرات لئے ہزاروں، لاکھوں پاکستانیوں کے دل اگر راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ سے پسیج رہے ہیں اورافسردگی کا شکارہیں تو یہ محض اتفاق نہیں، یا ذاتی پسند نا پسند کا معاملہ نہیں بلکہ اِس کی ٹھوس وجوہات ہیں۔ 

عوام کے تاثرات کی عکاسی کچھ اس اندازسے کی جاسکتی ہے کہ مقبول ترین فوجی سربراہ کے طور پر جانے اور مانے جانے والے راحیل شریف پاک فوج کے سربراہ اِس لیے رہے کہ اُنہوں نے اپنے 3 سالہ دور میں دفاعی اعتبارسے کسی بھی معاملے میں کمی کو برداشت نہیں کیا۔ اُن کے بیانات، اُن کی جانب سے دہشتگردی کے خاتمے کا عزم اورعملی اقدامات خصوصی طورپر قابل تعریف آپریشن ضرب عضب کا آغاز تو یقینی طور پر یاد رکھنے کے قابل ہے۔ راحیل شریف کی صورت اندرونی خانہ جنگی اوربیرونی دخل اندازی کا شکارپاکستانیوں کویوں محسوس ہوا جیسے کوئی اپنا ہے جو ملک کے عوام کے دُکھ درد، ملک کے مسائل اورہیجانی کیفیت، ملک کوغلط راہ پرڈالنے والوں اوراِس سرزمین کو ترقی کی راہ میں پیچھے دکھیلنے والوں پر کڑی سے کڑی نگاہ رکھا ہوا ہے۔

ایسا لگتا تھا کہ کوئی ہے جو معاملات کو پرکھ رہا ہے، کوئی ہے جو براہِ راست نہ سہی لیکن ہماری آوازضرور ہے، کوئی ہے جو ہمارا اصل محافظ ہے، کوئی ہے! واقعی کوئی اپنا ہے۔

عام انسان جواپنے بے پناہ مسائل میں بُری طرح گھرا ہوا ہے، جسے معاش کی فکر ہر لمحے کھائے جاتی ہے، جسے موجودہ حالات میں اپنے بچے کا روشن مستقبل غورکرنے پربھی اندھیرے سے باہرآتا دکھائی نہیں دیتا، جو بس اس فکر میں ہے کہ زندگی کو بہتر سے بہترین کس انداز اور کن طریقوں پر چل کر بنایا جاسکتا ہے، وہ بھی اس سربراہ کے ایسے بیان کہ ’’میرا جینا میرا مرنا پاکستان کے لئے ہے‘‘، سن کر اطمینان پاتا ہے۔ وہ جوبھارت جیسے دشمن کو با آواز بلند للکارتا ہے اور کہتا ہے کہ اگر بھارت کی جانب سے سرجیکل اسٹرائیک کی گئی تو بھارتی نصاب میں پاک فوج کے قصے پڑھائے جائیں گے، جو یہ کہہ کر بار بار اپنی عوام کو تسلی دیتا ہے کہ بھارتی جارحیت پر پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، جو روشنیوں کے شہرکراچی کے لئے بھی پیچھے نہیں ہٹتا اورکہتا ہے کہ کراچی میں امن کی بحالی کے ثمرات کوضائع نہیں ہونے دیا جائے گا۔ وہ جو خود اور آرمی کو محض کریڈٹ نہیں دیتا بلکہ عوام کا حوصلہ بلند کرتے ہوئے کہتا ہے کہ بلوچستان کےعوام نے دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو پکڑنے میں مدد دی اور بلوچستان میں سیکیورٹی اور حکومت کی مدد میری ترجیح رہی ہے۔

وہ پاک فوج کا سپہ سالارجنرل راحیل شریف جو غیرملکی دوروں پر قومی خزانے کی بچت کے لئے سیکیورٹی اسٹاف کو اپنے ہمراہ  لے کر نہیں جاتا، وہ جودشمن کوکہتا ہے کہ پاکستان کی جانب کوئی میلی آنکھ  سے دیکھنے کی جرات نہیں کرسکتا، وہی جو قومی سلامتی کی خاطر کسی بھی حد تک جانے سے گریزنہیں کرتا۔

عیدالفظرہویا عیدالاضحیٰ یہ آرمی چیف ہمیشہ اگلے مورچوں میں جوانوں کے ساتھ دکھائی دیا، راحیل شریف نے ایک جانب کم وقت میں بروقت اوردرست فیصلے کیے وہیں دوسری جانب فوج کا مورال بلند رکھنے کیلئے دن رات ایک کردیئے۔

آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے مدت ملازمت میں توسیع نہ لینے کے فیصلے نے عوام میں عزت و تکریم کی دیوار کو مزید مضبوط کردیا جہاں اُن کے اِن الفاظ کہ ’ایکسٹینشن پر یقین نہیں رکھتا‘ نے عوام کا جمہوریت پر اعتماد قائم رکھا تو آرمی چیف کی جانب سے نکیل ڈالے ہوئے لوگوں میں چھپتی چھپاتی ہی صحیح لیکن کھلبلی ضرورمچی۔

ان گھرے ہوئے مسائل، ذہنی دباؤ میں مبتلا اورمسئلے مسائل میں گھری تھکی ہاری عوام جب ہشاش بشاش نظرآنے والے سربراہ کے ایسے ایسے بیانات، صرف بیانات ہی نہیں بلکہ اُن پرعمل ہوتا ہوا بھی دیکھتی ہے تو یک دم پُرسکون ہوجاتی ہے کہ کوئی واقعی ہے۔ لیکن وہ عہدہ پر نہیں تو کیا ہوا، اس جرنیل کا کہنا ہے کہ اس کی خدمات ملک کے لئے ہمیشہ دستیاب رہیں گی۔

امید کرتے ہیں کہ آنے والا پاک فوج کا سربراہ بھی فوج کے مورال کو بلند رکھے گا اورعوام کو یہی سکون اور اطمینان دے گا کہ ان کے محافظ واقعی محافظ ہیں۔ اُمید ہے کہ آنے والا سپہ سالار جنرل راحیل شریف جیسی نہ صرف عزت کمائے بلکہ فوج کی جانب سے دہشت گردی جیسے ناسورکے خلاف آپریشنزکو جاری رکھے، وہ دشمن کو منہ توڑ جواب دینے والا ہو بلکہ واقعتاً سرزمین کا دفاع کرنے والا ہو، جس کا واقعی جینا اور مرنا اس ملک کے لئے ہو۔

خونِ دل دے کے نکھاریں گے رُخ برگِ گلاب
ہم نے گلشن کے تحفظ کی قسم کھائی ہے