جنرل نیازی نے ایک گولی چلائے بغیر بھارتی فوج کے سامنے ہتھیار کر پاکستانیوں سے کس چیز کا بدلہ لیا تھا ؟ برسوں بعد بڑے راز سے پردہ اٹھ گیا

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع فروری 05, 2017 | 08:30 صبح

لاہور (ویب ڈیسک) سقوطِ ڈھاکہ کے بعد جنرل نیازی اور دیگر افسران کو کچھ عرصہ کیلئے کلکتہ کی مشہور تاریخی عمارت فورٹ ولیم میں رکھا گیا جہاں اُنہوں نے چند بیرونی نمائندوں کو انٹرویوز سے بھی نوازا ۔ ایسے ہی ایک انٹرویو میں یوگوسلاویہ کی ایک اطالوی نمائندے، اریانہ نیلا، کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے جنرل نیازی نے کہا:
 سوال : آپ وض

احت کریں کہ آپ نے ایک گولی چلائے بغیر ڈھاکہ بھارتی فوج کے حوالے کیوں کر دیا؟
جواب: میں نے غیر ضروری قتل سے بچنے کیلئے ہتھیار ڈالے کیونکہ ہزاروں افراد بلاوجہ موت کے منہ میں چلے جاتے۔ یقینا میں ایک یا شاید دوماہ جنگ جاری رکھ سکتا تھا مگر اِس کا کیا فائدہ ہوتا، بھارتیوں نے ہمیں چاروں جانب سے گھیر لیا تھا، ہم پر ہر دوگھنٹے بعد بمباری کی جاتی تھی اور میں اپنے ملک سے تین ہزار میل دور تھا، میں نے اپنی حکومت سے مدد کیلئے کہا لیکن اُنہوں نے کہا کہ وہ کچھ نہیں کر سکتے۔ لڑائی جاری رکھنا خودکشی ہوتا کیونکہ ہماری حکومت اور اتحادیوں سمیت ہر شخص ہمارا ساتھ چھوڑ چکا تھا… روس سنجیدگی سے بھارت کیساتھ تھامگر امریکہ ہمارا ساتھ سنجیدگی  سے نہیں دے رہا تھا، مجھے اُن کیخلاف سخت غصہ تھا چنانچہ میں نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا کہ کیا آپ ہتھیار ڈالنا چاہتے ہیں، اُنہوں نے جواب دیا کہ وہ ہتھیار ڈالنا نہیں چاہتے لیکن اگر میں ایسا فیصلہ کرونگا تو وہ اِسے تسلیم کر لیں گے ۔
سوال : تاریخ میں بارہا ایسا ہوا ہے کہ فوجیں پوری طرح گھر گئیں مگر پھر بھی اُنہوں نے لڑائی جاری رکھی، پاکستانی فوج سے بھی دنیا کو یہی اُمید تھی، اِس سوال پر جنرل نیازی کا جواب ادھورا تھا، یقینا تھی مگر… اِس انٹرویو کے متن کی تصدیق مشرقی پاکستان میں ISPR کے چیف بریگیڈئیر صدیق سالک جنہوں نے اپنی شہرہ آفاق کتاب Witness to Surrender جس کا مستند اُردو ترجمہ ، میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا، کی شکل میں سالک صاحب کی زندگی میں ہی سامنے آگیا تھا، جس میںجنرل نیازی نے سالک صاحب کے سوالات کے جواب میں بھی اِسی نوعیت کے جوابات دئیے۔
سوال: اگر آپکے پاس ڈھاکہ میں موجود تھوڑے وسائل کو بھی درست طور پر استعمال کیا جاتا تو جنگ کچھ دن اور جاری رہ سکتی تھی، اُن کا جواب تھا ۔ مگر اِس کا کیا فائدہ ہوتا؟ ڈھاکہ کی اینٹ سے اینٹ بج جاتی، گلیوں میں لاشوں کے انبار لگ جاتے، نالیاں اَٹ جاتیں، شہری زندگی مفلوج ہو جاتی، لاشوں کے گلنے سڑنے سے طاعون اور دوسری بیماریاں پھوٹ پڑتیں، اِسکے باوجود انجام وہی ہوتا، میں نوے ہزار بیوائوں اور لاکھوں یتیموں کا سامنا کرنے کی بجائے نوے ہزار قیدی لے جانا بہتر سمجھتا ہوں۔
سوال : اگرچہ انجام وہی ہوتا مگر تاریخ مختلف ہوتی، اِس سے پاکستان کی عسکری تاریخ میں ایک سنہرہ باب لکھا جاتا، آئندہ دشمن کو ہماری طرف آنکھ اُٹھا کر دیکھنے کی جرأت نہ ہوتی۔ جواب میں جنرل نیازی خاموش رہے ۔ کرنل ریٹائرڈ خالد منیر نے اپنی پیشہ ورانہ اطلاعات کی بنیاد پر ڈھاکہ میں ہتھیار ڈالنے ڈالنے کے حوالے سے اپنے مضمون جو 16 دسمبر 2005 میں شائع ہوا، میں لکھا :