جنرل راحیل کی ریٹائرمنٹ کا سب سے زیادہ بے چینی سے انتظارکس کو اور کیوں؟

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع نومبر 24, 2016 | 10:14 صبح


لاہور(خصوصی رپورٹ) جنرل راحیل شریف کے کام اور کارکردگی میں زمین آسمان کا فرق رہا ہے۔جنرل کیانی کی دہشتگردوں سے مذاکرات کی پالیسی کے برعکس جنرل راحیل نے نہ صرف بے رحمانہ اپریشن کا فیصلہ کیا بلکہ جنرل کیانی کو بعض معاملات میں جوابدہ بھی بنایا۔ جنرل راحیل شریف نے اپنے پلاٹس تک شہداءفاﺅنڈیشن کو دے دیئے جبکہ جنرل کیانی پر استحقاق سے زیادہ پلاٹ بننے کا بھی الزام ہے، ان کے بھائیوں کی کرپشن کے بھی چرچے ہیں۔یہ سب کچھ میڈیا میں آچکا ہے کہ ان کے چھوٹے بھائی کامران کیانی کے حوالے سے بہت اہم تحقیقا

ت ہو رہی ہیں۔ ان سے کرپشن کا ایک بڑ سکینڈل منسوب کیا گیا ہے ، ان پر 17 ارب روپے کی کرپشن کا الزام ہے اور نیب ان کو تلاش کر رہی ہے۔ کامران کیانی کو نیب کی ٹیم بیرون ملک سے لانے کیلئے تیاری کر رہی ہے۔ کیپٹن (ر) کامران کیانی جو پراپرٹی کا کام کرتے تھے ان کی خبریں جنرل کیانی کے چھ سالہ آرمی چیف کے دور میں مسلسل گشت کرتی رہیں۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف فوج کو بھی ہر قسم کی کرپشن سے پاک کرنا چاہتے ہیں اور وہ کسی قسم کے کرپشن کے الزامات کو برداشت نہیں کرتے تھے ۔چند ماہ قبل کامران کیانی کیخلاف جب تحقیقات کی ابتدا ہوئی تو اطلاعات کے مطابق اس کی معلومات آرمی چیف کو بھی فراہم کی گئی تھیں۔کامران کیانی کا جنرل کیانی سے تعلق ایک حساس معاملہ ہے لیکن جنرل راحیل شریف نے نہ صرف اس سلسلے میں "گو اَہیڈ " دیا بلکہ انھوں نے ڈ ی ایچ ے کے مختلف معاملات جن کا لاہور اور کراچی سے تعلق ہے کی تحقیقات کا حکم بھی دیا۔جنرل راحیل نے انتہائی اعلیٰ سطح تک تحقیقات کا حکم دیا۔جنرل کیانی ان تحقیقات کے خاتمے کے منتظر ہیں شاید ان کو گمان ہے کہ راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کے ساتھ ہی ان کو کوئی ریلیف مل سکے گا۔جنرل کیانی کر اپنے استحقاق سے زیادہ پلاٹ لینے کا بھی الزام ہے۔
کامران کیانی کے بارے کہا گیا ہے کہ انھوں نے اپنے کاروبار کو توسیع دینے کیلئے جنرل کیانی کے اثر ورسوخ کو استعمال کیا ،اس دوران کامران کیانی کے ڈی ایچ اے سے تعلق، پراپرٹی کاروبار، فوج کے حوالے سے زمینوں کے معاملات کا ذکر ہوتا رہا ہے بلکہ فوج کے خریداری کے منصوبوں جن میں اسلحہ کی خریداری بھی شامل ہے میں افواہوں کی صورت میں یہ بات بھی سامنے آتی رہی کہ جنرل کیانی کے ایک اور بھائی بریگیڈیر (ر) امجد کیانی کا بھی ہاتھ رہا۔ اس ضمن میں بریگیڈیئر (ر) امجد کیانی نے ایک ٹی وی پروگرام میں کہا تھا کہ انھوں نے 2005 میں فوج سے ریٹائرمنٹ لے لی تھی اور کاروبار سے وابستہ رہے۔ میرے بھائی جنرل کیانی کو میرے کاروبار کی بالکل معلومات نہیں تھیں۔ایک بار جنرل کیانی نے مجھ سے یہ پوچھا تھا کہ کیا کاروبار کرتے ہیں ؟ میں نے یہ کہہ کر اس بارے میں بات نہیں کی کہ وہ مثبت یا منفی کسی طور متعصب ہو سکتے ہیں انھوں نے کہا کہ پاک فوج کا نظام اتنا مضبوط اور ٹھوس ہے کہ کوئی ایک شخص چاہے وہ چیف آف آرمی سٹاف ہی کیوں نہ ہو کسی شخص کی فیور نہیں کرسکتا،انھوں نے کہا کہ میں ہر طرح کی تحقیقات کیلئے حاضر ہوں۔
کامران کیانی آرمی چیف کے بھائی نہ ہوتے تو کم از کم اسلحہ خریداری میں کا نام نہ آتا۔بریگیڈیئر (ر) امجد کیانی کا کہناتھا کہ کامران کیانی پراپرٹی کا نہیں بلکہ تعمیراتی کاروبار کرتے ہیں۔ ان کی تعمیراتی کمپنی " نو لمٹ "کے ساتھ رجسٹرڈ ہے۔کامران کیانی دبئی میں ہیں ،ان کی لیگل ٹیم یہاں تمام معاملات دیکھ رہی ہے جب ضرورت پڑی وہ ضرور آئیں گے۔
کامران کیانی کو نیب کے ذریعے پاکستان لانے کے احکامات جاری ہوچکے ہیں،اب شاید نئے آرمی چیف کے آنے سے رک جائیں،جنرل کیانی تو یہی امید لگائے بیٹھے ہیں۔ یہ صورتحال جنرل کیانی اور ان کے بھائیوں کیلئے حوصلہ افزا ءنہیں رہی اور نہ ہی فوج کے ادارے کیلئے اچھی کہی جاسکتی ہے۔سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ضیا الدین بٹ نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جنرل کیانی نے اپنے بھائیوں سے خود کو الگ رکھا تھا۔ان کے بھائیوں کے کاروبار تھے۔کامران کیانی کی جنرل جنجوعہ کے بیٹے کے ساتھ شراکت تھی انھوں نے جے کے " کے نام سے ایک کمپنی بنا لی تھی۔ اس نے ٹھیکے لئے اور ان میں بڑی کامیابی ملی ۔ سابق کور کمانڈر جنرل امجد شعیب کہتے ہیں کہ جنرل کیانی جب آرمی چیف تھے ان کے بھائیوں کے بارے میں مختلف خبریں آتی رہیں ،جب جنرل کیانی سے اس سلسلے میں شکایت کی گئی تو جنرل کیانی نے کہا تھا کہ ان کی معلومات کے مطابق ان کے بھائی کوئی خلاف قانون کام نہیں کر رہے اگر کر رہے ہیں تو کوئی بھی ادارہ ان کیخلاف کارروائی کرسکتا ہے مجھے کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔